قاتل بنگلہ دیشی عدالتوں کا خونی چہرہ۔۔۔تحریرسلیم منصور خالد


برطانوی سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش کے عدالتی ڈراما کو بے نقاب کردیا انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیرنگرانی چلنے والے نام نہاد ’بنگلہ دیش انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ (ICT) اور پھر بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش بننے کے چالیس برس بعد اچانک ایک عدالتی ڈراما شروع کیا۔ جس کے تحت وہاں کے معزز سیاسی و دینی رہنمائوں مطیع الرحمٰن نظامی[۱۱مئی ۲۰۱۶ء]،  علی احسن مجاہد[۲۲ نومبر۲۰۱۵ء]، میرقاسم علی [۳ستمبر ۲۰۱۶ء]، قمر الزماں [۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء]، عبدالقادر مُلّا[۱۲دسمبر۲۰۱۳ء]،صلاح الدین قادری چودھری [۲۲نومبر ۲۰۱۵ء]کو پھانسی دے دی، جب کہ پروفیسر غلام اعظم (م: ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۴ء)، اے کے ایم یوسف (م: ۹فروری ۲۰۱۴ء)، مولانا عبدالسبحان (م:۱۴فروری ۲۰۲۰ء) ، دلاور حسین سعیدی (م:۱۴؍اگست ۲۰۲۳ء) کو قیدکے دوران موت کی وادی میں دھکیل دیا۔

دوسری طرف جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے متعدد رہنمائوں کو غیرحاضری میں پھانسی کی سزائیں سنادیں۔ پھر ایک بڑی تعداد اِن جعلی عدالتوں کی بے مغز اور بے ثبوت کارروائیوں کے بوجھ تلے آج تک جیلوں میں بند ہے۔ جماعت اسلامی بحیثیت سیاسی پارٹی، قومی یا بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔جماعت کو اجتماع کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ اس کے رفاہی ادارے تباہ کردیئے گئے ہیں، یا ان پر عوامی لیگی حکومت نے قبضہ کر لیا ہے۔ مولانا مودودی کی کتب کو دو مرتبہ لائبریریوں سے نکال نکال کر جلایا یا ضائع کیا گیا ہے۔ حالیہ عرصے میں جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کے قاتلوں کو کھلی چھٹی دی گئی ہے۔

اس تمام بے انصافی، ظلم اور انسانی حقوق کی پامالی پر برصغیر (بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان) میں انسانی حقوق کے علَم بردار خاموش اور قاتل حسینہ واجد کے طرف دار ہیں۔ مذکورہ بالا عدالتی ڈرامے میں، بنگلہ دیش کی انھی کنگرو عدالتوں نے چودھری معین الدین (فی الوقت بنگلہ نژاد برطانوی شہری) کو بھی غیرموجودگی میں سزائے موت سنائی تھی۔یاد رہے معین الدین زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ سے وابستہ تھے، لیکن انتخابات کے سال ۱۹۷۰ء اور فساد کے سال ۱۹۷۱ء میں وہ ایک ممتاز اور فعال صحافی کی حیثیت سے  خدمات انجام دے رہے تھے۔ سزائے موت سنانے کے بعد بنگلہ دیش حکومت نے ریڈ وارنٹ جاری کراتے ہوئے، معین الدین کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔

۲۰۱۹ء میں برطانوی ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اپنی رپورٹ میں انھیں ایک سزایافتہ اور جنگی مجرم کے طور پر درج کیا۔ جس پر معین الدین چودھری نے برطانوی سپریم کورٹ میں ’ہتک ِ عزّت‘ کا دعویٰ کیا۔ انھوں نے بنگلہ دیشی عدالتی کارروائی اور فیصلے کو جعلی، ظالمانہ، بے بنیاد اور توہین آمیز قرار دیتے ہوئے دادرسی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس پر جمعرات ۲۰جون ۲۰۲۴ء کو برطانوی سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے، معین چودھری کو بنگلہ دیشی عدالت کے نام نہاد فیصلے سے بری قرار دیا اور پُرزور لفظوں میں حسینہ واجد کی غلام ’عدالتوں‘ کی حیثیت کو بے نقاب کر دیا۔ یہاں پر اسی فیصلے کی روشنی میں چند حقائق پیش کیے جارہے ہیں۔

برطانوی سپریم کورٹ میں ممتاز مسلم کمیونٹی رہنما چودھری معین الدین کی جانب سے برطانوی ہوم سیکرٹری کے خلاف ہتک عزّت کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے صدر لارڈ ریڈ نے اس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد متفقہ تاریخی فیصلے کا اعلان کیا۔ کیس کی سماعت یکم و ۲ نومبر ۲۰۲۳ء کو ہوئی، لارڈ ریڈ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بنچ میں جسٹس لارڈ سیلز، لارڈ ہیمبلن، لارڈبروز اور لارڈ رچرڈز شامل تھے۔

