میں وہ جانتا ہوں حقیقتیں
جو ارض بے نوا کی ہیں
گر دل میں رکھ کے ہی سو گیا
تمہیں کون پھر بتائے گا
یہ قطعہ اکرم سہیل صاحب کی کتاب ” نئے اجالے ہیں خواب میرے” کے شروع میں درج ہے۔
مختصر تعارفی سلسلہ ،مظفرآباد کے اہل قلم کا کچھ عرصہ قبل شروع کیا تھا،بوجوہ جاری نہیں رکھ پائ،یہ تعارف بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ،راقمہ براہ راست اکرم سہیل صاحب سے شرف ملاقات نہیں رکھتی لہذا کچھ کوتاہی بھی ہو سکتی ہے، جس کے لیے معذرت۔
اکرم سہیل ایک ایسا افسر،جسکے چہرے پہ افسری کی رعونت ہے نہ گردن میں سریا،ایک انسان ہے ،انسانیت کے درد سے آشنا،با ضمیر،باوقار،خودداد،بے خوف،حق وسچ کو ماننے اور برتنے والا۔
ایک ایسا انسان کہ قدرت جس سے کوئ خاص کام لینے۔ کا ارادہ کر لیتی ہے،اس کے دل میں انسانیت کا درد پیدا کر دیتی ہے کہ انسانیت کو اس پر فخر ہو جاتا ہے،اور اکرم سہیل اپنے ملک و قوم کا بجا طور ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔
افسری سے ریٹائرمنٹ کے بعد قلم قبیلے کے لوگوں نے آپ کو قلم قبیلے میں خوش آمدید کہنے کے لیے تقریب کا انعقاد کیا،اس موقع پر سٹیج پر نصب بینر پہ یہ مصرعہ درج تھا،”وہ جہاں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا” اورہم اس مصرعے کو کچھ اس طرح سوچ رہے تھے کہ وہ جہاں بھی گیا اپنے حصے کا قرض چکا کے آیا۔
میرا غائبانہ تعارف اکرم سہیل صاحب سے تب سے ہے جب میرے بچے اور ان کے بچے ایک ہی سکول میں زیر تعلیم تھے۔ان کی بیٹی سدرہ میرے بیٹے کی کلاس فیلو تھی۔اس کے بعد جب آپ محکمہ تعلیم میں سیکرٹری کی پوسٹ پہ تھے اور یہاں انہوں میرے حق کے لیے stand بغیر کسی ذاتی واقفیت یا تعارف کے۔اور اسی پوسٹ پہ ہوتے ہوئے میرے یٹے کی Nomination کے موقع پہ جب کچھ مسائل درپیش تھے تو انہوں نے مجھے درست گائیڈ کیا۔ ان کی اسوقت بظاہر سختی۔مگر احسان عظیم جس کا قرض میں کبھی نہیں جما سکتی۔اور میں سمجھتی ہوں کہ ان کا مختلف محکموں جانا شاید اسی لیے تھام ان جگہوں پر قدرت نے کچھ مظلوموں داد رسی کروانا تھی۔کہیں ہم تھے اور کہیں کوئ اور۔۔انتظامیہ کے کے جن شعبوں میں اصلاح احوال کی ضرورت،قدرت انھیں وہاں وہاں لے گئ اوروہ جہاں بھی گیا بہت سوں کا قبلہ درست کر کے آیا ۔
ہر ایک مقام سے گزر گیا ماہ نو
کمال کس کو میسر ہوا بے تگ و دو
اکرم سہیل صاحب آزاد کشمیر کے شہر کوٹلی میں پیدا ہوئے۔آپ ایک نیک نفس،شریف و متوسط خاندان کے چشم وچراغ ہیں ۔۔ابتدائ تعلیم کوٹلی سے حاصل کی۔سکول کے زمانے سے ہی جلسے،جلوسوں کو دیکھنے اور ان میں شامل ہونے کا موقع ملا۔صدر ایوب کی حکومت کا آخری دور تھا،لہذا اس کے اثرات نے آپ کو تاریخ و سیاست کی طرف مائل کیا۔
اپنی کتاب،”نئے اجالے ہیں خواب میرے کے دیباچے میں لکھتے ہیں،
پنجاب یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران انارکلی کے فٹ پاتھوں پر پرانی کتابوں کی ورق برفانی سے حضرت ابو ذر غفاری، حضرت شاہ ولی اللہ،امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی اور دوسرے روشن خیال مذہبی مفکرین مکے تصورات سے آشنائ ہوئ اور ان کی فکر جدید کی روشنی میں زمانے کے مسائل کو دیکھنے اور سمجھنے میں مدد ملی
تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ وکالت کی، بعد ازاں سی ایس کرکے سول سروس جوائن کی،یوں بظاہر تو افسری کا ٹھپہ لگا گیا مگر روح کی گہرائیوں میں چھپا ہواشاعر بیدار رہا اور ضمیر بھی۔یہی وجہ تھی کہ کبھی کسی ایک محکمے میں ان کو ٹکنے نہیں دیا گیا،اور ایمانداری اور سچائ کی سزا کے طور یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں مگر سر جھکانےکی رسم ادا نہ ہو سکی۔ ساتھ ساتھ شور و سخن کی مشق بھی جاری رہی گویاگویا افسری کی مشقت ھی تھی اور مشق سخن بھی۔
نیے اجالے ہیں خواب مرے کے شروع میں عمر خیام کا شعر ہے
عمر بست کہ آوازہ منصور کہن شد
من از سر نو ژندہ کنم داروسن را
