انقلاب کتنی دور ہے؟ : تحریر سہیل وڑائچ


ہر خاص و عام کو علم ہے کہ تضادستان کا ہر ہر شخص تبدیلی چاہتا ہے۔ کوئی سیاست دان ہے یا کوئی عسکری خان، کوئی تاجر بھائی ہے یا نوکری پیشہ بابو، ہر کوئی ملک کے حالات سے غیر مطمئن ہے اور چاہتا ہےکہ ملک کے حالات میں مثبت تبدیلی آئے۔ تبدیلی پر مجموعی اتفاق رائے کے باوجود تبدیلی کے طریق کار اور اس کی تشریح کے بارے میں شدید اختلافات ہیں ۔ عسکری خان اور حکومت خان سمجھتے ہیں کہ معیشت بہتر ہو جائے عوام میں خوشحالی آجائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اپوزیشن بھائی کا خیال ہے کہ انکی حکومت چلنے دی جاتی سازشیں نہ ہوتیں تو تبدیلی دستک دینے والی تھی۔ ان سب آرا میں سب سے دلچسپ آواز ان لوگوں کی ہے جو مذہبی یا سیاسی تبدیلی کے نام پر انقلاب کو آتا ہوا دیکھ رہے ہیں ۔کچھ سیاسی انتہا پسندوں کی رائے میں مقتدرہ کے خلاف انقلاب پنپ رہا ہے جبکہ بعض مذہبی اصلاح پسندوں کی سوچ ہے کہ یہاں کے مسئلوں کا حل اسلامی انقلاب ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ طاغوت یعنی مغربی تہذیب کے خلاف آخری جنگ کی آمد آمد ہے۔

میری ناقص رائے میں ابھی دور دور تک کسی انقلاب کی توقع نہیں ہے۔ حکومتوں میں تبدیلی یا چہروں کی تبدیلی تو پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہےگی لیکن جس انقلاب کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں وہ سراب محسوس ہوتا ہے۔ تضادستان کے ابتدائی دنوں ہی سے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بات شروع ہوئی قرارداد مقاصد لائی گئی لیکن جب 1956ء کا دستور بنایا 1962ء کامارشل لائی آئین بنایا پھر 1973ء کا ایک متفقہ منشور بنا تو ان سارے دساتیر میں کہیں بھی اسلامی انقلاب سمویا ہوا نظر نہیں آتا۔ البتہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے نعروں اور اسلامی انتہا پسندوں کے لائحہ عمل میں اسلامی انقلاب اور جہاد کی بازگشت ضرور سنائی دیتی رہی۔ میری طالب علمانہ رائے میں 1973ء کے آئین کو جب مولانا مودودی، مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی کے ساتھ ساتھ صوبائی اور قومی سیاسی جماعتوں کی تائید مل گئی اور چارو ناچار مقتدرہ نے بھی اسی کا حلف اٹھانا شروع کر دیا تو یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ پاکستان کی منزل اب کوئی انقلاب نہیں صرف اور صرف آئین پر مکمل عملدرآمد ہے۔

زمانۂ طالب علمی میں جامعات میں اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے حق میں جذباتی اور عقلی دونوں طرح کی دلیلیں دی جاتی تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ مغربی جمہوریت سے الگ ایک پورا سیاسی اور معاشی نظام ہے جس کا نفاذ ہونا چاہیے لیکن 75 سالہ تاریخ میں کئی بار مذہبی جماعتوں کو مخلوط حکومتوں اور صوبائی حکومتوں کا حصہ بننے کا موقع ملا ۔ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں جماعت اسلامی کے وزراءکہتے رہے کہ اسلامی نظام کا پورا خاکہ بنا ہوا ہے بس اس پر صرف عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام بڑی مذہبی جماعتیں اور مکاتیب فکر، بینکوں کے معاشی نظام اور ملک کے سیاسی نظام کو پوری طرح تسلیم کر چکے ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ ماضی کے سب مکاتیب فکر آئین کو ریاست چلانے کا واحد حل تسلیم کرتے ہیں تو کبھی القاعدہ کے ایمن الظواہری کا کتابچہ آ جاتا ہے جو پاکستانی آئین کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے اور کبھی کوئی نیا مذہبی اصلاح پسند آ کر دوبارہ سے عام لوگوں کی مذہب سے محبت کا فائدہ اٹھا کر اپنی ایک نئی دکان کھول لیتا ہے اور پھر سے اسلامی انقلاب کا خواب دکھانا شروع کردیتا ہے۔ کچھ لوگ ماضی میں مسلمانوں کے جذبات بھڑکا کر افغانستان اور امریکہ میں جہاد کا اعلان کرتے رہے ہیں کیا ان جنگوں سے مسلمانوں کا اجتماعی فائدہ ہوا یا نقصان؟ میری رائے میں اس سے نقصان ہوا ہے۔

