کیا ن لیگ سنہری موقع گنوارہی ہے : تحریر محمود شام


موسم اچھا، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان

یہ آپ کیلئے نہیں۔ مسلم لیگ (نواز) کیلئے ہے۔ اس سے اچھا موسم ان کیلئے کبھی نہیں آیا ہو گا۔ اتنا پانی بھی انہیں کبھی وافر نہیں ملا ہو گا۔ مٹی نے بھی اتنا سونا کبھی نہیں اگلا ہو گا۔ مقتدرہ ان پر مہربان ہے۔ رضاکارانہ یا کسی معاہدے کے تحت۔ میڈیا پر مکمل کنٹرول ہے۔ رقیب کا نام بھی نہیں لیا جا سکتا۔ عدالتیں ہلکی سی جاگتی ہیں۔ پھر غنودگی میں چلی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر دیوار آتش کھڑی کی جارہی ہے۔ ہوا اتنی موافق ہے تون لیگ اپنا سنہری موقع کیوں گنوارہی ہے۔

ن لیگ کے بانی، سپریم لیڈر بھی وطن میں موجود ہیں۔ ان کی صحت بھی ماشاء اللّٰہ اس وقت مثالی ہے۔ چھوٹے بھائی ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ تمام اختیارات اور تمام تام جھام کے ساتھ۔ ان کے سمدھی ڈپٹی وزیر اعظم ہیں۔ وزیر خارجہ ہیں۔ ان کی دختر نیک اختر تخت لاہور پر رونق افروز ہیں۔ سب سے بڑے صوبے میں ان کی فرماں روائی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ اور بلوچستان کی حکمراں ہے۔ وہ بھی تن من دھن سے ان کے ساتھ ہے۔ ایسا کھلا میدان ایسے جابر دَور میں ن کو میسر ہے۔ پھر کیسی جھجک، کیسا تامل۔ ان کے سب عہدیدار ساتھ ہیں۔ کوئی فارورڈ بلاک نہیں ہے۔ اس وقت مقتدرہ کی اپنی کوئی اور محبوب جماعت نہیں ہے۔ کوئی انحرافی گروپ میدان میں نہیں ہے۔ ان کی خارجہ و داخلہ پالیسی پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔فصل پکی ہوئی ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے دس کروڑ سے زیادہ کسی بھی مہربانی پر اپنے دل و جاں وار دیں گے۔ مخلوق پیاسی ہے۔ واہگہ سے گوادر تک 24کروڑ پاکستانی کسی بھی راحت پر صد شکر بجا لائیں گے۔ آپ کے مرکزی رہنماؤں کو مکمل یقین ہے کہ آپ کے سب سے بڑے مخالف کو کسی نہ کسی مقدمے میں الجھائے رکھا جائے گا۔ خیبر پختونخوا میں حکومت حریف کی ہے۔ لیکن فنڈز تو آپ کے پاس ہیں۔ وہاں کے وزیر اعلیٰ شعلہ بیانی کرسکتے ہیں۔ بغاوت نہیں کرسکتے۔ صوبے کے عوام کو کوئی راحت خود نہیں دے سکتے۔ ضرورت ہو تو گورنر راج لگ سکتا ہے۔ عدالتیں توثیق بھی کردیں گی۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن۔ اپنی اولادوں کے سوالات سنئے۔ وہ ضرور پوچھیں گے کہ امریکی کانگریس میں اتنی اکثریت سے کسی قرار داد کا منظور ہونا کیا اس بات کی شہادت ہے کہ امریکہ واقعی پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی سر بلندی چاہتا ہے۔ انہیں خواجہ محمد آصف وزیر دفاع، رانا ثناء اللہ مشیر برائے وزیر اعظم برائے سیاسی امور اور پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری صاحبہ کے بیانات سنا دیجئے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے ردّ عمل سے بھی آگاہ کر دیں۔ انہیں یقین ہوجائے گا کہ ہم اتنے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ کہ اب امریکہ کے خلاف حکومتی بیانات سے امریکہ سے تعلقات خراب ہونے کا امکان نہیں ہے۔ امریکہ ویسے بھی صدارتی انتخابات کے نازک مرحلے میں داخل ہورہا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن اپنی پیرانہ سالی کے باوجود سابق صدر ٹرمپ کے مقابلے میں تندہی سے کھڑے ہیں۔ امریکہ جیسی سپر طاقت میں قیادت کا فقدان ہے۔ ان دونوں جماعتوں کو بائیڈن اور ٹرمپ سے ہٹ کر کوئی نئی تازہ دم قیادت میسر نہیں آ رہی ہے۔ ہمسایہ بھارت میں بھی نریندر مودی کو دوبارہ موقع ملا ہے۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد شیخ پھر وزارتِ عظمیٰ پر مسند نشیں ہے۔ تو پاکستان میں بھی 1985 سے باریاں لیتی قیادتوں کو اگر پھر سے ملکی خدمت کیلئے زحمت دی گئی ہے تو کیا برا ہے۔مسلم لیگ ن کے پاس 38سال کا تجربہ بھی ہے۔ ملک کے اندر حکومت کرنے کا۔ ملک سے باہر حکومت کرنے کا۔ پوری کابینہ بار بار لندن جانے کی استطاعت رکھتی رہی ہے۔ وہ دنیا کی پارلیمنٹ کی ماں کو قریب سے دیکھ چکی ہے۔ برطانوی پارلیمانی نظام ہمارے ہاں بھی عوام کا پسندیدہ نظام ہے۔ اس میں ن لیگ کی اکثریت ہے۔

