بجلی کے معاملات اور ضروری اقدامات : تحریر اکرم سہیل


آزاد کشمیر کے لیڈر تحریک آزادئ کشمیر میں ہمیشہ اتنے مصروف رہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کے حقوق کا انہیں خیال نہ آیا اور نہ ہی یہاں کے عوام کبھی ایسے جاگے جیسے حالیہ تحریک میں انہوں نے اجتماعی بیداری کا ثبوت دیا ۔حکومتی سطح پر یہ کریڈٹ محترم سردار سکندر حیات خان مرحوم ( سابق وزیراعظم) کو جاتا ہے کہ 2003 میں جب منگلا ڈیم کی توسیع کا معاملہ اٹھا تو انہوں نے ایک تحریری معاہدے کے بغیر توسیع کا کام شروع کرانے سے سختی سے انکار کردیا۔اس وقت بھی میرپور میں عوامی تحریک چلی تھی لیکن وزیراعظم وقت نے انہیں ملک دشمن قرار نہیں دیا تھا بلکہ انہیں اعتماد میں لے کر چلے اور فیڈرل حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اس عوامی آواز کو اپنی قوت کے طور پر استعمال کیا۔ پھر حکومت پاکستان کے ساتھ معاہدہ ہوا ۔ اور اس معاہدے میں آزاد کشمیر کیلۓ پیداواری لاگت کے اصولوں پر بجلی کا نرخ مقرر کرانے کے علاوہ ساٹھ ارب روپے کے میرپور کیلۓ ترقیاتی منصوبے بھی منظور کرواۓ ۔ اب چند سال سے آزاد کشمیر میں بجلی کے بلات میں کھربوں روپے سالانہ ان ڈکیتیوں کا بھتہ بھی شامل کرنے سے جو پاکستان میں آئی پی پیز کو ادا کیا جا رہا ہے اس ڈکیتی کے خلاف آزاد کشمیر میں چلنے والی تحریک کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ تحریک ریاست پاکستان کے خلاف نہیں تھی بلکہ پاکستان کی ڈکیت بدمعاشیہ کے خلاف صرف اپنے ان جائز حقوق کے حصول کیلئے تھی جو اصول آئین پاکستان کے آرٹیکلز 157 اور 161 میں طے کر دیۓ گۓ ہیں۔ کہ کسی خطے میں پیدا ہونے والی پن بجلی سب سے پہلے اس خطے کو براہ راست مہیا کی جاۓ گی اور اس خطے سے اس کی قیمت پیداواری لاگت سے زیادہ وصول نہیں کی جائے گی۔
اس تحریک کے نتیجہ میں آزاد کشمیر حکومت نے تین روپے فی یونٹ بجلی صارفین کو مہیا کرنے کا نوٹیفیکیشن تو جاری کر دیا اور حکومت پاکستان نے پچیس ارب روپے بھی دیئے ہیں لیکن یہ سب عارضی اقدامات ہیں.لہذا جب تک مالی معاملات سے جڑے نہائت اہم امور جب تک حکومت پاکستان سے طے نہیں کیۓ جائیں گے آزاد کشمیر میں حکومتی اور عوامی سطح پر بحرانی کیفیت بدستور رہے گی ۔لہذا ضروری ہے کہ آزاد کشمیرحکومت ان امور کو حکومت پاکستان سے تحریری طور پر اٹھائے اور ان پر بات چیت بھی کرے۔
1)آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والی سستی بجلی کو پہلے پاکستان میں قائم گرڈ سٹیشنز کی سیر کروانے کیلیۓ بھیجنے اور پھر ڈسکوز کے ذریعے کئی گنا مہنگی کر کے واپس آزاد کشمیر لانے کی مشق ختم کی جائے اور منگلا ڈیم اور دیگر پن بجلی کے منصوبوں سے آزاد کشمیر کو براہ راست بجلی مہیا کی جاۓ۔ تمام اضلاع میں محکمہ برقیات اور واپڈا کے گرڈ سٹیشن پہلے سے موجود ہیں۔ واپڈا سے حسب ضرورت یہ گرڈ سٹیشنن خریدے بھی جا سکتے ہیں۔
2) پاکستان میں نپپرا اور دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے آزاد کشمیر کو بجلی کے انراخ مقرر کرنے کیلۓ جو نوٹیفیکیشنز 2019 ، 2022 اور اس کے متعلق جاری ہوئے ہیں وہ سب حکومت پاکستان سے منسوخ کراۓ جائیں جن کے مطابق نیپرا کے ذریعہ آزاد کشمیر کی سستی بجلی واپڈا سے خرید کر کے پھر ڈسکوز کے ذریعہ مہنگی کر کے آزاد کشمیر کو واپس بیچی جاتی ہے اور یہ بھی طے کروایا جائے کہ آزاد کشمیر کیلۓ بجلی کا ٹیرف نیپرا مقرر نہیں کرے گا بلکہ واپڈا منگلا ڈیم سے فی یونٹ پیداواری لاگت پر آزاد کشمیر کو براہ راست بجلی مہیا کرے گا۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل تک واپڈا منگلا ڈیم سے ڈسکوز کو تین روپے پچاس پیسے فی یونٹ بجلی مہیا کرتا رہا ہے۔ اسی ریٹ پر آزاد کشمیر جہاں یہ بجلی پیدا ہو رہی ہے اس علاقہ کو بجلی مہیا نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