یہ آپ کی پہلی کتاب ہے،اس کے بارے میں آپ کے اپنے الفاظ اس طرح ح سے ہیں۔پہ
میری شاعری کی جو کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے یہ میری زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ہر نظم اور ہر قطعہ سماجی ،سیاسی موضوعات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔عروض کی نازک خیالیوں سے زیادہ ان تصورات کو اجاگر کیا ہے ،جو ظلم و جبر کی قوتوں کو بے نقاب کرنے،۔ استحصالی طبقات کے فریب،ڈرماجہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کی سفاکیوں،قومی وسائل کے چند ہاتھوں ۔یں ارتکاز کو۔ نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں مذہب وملت کے نام پہ نقاب اوڑھے سوداگروں اور سماج کے حقیقی دشمنوں کی پہچان کروائی جائے۔
مزید لکھتے ہیں
کتاب میں سامراج کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیری بچوں کے نوحے بھی شامل ہیں اور کشمیریوں کی غلامی کی وجوہات بھی بیان کی گئ ہیں جو چشم کشا ہیں۔
جبار مرزا نے کشمیر میں 2005 میں آنے والے زلزلہ کے بعد جنگ اخبار کے اپنے ایک کالم بعنوان۔ زلزلے کیوں آتے ہیں۔ میں اکرم سہیل کی ایک نظم شامل کی تھی جو اکرم سہیل نے زلزلہ 2005کے تقریبا دو ماہ قبل لکھی تھی۔نظم کا عنوان۔ تھا
کاش یہ شہر کربلا ہوتا
یہ نظم مظفرآباد میں خاکروب کمیونٹی کی تین سالہ معصوم بچی کے فوتگی کے بعد اسے دفنانے کے لیے مظفرآباد کے کسی بھی قبرستان میں جگہ نےمہ دینے پر لکھی گئ تھی۔اس نظم میں آپ نے انسانی بے حسی پر احتجاج کیا تھا اور پکار اٹھے تھے کہ کاش یہ شہر کر بلا ہوتا۔ان دنوں اکرم سہیل آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ جبار مرزا کہتے ہیں کہ ان کی نظم ان کی خواہش پر اپنے کالم میں شامل کرنے سے پہلے میں نے میں نے پوچھا کہ سرکاری ملازم ہو؟اس نے کہا انسان بھی تو ہوں، میں نے کہا ،افسر ہو،نوکری نہ چلی جائے؟وہ بولا ہم جان ہتھیلی پہ
لیے پھرتے ہیں،آپ نوکری کی بات کرتے ہو،میں نے کہا حکومت ناراض ہو جائے گی،وہ۔ بولا،اللہ تو راضی ہو گا
آپ کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر مقصود جعفری لکھتے ہیں
اکرم سہیل کی شاعری روایت وجدت کا حسین سنگم ہے،وہ ساحر لدھیانوی سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں،آزادی و مساوات ان کا مسلک اور انسان دوستی ان کا مذہب ہے۔
کتاب نئے اجالے ہیں خواب میرے
میں زیادہ تر مختلف موضوعات پر نظمیں ہیں،اسکے علاوہ قطعات او غزلیں بھی ہیں۔ نظموں میں مختلف سماجی اور قومی مسائل اور انسانی اقدار کے بارے میں بڑی خوبصورتی سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔ کتاب کے شروع میں روایتی انداز میں روایتی انداز میں حمد، ونعت اور منقبت ہے۔
حمد
تجھی کو گوتم و نانک بھی ڈھونڈنے نکلے
کبھی تو طور کو موسیٰ تیری طلب کو چلے
یہ تیرے نام ہزاروں ہزاروں رنگ ہوئے
تمہارے چاہنے والے تمہارے سنگ ہوئے
نعت
حسیں ہیں اور کرم اور گھٹا کی صورت
بے سہاروں کے لیے دست دعا کی صورت
قاطع عہد غلامی میں وہ بشیر و نذیر
عہد ظلمات میں وہ شمس الضحیٰ ک تنویر
منقبت
کربلا حریت کا استعارہ
لٹا نو قافلہ وہ سب سے باوقار رہا
تمہارے خون کی روانی پہ سب کو ناز رہا
چلا کے تیغ ستم وہ سرنگوں ہی رہے
حسین سر کو کٹا کے بھی سرفراز رہا
اور اکرم سہیل ۔ سر جھکانے پہ سر کٹانے کی رسم کو افضل گردانتے ہوئے اسی راستے کو منتخب کر بیٹھے اور پھر زندگی اور ملازمت کے ہر موڑ پہ اس رسم کو بخوبی برتا کیے
انتہائ حساس اور اہم سرکاری عہدے پہ ہونے کے باوجود آپ نے مسیح برادری کی بچی کو مظفرآباد میں دفنائے جانے کی اجازت نہ ملنے پر جو نظم لکھی،وہ نہ صرف حکومت وقت کی بے حسی کا بیان تھی بلکہ پوری مسلم کمیونٹی کے منہ پہ طمانچہ تھا۔ نظم کے کچھ اشعار
میں کہ معصوم ننھی سی بیٹی
جس کا بے گور و کفن لاشہ
اک تاریک جھونپڑے میں
کئی دنوں تک بے بسی پہ نوحہ کناں رہا
مزید
جبہ و دستار پہنے
نبی کے نام لیواؤ!