میں پورے صدق دل سے یہ سوچ رہا ہوں کہ اس موقع سے یہ تجربہ کار، جہاندیدہ،ٹیم پورا فائدہ کیوں نہیں اٹھارہی ہے۔ مسائل اپنے شباب پر ہیں، معاشی ہوں، علمی، زرعی، صنعتی، توانائی، ان کے حل کا تجربہ اور اہلیت ن لیگ کو ہے۔ ہمیں احساس ہے کہ اپریل 2022 سے جب کئی جماعتیں حکومت کے مزے لوٹ رہی تھیں اس وقت بھی تنقید کا ہدف ن لیگ تھی۔ اب جب پی پی پی اور ن لیگ دونوں حکومت میں ہیں۔ پی ٹی آئی بھی ایک صوبے کی سرکار ہے۔ ان دنوں بھی عوام کا غیظ و غضب۔ تجزیہ کاروں کے احتساب کا نشانہ ن لیگ ہے۔

مجھے شدت سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ ن لیگ ایک سنہرا موقع گنوارہی ہے۔ اس وقت وہ چاہے تو تاریخ میں زندہ رہ سکتی ہے۔ ووٹ کو عزت دو جیسے عظیم نعرے کی تخلیق کرنیوالے اس وقت بھی عوام کے دل میں اترنے والا نعرہ تراش سکتے ہیں۔ 1971کے المیے سے پہلے۔ 1970کے انتخابات کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی کے سارے حقیقی اور بانی رہنما 70 کلفٹن میں میٹنگیں کرتے تھے۔ باہر خلق خدا کو مشرقی پاکستان میں ناگفتہ بہ صورت حال پر تشویش ہوتی تھی۔ تو ہم اخبار نویس ڈاکٹر مبشر حسن، مصطفیٰ کھر، محمد حیات خان شیرپاؤ سے کہتے تھے کہ مشرقی پاکستان میں بگڑتی صورتحال میں پاکستانی عوام فوجی قیادت کے ساتھ پیپلز پارٹی کو بھی ذمہ دار قرار دے رہے ہیں تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پاتے تھے۔ آج تک پی پی یہ داغ نہیں دھو سکی ہے۔

اب پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے پیچیدہ اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ روپے کی قدر ہو ،افراط زر ہو، توانائی کی قلت، بجلی کے بل، گیس کی کمی، گرمی کی شدت، بے روزگاری کا سیلاب، ایسے میں خلق خدا کو چند بول تسلی کے چاہئے ہوتے ہیں۔ کوئی رعایت، کوئی سبسڈی، بنیادی ضروریات کی اشیا، آٹا، چینی، پانی، چاول، چائے، سب کی قیمتیں ملکی اکثریت کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ آئی ایم ایف کو اگر اپنے ہم وطنوں کو مشکلات میں ڈال کر خوش کریں گے۔ چند ارب ڈالر کیلئے۔ تو آپ واہگہ سے گوادر تک اپنے بھائی بہنوں کی ہمدردیاں کھوتے چلے جائیں گے۔ وقت ہے کہ ن لیگ کی قیادتیں اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال میں لائیں۔ موقع نہ گنوائیں، اپنے اثاثے اپنی مقبولیت کیلئے صرف کر دیں۔ عوام کو راحت دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اب ان 24 کروڑ لوگوں کے پاس قربان کرنے کو کچھ بچا نہیں ہے۔ ملک کو اس وقت تدبر۔ متانت اور حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ آپ نے جب یہ ذمہ داری عوامی لہر کے برعکس قبول کی ہے تو کچھ کر گزریں۔

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے

تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

بشکریہ روزنامہ جنگ