ذہنی تناؤ۔۔۔ تحریر محمد اظہر حفیظ

تین سال پہلے پرندے پالنے کا شوق شروع کیا۔ لوبرڈ اور دوسری اقسام کے برڈ رکھنا شروع کیئے ۔
ایک دن کسی بیماری میں ایک لوبرڈ مر گیا ابھی اسی کو اٹھانے ہی لگے تھے کہ اسکا دوسرا برڈ بھی ہلاک ہوگیا۔
پتہ چلا کہ برڈز بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں ۔ اور ایک برڈ دوسرے کی محبت میں مر جاتا ہے یہ ایک نئی حقیقت سامنے ائی۔ اب ہم بہت محتاط ہوگئے۔ جیسے ہی برڈ خرید کر گھر لاتے تو انکو ذہنی تناؤ کی دوائی دیتے جس سے وہ اس گھر بدلنے کے دکھ سے نکل آتا ۔ ہمارا خیال تھا یہ دکھ شاید صرف انسانوں کو ہی محسوس ہوتا ہے۔ اور کسی کو نہیں۔ اب ہم میاں بیوی بہت محتاط ہوچکے ہیں اگر ہم کسی ایک جوڑے کا پنجرہ بھی تبدیل کرتے ہیں تو اس کے پانی میں ذہنی تناؤ کم کرنے کی دوائی شامل کردیتے ہیں۔
آج ایک سردار جی کی رپورٹ دیکھ رہا تھا کہ جس میں وہ پیپل کے درخت کو دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جب بھی ہم درخت کی جگہ تبدیل کرتے ہیں تو درخت ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں کہ یہ خشک ہو جائے گا۔ اس کے لیے ہم اسکی کٹی ہوئی ٹہنیوں اور شاخوں پر ہلدی لگاتے ہیں اور اس پر ململ کا کپڑا گیلا کرکے باندھتے ہیں۔ تاکہ اس کو فنگس نہ لگ جائے۔ فنگس لگنے کی وجہ درخت کا ذہنی تناؤ ہوتا جس سے درخت کو بچانا ضروری ہے ۔
ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہم اپنے پرندوں اور درختوں کو ذہنی تناؤ سے بچائیں۔
لیکن جن احباب سے ہم زندگی میں وابستہ ہیں وہ مکمل ذمہ داری کے ساتھ ہمارے ذہنی تناؤ کا بندوست کرتے ہیں ۔
ناجائز مراعات ، ناجائز ترقیاں کام کے ماحول کو خراب کرتیں ہیں۔ اور جو دوست ان مواقع کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
تمام آرگنائزیشنز کے اندر ترقی کے برابر مواقع مہیا ہونے چاہیں ۔ بلاوجہ ملازمین کو ذہنی تناؤ کا شکار رکھنا اچھی مینجمنٹ کی نشانی نہیں ہوتی۔
تقسیم کرنا اور حکومت کرنا بھی ایک کامیاب فارمولا سمجھا جاتا ہے۔ میری دانست میں اگر آپ کام کو متوازن تقسیم کردیں تو ٹارگٹ تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے ۔ لیکن ہمارے ملک پاکستان میں ہر شعبے میں اس کو ٹیم کو تقسیم کرکے اس پر حکومت کرنے کو فتح سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر شعبے میں آپس میں لڑانے کو ہی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے تو ہمیں اس ذہنی تناؤ کے ماحول سے نکلنا ہوگا۔
بات بات پر گالی، بلند آواز، گولی سب اس ماحول کا اثر ہے۔ ہر شخص کا ہاتھ دوسرے شخص کے کندھے پر ہونے کی بجائے گریبان پر ہے۔ بے شک اب ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو ذہنی تناؤ کی ادویات خریدنے اور استعمال کرنے میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
مجھے کسی کی لڑائی اور بڑائی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اس بیمار معاشرے کا حصہ ہونے پر دکھ ضرور ہے۔
ابھی ایک اینکر اور ایک کرکٹ کے کھلاڑی کی بحث چل رہی ہے وجی بھی مجھے معلوم نہیں کہ تنازعہ کیا ہے۔ پر سب اس پر متوجہ ہیں۔ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ لیکن مجھے بہت دکھ ہوا جب ایک سوشل میڈیا ریلمیں جم میں ایک نامعلوم لڑکی کو ورزش کرتے دکھایا گیا اور ساتھ لکھا تھا کرکٹ کے فلاں کھلاڑی کی بیٹی جم میں ورزش کررہی ہے۔ حالانکہ وہ ویڈیو کسی دوسرے ملک کی لڑکی کی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی آپ اس لیول تک گرکر حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب بیمار ذہنوں کے نتائج ہیں جو ہم نے بہت محنت سے تیار کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کی عزت محفوظ رکھیں آمین۔
بجٹ کا موسم ہے ۔ ہمارے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ کم نہیں ہوگا۔ بغیر پیسے لگائے اگر ہم معاشرے کا ذہنی تناؤ کم کرلیں تو امید ہے ملکی حالات بہتر ہو جائیں گے۔آج 28 جون کو تنخواہ اکاؤنٹ میں آگئی تھی الحمدللہ 29 جون کو ختم ہوگئی ہے۔ بجلی، گیس، ٹیلی فون کے بل بیس جولائی تک آئیں گے اور چوبیس جولائی جمع کروانے کی آخری تاریخ ہوگی ۔ جو انشاء اللہ میری تنخواہ سے بھی زیادہ ہونگے۔ اب ایک طریقہ تو یہ ہے کہ میں آج سے ہی لڑائی جھگڑا شروع کردوں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ گھر میں ، دفتر میں اور معاشرے میں مسکراتے لوگ ملیں تو ذہنی تناؤ کم ہوگا اور امید ہے بل تو ہر ماہ کی طرح ادھار لیکر ادا ہو ہی جائے گا۔ مجھے فرق نہیں پڑتا کون کس ادارے کا سربراہ ہے پر مجھے اچھا لگے گا اگر کوئی معاشرے کا ذہنی تناؤ کم کرنے میں ہماری مدد کرے تو وہی ہمارا اپنا ہوگا۔ جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹر شپ مجھے تو مزدوری ہی کرنی ہے سکون سے کرنے دیں۔ جب میں ذہنی طور پر پُرسکون ہوں گا تو سوچوں گا ان میں سے بہتر کون ہے۔ ورنہ میں معذرت چاہتا ہوں۔ میں آپ کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہتا۔ میں اس قبیلے سے لاتعلقی اختیار کرتا ہوں۔ اگر آپ بدتمیز ہونے کو باشعور ہونا سمجھتے ہیں تو پھر آپ لاعلاج ہوچکے ہیں۔ لاعلاج کا علاج کیا ہوتا یہ سب جانتے ہیں پر مانتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سبکو صحت کے ساتھ ایمان والی، سکون والی زندگی عطا فرمائے آمین