امید تو نہیں تھی لیکن اطلاعات کے مطابق مریم نواز کی پنجاب حکومت نے صوبے کی سول بیوروکریسی اور پولیس میں سیاسی بنیاد پر تعیناتیوں کے سلسلے کو روک دیا ہے۔
وہ کب تک ایسا کرنے میں کامیاب رہیں گی اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا لیکن یہ وہ عمل ہے جس کی پاکستان میں گورننس کو بہتر بنانے کیلئے اشد ضرورت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا مریم نواز حکومت پر بہت دباؤ ہے کہ پی پی پی کو پنجاب کے اُن علاقوں میں جہاں سے اُسے انتخابات میں فتح ملی وہاں کی سول انتظامیہ اور پولیس کے افسران اپنی پسند کے لگانے کی اجازت دی جائے کیوں کہ یہی ماضی میں ہوتا رہا۔
ہر سیاسی جماعت کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی کوشش رہی کہ اُن کے علاقوں میں اُن کی مرضی کے پولیس اور سول انتظامیہ کے افسران تعینات کیے جائیں تاکہ اُن کے مرضی کے مطابق انتظامیہ اور پولیس کام کرے۔
یہ وہ رجحان ہے جس کا آغاز 80 کی دہائی سے ہوا اور پھر بڑھتا ہی چلا گیا اور آج پاکستان کی سول سروس اور پولیس کو بدترین قسم کی سیاسی مداخلت کا سامنا ہے جس نے ہمارے گورننس سسٹم کو نہ صرف تباہ کیا بلکہ ہر سرکاری ادارے کی کارکردگی کو شدید نقصان پہنچایا۔
اس سے نہ پاکستان کا فائدہ ہوا نہ پاکستان کے عوام کا۔ مختلف حکومتوں کے دوران انتظامی اصلاحات کیلئے بنائے گئے کمیشنوں اور کمیٹیوں نے ہمیشہ بیوروکریسی میں کی جانے والی تعیناتیوں میں سیاسی اور بیرونی مداخلت کو پاکستان میں خراب گورننس اور بدتر سروس ڈلیوری کی وجہ قرار دیا لیکن کسی حکومت نے اس سیاسی مداخلت کو روکنے کیلئےکوئی عملی قدم نہ اُٹھایا بلکہ یہ سیاسی مداخلت ہر نئی حکومت میں بڑھتی ہی چلی گئی۔
باوجود اس کے کہ سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اپنے انتخابی منشور میں سول سروس یعنی سول انتظامیہ کو سیاست اور بیرونی مداخلت سے پاک کرنے کا وعدہ کیا لیکن یہ وعدہ کبھی وفا نہ ہوا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر پاکستان کی سول سروس کو سیاست زدہ کرنے میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، فوجی ڈکٹیٹرز بھی یہی کچھ کرتے رہے جبکہ تحریک انصاف جس سے بہت امیدیں تھیں کہ وہ اس عمل کو روکے گی، نے تو بیوروکریسی کو سیاست زدہ کرنے کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور اسکی سب سے بڑی مثال عثمان بزدار کی حکومت تھی۔
اُس حکومت کے دوران نہ صرف سول اور پولیس افسران کو ہر چند ماہ بعد تبدیل کر دیا جاتا تھا بلکہ یہ بھی الزام لگائے گئے کہ افسران کو رشوتیں لے کر لگایا اور ہٹایا جاتا رہا۔
ایسے حالات میں مریم نواز حکومت کی طرف سے صوبے میں سرکاری افسران کی تعیناتیوں میں کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت کو روکنے کا فیصلہ اور اس پر عمل درآمد کرنا ایک خوش آئند اقدام ہے جس کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے بلکہ اس پر دوسرے صوبوں اور وفاق کو بھی عمل درآمد کرنا چاہیے۔
پیپلز پارٹی کے مطابق جن شرائط کی بنیاد پر اُنہوں نے ن لیگ کی حکومت کی حمایت کا فیصلہ کیا اُن میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ پنجاب کے اُن اضلاع میں جہاں پی پی پی نے الیکشن جیتا وہاں اُن کے من پسند افسران کو تعینات کیا جائے گا۔ مریم نواز نے حکومت میں آتے ہی ن لیگ کے ممبران اسمبلی پر یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ سرکاری ملازمین کی تعیناتیوں کے سلسلے میں کسی کی سفارش اور مداخلت کو برداشت نہیں کریں گی۔
مجھے یقین نہیں تھا کہ مریم نواز نے جو اعلان کیا اُس پر وہ عمل بھی کر پائیں گی۔ تاہم چیف سیکریٹری پنجاب کے علاوہ میری پنجاب کی بیوروکریسی میں کچھ اہم افسران سے بات ہوئی تو سب نے اس بات کی تصدیق کی کہ سرکاری ملازمین کی تعیناتیوں کیلئے اب سیاسی مداخلت کو روک دیا گیا ہے اور تعیناتیاں رولز کے مطابق متعلقہ اداروں کی طرف سے افسران کے پینل کی بنیاد پر ہو رہی ہیں۔
چیف سیکریٹری نے مجھے بتایا کہ ہر اہم تعیناتی کیلئے پینل متعلقہ ادارہ بھیجتا ہے اور وزیر اعلیٰ اُس پینل میں موجود افسران کو انٹرویو کی بنیاد پر تعینات کرتی ہیں۔ چیف سیکرٹری کا کہنا تھا کسی بھی افسر کو کسی کی سفارش پر تعینات نہیں کیا جا رہا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز کب تک اپنے اس فیصلہ پر ڈٹی رہیں گی۔ اگر واقعی وہ پنجاب کی سول سروس اور پولیس کو غیر سیاسی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور بیرونی اور سیاسی مداخلت کو ختم کر دیتی ہیں تو یہ پاکستان کی گورننس کو بہتر بنانے کی طرف بہت بڑا قدم ہو گا۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق پی پی پی کو یہ بتایا گیا ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف پیپلز پارٹی کے ساتھ کیے گئے وعدے کو نبھانا چاہتے ہیں لیکن مریم نواز اس میں رکاوٹ ہیں۔
ن لیگ کے اندر بھی اسمبلی ممبران کو مرضی کے سرکاری افسران نہ لگانے پر کافی پریشانی ہے لیکن مریم نواز اب تک ڈٹی ہوئی ہیں جس پر اُن کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