3)منگلا ڈیم کی بجلی کو ڈسکوز کی سیر کروا کر آزاد کشمیر کو واپس مہیا کی جاتی ہے اس پر سیلز ٹیکس بھی آزاد کشمیر سے وصول کرنے کیلۓ بقایاجات نکالے گۓ ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بجلی آزاد کشمیر سے پاکستان بیچی جا رہی ہے تو گذشتہ پچاس سال سے آزاد کشمیر سے جو بجلی برآمد کی گئ اس کل آمدنی پر سیلز ٹیکس واپڈا ، آزاد کشمیر کو ادا کرے نہ کہ یہ سیلز ٹیکس آزاد کشمیر سے وصول کیا جاۓ۔
4) آزاد کشمیر کو منگلا ڈیم سے بجلی مہیا کرنے کیلۓ پیداواری لاگت 3روپے فی یونٹ کا نوٹیفیکیشن حکومت پاکستان سے جاری کروایا جائے اور آزاد کشمیر حکومت خود اس ریٹ میں مناسب انتظامی اخراجات شامل کر کے آزاد کشمیر کے صارفین کیلۓ خود ریٹ مقرر کرے اور بلات مرتب کرنے کیلۓ لاہور کی جس کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا ہے وہ ٹھیکہ فوری منسوخ کر کے آزاد کشمیر میں حسب سابق بجلی کے بل پرنٹ کئے جائیں۔
5)حکومت پاکستان کی جانب سے متذکرہ بالا نوٹیفیکیشنز جن میں یہ بھی درج ہے کہ اگر آزاد کشمیر حکومت نپپرا کے مقرر کردہ ریٹ پر ادائیگی نہیں کرے گی تواولا” اسے واٹر یوز چارجز ادا نہیں کۓ جائیں گے اور دوئم آزاد کشمیر کا این ایف سی ایوارڈ کے فیڈرل مالی حصص سے اتنا حصہ کاٹ کر ڈسکوز کو ادائیگی کی جائے گی۔ ان فیڈرل نوٹیفیکیشنز کو تاریخ اجراء سے منسوخ کرایا جائے۔ فیڈرل حکومت نے حال ہی میں جو گرانٹ دی ہے یہ مستقل حل نہیں ہے۔
6)پن بجلی کے منصوبے اپنی جملہ تعمیراتی لاگت پانچ سے دس سال کے اندر پوری کر لیتے ہیں لہذا آزاد کشمیر میں لگنے والے پن بجلی کے منصوبوں (نیلم جہلم اور ددنیال پراجیکٹ ) کے معاہدوں میں یہ درج کیا جائے کہ یہ منصوبے دس سال کے بعد آزاد کشمیر کو واپس کر دئے جائیں گے اور منگلا ڈیم کی واپسی پر بھی بات کی جائے۔یہ پابندی اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کے آرٹیکلز کی روشنی میں ہے جس کے مطابق کسی خطے کے قدرتی وسائل پر وہاں کے لوگوں کا حق ملکیت اور حق استفادہ ان کے بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم شدہ ہے اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 38 کی روشنی میں بھی کسی قسم کا انفرادی یا اجتماعی استحصال ممنوع ہے اور یہ آئینی خلاف ورزی غداری اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔
7) آزاد کشمیر حکومت کے زیر انتظام لگنے والی پن بجلی کے منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی کو نیشنل گرڈ میں بھیجنے کی بجائے براہ راست آزاد کشمیر کے ملحقہ علاقوں میں پیداواری لاگت پر مہیا کی جائے ۔
8) قیام پاکستان سے قبل جموں و کشمیر کی مہاراجہ حکومت کے ساتھ پنجاب حکومت کا معاہدہ تھا جس کے مطابق دریائے جہلم سے نکلنے والی نہر اپر جہلم کا آبیانہ مہاراجہ کی حکومت کو ادا کیا جاتا تھا ۔آج کے حساب سے اس پانی کے اقتصادی مفاد(economic benefits ) کا حساب کر کے نئے ریٹ کے مطابق آبیانہ بحال کرایا جائے۔
9) آزاد کشمیر میں چینی، کورین اور دیگر پرائیویٹ سیکٹر میں جو کمپنیاں بجلی پیدا کر رہی ہیں ان سے واٹر یوز چارجز باقاعدگی سے آزاد کشمیر حکومت وصول کرے اور معاہدوں کے مطابق 25 سال کے بعد ان پراجیکٹس کی آزاد کشمیر حکومت کو واپسی یقینی بنائی جاۓ ان معائدوں پر آزاد کشمیر حکومت کے دستخط نہ کروانا آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ایک قانونی سقم موجود ہے۔ جس پر بھی آزاد کشمیر حکومت توجہ دے۔
10) اور آخر میں اس امر کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ آٹے پر سبسڈی جو پہلے دس ارب روپے سالانہ تھی اب بیس ارب روپے سالانہ ہوگی جو بڑی مالی کرپشن کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے اس کے بجائے ٹارگیٹڈ سبسڈی کا نظام وضع کیا جائے اور ہیلتھ کارڈ کے ذریعہ پرائیویٹ ہسپتالوں کے پیٹ بھرنے کی بجاۓ یہ رقم آزاد کشمیر کے سرکاری ہسبتالوں کو آلات اور سٹاف مہیا کرنے پر خرچ کی جائے تا کہ آزاد کشمیر کے لوگ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں جا کر خجل نہ ہوں۔اور آزاد کشمیر کے عوام اپنے علاقوں میں صحت کی سہولتیں حاصل کر سکیں۔