اگرریاست پاکستان نے یا مسلمانوں نے دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو اس کا راستہ جنگ نہیں علم اور ٹیکنالوجی میں مقابلہ ہے جب تک علم اور ٹیکنالوجی کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ہم ساری جنگیں ہاریں گے۔اگر ہمیں انقلاب کے جھوٹے خواب دکھائے جاتے رہے تو اس کا مطلب ہمیں جمہوریت سے دور رکھ کر آمریت اور پاپائیت کے حصار میں بند کرنا ہے۔ تضادستان کا دستور، 56اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ جمہوری، اسلامی اور سماجی بہتری کاحامل ہے اس میں اگر کمی ہے تو اس کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے علامہ اقبال تو پارلیمنٹ کے ذریعے اجتہاد تک کے قائل تھے۔تضادستان میں بہت سوچ سمجھ کر آئین کو ترتیب دیا گیا ہےاور یہ دنیا کے بہت سے جمہوری ممالک کے دساتیرسے بہت بہتر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اس آئین پر اس کی روح کے مطابق کبھی عمل نہیں کیا، کبھی فوج، کبھی عدلیہ اور کبھی اہل سیاست نے اس کی خلاف ورزیاں کیں۔

پاکستان کے جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں انقلاب سے ہی معاملات ٹھیک ہوسکتے ہیں میرا ان سے اختلاف ہے۔ انقلاب خونیں ہوتے ہیں اور ان میں مخالف رائے کو روند اور کچل دیا جاتا ہے، پاکستان کی پوری تاریخ میں ہم اختلافات کے باوجود آگے بڑھتے رہے، اب بھی آگے بڑھتے جائیں گے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور اکثریت کپتان کے وژن سے متاثر ہے، میری رائے میں دراصل کپتان لوگوں کی آدرشوں کا ترجمان ہے جو لوگ سوچتے تھے وہ کہتا رہا ہے چنانچہ بنیادی طور پر ملک کی لیڈر شپ مڈل کلاس کی سوچ کے ہاتھ میں آگئی ہے فی الحال عمران خان اس سوچ کا نمائندہ ہے لیکن اگر کپتان نے اس سوچ سے روگردانی کی یا لوگوں کے آدرشوں کو عملی شکل نہ دی تو تب بھی مڈل کلاس اپنے آدرشوں کے مطابق کوئی نیا لیڈر ڈھونڈ لے گی اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ لوگوں کی خواہش کے مطابق ریاست میں تبدیلیاں نہیں آ جاتیں۔؟

وقت آگیا ہے ہر خاص و عام، مقتدرہ اور عوام، سیاست دان اور اصلاح پسند اس بات کو مان لیں کہ ملک کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ متفقہ آئین ہی ہے، عدلیہ آمرانہ اور عوام مخالف تشریحات کی بجائے جمہوری آزادیوں اور عوامی خواہشات پر مبنی ترقی پسندانہ راستے کھولےتاکہ آئین کے اندر لوگوں کو جو حقوق حاصل ہیں انکے ثمرات ان تک پہنچیں۔ انقلاب کی کنفیوزڈ آوازیں ہمارے جمہوری اور آئینی راستے کو کھوٹا کررہی ہیں۔ فی الحال ریاست کو سیاسی اور معاشی بحران سے نکالنے کیلئے مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ پارلیمان یہ راستہ بخوبی نکال سکتی ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں اسی فورم پر مذاکرات کو آگے بڑھائیں، مستقبل کے سیاسی منظر نامےکیلئے سیاسی جماعتیں ایک نئے چارٹر پر متفق ہو جائیں جس میں عدلیہ کی آزادی، میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے متفقہ عہد کیا جائے مقتدرہ کوبھی پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے اپنےآئینی کردار تک محدود رہنا چاہیے، اصل بات یہ ہے ہم متفقہ آئین کے ذریعے ضروری لائحہ عمل تو بنا چکے ہیں اب مسئلہ صرف اس کو تقدیس دینے اور اس پر مکمل عمل کرنے کا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کے مسئلوں کا حل انقلاب نہیں صرف اور صرف دستور ہی ہوتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