دسمبر ۲۰۱۹ء میں، چودھری معین الدین نے قانونی فرم ’کارٹرک‘ کے ذریعے ہوم آفس کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ شروع کیا۔ اس کی قانونی ٹیم میں سینئر وکیل ایڈم ٹیوڈر اور مشیر جیکب ڈین اور للی واکر پار شامل تھے۔ چودھری معین نے برطانوی ہوم آفس کے کمیشن برائے انسداد انتہا پسندی کی ۲۰۱۹ء کی رپورٹ کی مناسبت سے ہوم سیکرٹری کے خلاف:’’منافرت انگیز انتہا پسندی کو چیلنج ‘‘کے عنوان سے کارروائی شروع کرائی۔ دراصل ہوم آفس کی رپورٹ میں چودھری معین الدین پر ’انتہا پسندی‘ کا الزام لگاتے ہوئے بنگلہ دیش میں نام نہاد ’جنگی جرائم کی عدالت‘ کے متنازعہ فیصلے کا حوالہ دیاگیا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے خلاف جنگ کے دوران چودھری معین الدین نے اپنے پر لگنے والے تمام ’جنگی جرائم‘ کے تمام الزامات کی سختی سے تردید کی اور بنگلہ دیشی حکام کے الزامات کو مکمل طور پر بے بنیاد اور سیاسی محرک قرار دیا۔

برطانوی سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے: چودھری معین الدین ۱۹۴۸ء میں مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے، جو اس وقت پاکستان کا حصہ تھا۔ بنگلہ دیش نے دسمبر ۱۹۷۱ء میں جنگ سے گزر کر پاکستان سے علیحدگی اختیار کی۔۱۹۷۳ء سے، چودھری معین الدین برطانیہ کے رہائشی ہیں اور ۱۹۸۴ء سے برطانوی شہری ہیں۔ برطانیہ میں اپنے قیام کے دوران، انھوں نے متعدد سماجی اور رفاہی اداروں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح کئی اعلیٰ سطحی شہری اور انسانی ہمدردی کے عہدوں پر فائز رہے ہیں، جن میں کونسل برائے مساجد برطانیہ اور آئرلینڈ کے سیکرٹری جنرل اور برطانوی وزارت صحت کے تحت ایک پراجیکٹ ‘NHS میں مسلم اسپرچوئل کیئر پروویژن کے ڈائریکٹر شامل ہیں۔ وہ بین الاقوامی انسانی فلاحی تنظیم ’مسلم ایڈ یو کے‘ کے بانی ممبر اور چیئرمین تھے۔ انھوں نے ایک متنوع کثیر العقیدہ اتحاد کی سربراہی کی، جس میں عالمی مذہبی گروہ شامل ہیں، جن میں مسلم، عیسائی، یہودی، ہندو، بودھ مت اور دیگر مذہبی کمیونیٹیوں کے معزز لوگ شامل ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے: چودھری معین الدین نے بنگلہ دیش میں چلنے والے مقدمے تک، ۴۱سال کے دوران برطانیہ میں کھلے عام اور فعال زندگی گزاری۔ بنگلہ دیشی حکومت اس پورے عرصے میں ان کے ٹھکانے سے باخبر تھی۔ بنگلہ دیشی خصوصی عدالت کا یہ کہنا کہ ’’وہ یا تو ‘مفرور تھے یا ‘خود کو چھپا لیا تھا‘‘، واضح طور پر غلط مفروضہ ہے۔ فیصلے میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ چودھری معین الدین کو ۲۰۱۳ء میں بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) نے ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف مبینہ جرائم کے الزام میں ۴۰ سال بعد اچانک غیرحاضری میں سزائے موت سنائی تھی۔

اپنی کارروائی کے دوران قابلِ قبول عدالتی معیارات کو برقرار رکھنے میں ICT بُری طرح ناکام رہا۔ اسے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ان گواہوں کی گواہی پیش کی، جو اس وقت نابالغ تھے۔ ان شواہد، اور میڈیا رپورٹس کی اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی عدالتی، قانونی اور انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید اور مذمت کی گئی ہے۔ یورپی یونین، اور بہت سی غیر ملکی حکومتیں انھیں مسترد کرچکی ہیں۔

فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے:انٹرپول نے ابتدائی طور پر بنگلہ دیش کی حکومت کی درخواست پر چودھری معین الدین کے خلاف ’ریڈوارنٹ‘ جاری کیا تھا، لیکن بعد میں ICTکے قانونی طریق کار کی بے ضابطگیوں اور مضحکہ خیز حرکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسے منسوخ کر دیا گیا، جو بین الاقوامی منصفانہ سماعت کے معیارات کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے سزائیں دے رہی ہے۔