شہر کے کج کلاہو، اے امیر شہر
میں کہ اک نفس بے مایہ
یہ شہر کربلا بھی نہ تھا کہ
مجھے دو گز زمین دے دیتا
اپنے سینے میں مجھے چھپا لیتا
کاش یہ شہر کربلا ہوتا
یہ نظم آپ کے اعلیٰ اخلاقی اوصاف اور انسانی ہمدردی کی مثال ہے۔بلاشبہ اکرم سہیل ایک بے خوف نڈر اور عظیم انسان ہے جس کے دل میں محبت و پیار اور انسانیت کی قدروں سے پیار بلا تفریق موجود ہے۔ہر قسم کے تعصب سے بالا،مذہب مسلک اور ذات پات کے نام پہ تفرقہ بازی نفرت کرنے والا،مذہبی منافرتاور تشدد پسندی کے خلاف ،مذہب کے ٹھیکیداروں سے سوال کرتے ہیں
اے فقیہو،مفتیو
مسلم ہے کون کافر
مت فیصلے سناؤ
جنت کدوڑ میں تم
دوزخ نہ یاں بناؤ
خون تم نہ یوں بہاؤجس انسان کے دل میں انسانیت کا درد ہوتا ہے وہ امن سے پیار اور جنگ سے نفرت کرتا ہے،سو اکرم سہیل کے ہاں بھی امن کی خواہش شاعری کے روپ میں ڈھلتی ہے تو کشمیر پہ ہونے والی جنگوں کو اسطرح موضوع بناتے ہیں
وہ جو قابض ہیں دونوں ملکوں پر
دونوں لڑتے رہیں وہ چائیں گے
مسئلہ کشمیر حل جو ہو جائے
سوچتا ہوں کہاں سے کھائیں گے
اسلحہ ساز صنعتوں والے
چاہتے ہیں کہ لوگ لڑتے رہیں
سب سے اچھی لڑائ مذہب پر
لڑتے لڑتے یہ لوگ مرتے رہیں
حمد،نعت منقبت،غزلیں اور سماجی ،سیاسی اور معاشرتی مسائل پر مختلف قطعات کتاب میں شامل ہیں۔اس کے علاؤہ شعور عصر کے عنوان سے ایک اور کتاب بھی چھپ چکی ہے۔مقالات آپ کی نثری تحریروں کا مجموعہ ہے۔ جس میں ملکی حالات و اقعات اور مسائل اور وجوہات پر نہ صرف گہری نظر ڈالی گئ ہے بلکہ ان کا حل بھی پیش کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔،
مختلف اخبارات اور رسائل میں اکیسویں صدی کی کہانیاں کے عنوان سے مختصر اور انتہائ پر اثر کالمز کا ایک سلسلہ بھی جاری ہے،جو مشہور امریکی کالم نگار Aآرٹ بک والد کی یاد دلاتا ہے۔آزاد کشمر ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز اسکے علاؤہ ہیں۔ غرض بلا مبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ کشمیر کے اس چھوٹے سے خطے کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ایک شاعر،مصنف،کالم نگار ،ایک ایماندار انتظامیہ عہدیدار اور ایک عظیم انسان،جسے دیکھ کر اور مل کر احساس ہوتا ہے کہ قحطالرجال کے اس تاریک دور۔ میں ایک روشن چراغ موجود ہے۔
بنت حیدر۔