فیصلے میں انٹرپول کمیشن کے حوالے سے ان بین الاقوامی اداروں کی ایک طویل فہرست بھی دی گئی ہے، جنھوں نے آئی سی ٹی کی کارروائیوں پر تنقید کی تھی جیسے: اقوام متحدہ(ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، ججوں اور وکلا کی آزادی کے لیے خصوصی نمائندے، خصوصی نمائندہ ماورائے عدالت، سزائے موت اور تشدد پر خصوصی ورکنگ گروپ) مختلف غیر ملکی حکومتیں اور قومی ادارے (امریکا کے خصوصی سفیر برائے عالمی فوجداری انصاف)، ریاستہائے متحدہ کانگریس کے ٹام لینٹوس، انسانی حقوق کمیشن، یورپی یونین پارلیمنٹ، برطانیہ کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں یعنی ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ، انٹرنیشنل سینٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس وغیرہ___ یہ سبھی ادارے بنگلہ دیشی ٹریبونل (ICT) کے طریق کار پر شدید تحفظات اور سخت تشویش کا اظہار اور گواہوں کے اغوا، دھمکیوں کے واقعات کی دستاویز پیش کرتے آئے ہیں۔   دفاعی وکیل، میڈیا سنسرشپ، حکومت کی طرف سے مجرم کو سزا دینے کا دباؤ، عدالتی افسران کی آزادی کا فقدان بھی شامل ہے۔ خود بنگلہ دیشی حکام کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر صاف طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ معین چودھری کے خلاف انٹرپول کے آئین یا انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے مطابق آئی سی ٹی کی شفاف کارروائی نہیں کی گئی۔

برطانوی ہوم سیکرٹری نے معین الدین کے دعوے کو مسترد کرنے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی تھی اور کہا تھا کہ معین الدین کا ہتک عزت کا مقدمہ برطانوی ہائی کورٹ میں قابلِ سماعت نہیں ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ۱۹۹۵ء میں چینل۴ کی دستاویزی فلم میں جنگی مجرم قرار دینے اور بنگلہ دیشی عدالت سے سزا کی بنیاد پر معین الدین کی ساکھ ختم ہوگئی ہے۔ عدالت نے ہوم آفس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ چینل ۴ کی دستاویزی فلم کے بعد سے، معین الدین نے ایچ ایم دی کوئین اور موجودہ بادشاہ اور اس وقت کے پرنس آف ویلز سے کئی مواقع پر ملاقات کی، بکنگھم پیلس میں کوئینز گارڈن پارٹیوں میں شرکت کی۔ سپریم کورٹ کے صدر لارڈ ریڈ نے کارروائی کی نگرانی کرتے ہوئے لکھا: ’’کسی بھی فرد کے لیے عدالتوں تک رسائی کا بنیادی شہری حق ہے۔ اس حق کو صدیوں سے عام قانون اور میگنا کارٹا کے ذریعے تسلیم کیا گیا ہے، اور یہ انسانی حقوق ایکٹ ۱۹۹۸ء کے تحت محفوظ ہے‘‘۔

برطانوی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک تاریخی عدالتی فتح ہے۔ اگر بنگلہ دیش کا نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) واقعی ’انٹرنیشنل‘ اور ایک عدل و انصاف کا فورم ہوتا تو دُنیا اس کے فیصلوں کو مانتی۔ اس نوعیت کا ڈراما تو اس سے قبل دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد نیورمبرگ اور ٹوکیو ٹرائلز میں بھی نہیں کھیلا گیا تھا، مگر بنگلہ دیش میں یہ سنگین، صریح اور کھلی بے انصافی کی گئی۔ برطانوی ہوم سیکرٹری کو چودھری معین کی بلندپایہ قانونی ٹیم اور درخواست کے مندرجات کی سچائی اور بنگلہ دیشی عدالت کی بددیانتی کا پردہ چاک ہونے کی بنیاد پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے صدر جج لارڈر یڈ کی جانب سے برطانوی ہوم سیکرٹری کے استدلال کو ’بیہودہ‘ قرار دینا ایک اہم موڑ تھا۔ یاد رہے اس فیصلے کو لکھنے والے تمام افراد غیرپاکستانی اور غیرمسلم ہیں، کہ جن پر کسی حوالے سے پاکستانی یا اسلامی ہونے کے ’تعصب‘ کی پھبتی نہیں کَسی جاسکتی۔ انھوں نے فیصلہ خالص قانون اور عدل کی بنیاد پر دیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دُنیا بھر میں جن لوگوں پر، بے گناہ پھانسی پانے والے افراد کی مظلومیت کا کیس پیش کرنے کی ذمہ داری ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ اخبارات، ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، سیمی ناروں اور تحقیقی و تجزیاتی مقالات کی صورت میں مظلوم مقتولین کا کیس پیش کریں اور بنگلہ دیشی قاتل حکومت کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔

بشکریہ ترجمان القران