نیچ ہونے کا احساس بھی شاید جان لیوا ہی ہوتا ہے۔ ساری زندگی خوشی کا احساس تھا کہ والدین پانچ وقت کے نمازی تھے ہمیں دین سکھایا۔ اس پر عمل کرنا سکھایا۔ ہوش سنبھالا تو قرآن پڑھنا شروع کردیا۔ امی جی سلاتے وقت انبیاء کرام کی باتیں سنائیں تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کیسی تھی، حضرت آدم علیہ السلام کی زندگی کیسی تھی، حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی کیسی تھی، حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کیسی تھی، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کیسی تھی۔ یہ سب سنتے سنتے سو جاتے تھے خواب بھی ایسے ہی آتے تھے۔ ہمیشہ سوچتے بڑے ہوا کر بڑا انسان نہیں بلکہ اچھا انسان بننا ہے۔ گاؤں کی سادہ زندگی تھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ ڈاکٹر، پائلٹ یا انجینئر بننا ہے ہمیشہ سوچ اچھے انسان بننے کی تھی۔ پہلے پائلٹ جن کا ذکر سننا تھا وہ ایم ایم عالم صاحب تھے۔ ان کو دیکھا تو کبھی نہیں پر شہرت بہت اچھی تھی پھر لاہور گلبرگ میں ان کے نام کی سڑک بھی تھی جس پر سانتے بیوٹی پارلر پھر جو بعد میں ڈپلیکس بیوٹی پارلر بنا اور اب وہاں سب ریسٹورنٹ اور بیکریاں ہی ہیں۔ پھر اباجی کے ماموں زاد بھائی چچا نعیم الحق نے ائیر فورس بطور پائلٹ جائن کی اور ہمارے خاندان کے پہلے پائلٹ بننے۔ وہ گاؤں آتے تو ہر سال ہمارے لیے ائیر فورس کا وال کیلنڈر لیکر آتے مجھے اس کو دیکھ کر بہت اچھا لگتا تھا۔ اور ان کے آنے کا انتظار بھی رھتا تھا۔ پھر تایا زاد بھائی میاں محمد طاہر کے دوست بھائی جان ڈاکٹر طارق محمود جو آجکل ہڈیوں کے ماہر ڈاکٹر ہیں اس وقت میڈیکل کالج میں داخل ہوئے وہ بھی بہت اچھے لگتے تھے پھر تایا زاد بھائی میاں احسن فاروق جو کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے یہ سب جب بھی گاؤں آتے تو کوشش ہوتی کہ ان کے قریب بیٹھ کر بڑے لوگوں کی بڑی باتیں سنیں جاسکیں ۔ تایا میاں طفیل محمد بھی جب لاہور سے تشریف لاتے تو ان سے ہاتھ ملانا پاس بیٹھنا انکو سننا اچھا لگتا تھا۔ ایسی ہی چند چیزیں تھی جو زندگی گزارنے اور سمجھنے کا بہانہ تھیں۔
پھر ہم بڑے ہوئے زمانہ بدلنے لگے اور ہم روز کچھ نہ کچھ نیا بننے کا سوچنے لگے۔
امی جی کہتیں تھیں
” پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب کھیلو گے کودو گے ہوگے خراب”
یہی سچ لگتا تھا۔
ہر کتاب، اخبار ، رسالے کو پڑھنے کی کوشش کی۔
نیچ کا لفظ پہلی دفعہ میاں محمد بخش صاحب کے کلام میں پڑھا
“نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے ناں پایا –
ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا”
پر نیچ کا پتہ نہیں تھا کیا ہوتی یا ہوتے ہیں۔
ایک دن میری ایک کلاس فیلو دوست کو یہ شعر سنایا تو وہ تو ناراض ہی ہوگئیں وہ سمجھیں شاید میں نےانکو کہا ہے۔ میں نے فورا معافی مانگی اور کہا کہ مجھے نہیں پتہ یہ نیچ کیا ہوتا ہے۔ اس لیے غلط پڑھ دیا معذرت ۔ انہوں نے مجھے نیچ سمجھایا پر مجھے کہاں سمجھ آیا ۔
آجکل پوڈکاسٹنگ کا زمانہ ہے۔ کچھ دن پہلے ایک پوڈکاسٹ جگنو محسن اور میاں یوسف صلاح الدین صاحب کا سنا تو کئی چیزیں سمجھ آئیں ۔ اور میری کلاس فیلو کو جھوٹ بھی سامنے آگیا کہ جو اس نے نیچ بتایا تھا وہ سب غلط تھا۔ میاں یوسف صلاح الدین صاحب نے سب گانے والی بائیوں کے مرتبے بیان کیے۔ علامہ اقبال جن کو ولی سمجھتے عمر گزری وہ خورشید بائی کو سنتے تھے۔ جگنو محسن کی نانی کے گھر کون کون سی بائی گانے گانے اور سنانے آتی تھی۔ راگ کیا تھے۔ کھانا پکانا ان کا بھی تھا۔ ملکہ پکھراج دنیا کے سب سے اچھے کھانے بناتی تھیں۔ دنیا کے تمام طرح کے اچار انکے گھر بنتے تھے۔ جگنو محسن کے گھر مٹکا گوشت اور باقی ڈشز بنتیں تھیں۔ کریلے گوشت کون پکاتا تھا۔ دنیا کے سب ذائقے انہیں کے گھروں میں تھے۔ ایک نیا لفظ بھی سنا رؤساء ۔ سارے رؤساء تربیت کیلئے بازار حسن یا ہیرامنڈی آتے تھے۔ اور طوائفیں انکو آداب سکھاتیں تھیں۔ طوائف ہونا کتنا معتبر کام ہوتا تھا ۔ میں یہ سب معلومات جو میرے لیے نئی تھیں اور مجھے ورطہ حیرت میں مبتلا کررہی تھیں۔کہ میں نے تو اصل دنیا دیکھی ہی نہیں میری تو شاید تربیت ہی اچھی نہیں۔ مجھے فقیر فیملی جوکہ جگنو محسن صاحبہ کا نانکا ہے اور علامہ اقبال کا خاندان جو کہ میں یوسف صلاح الدین کا نانکا ہے۔ کی تربیت کے انداز سمجھ آئے تو پہلی دفعہ مجھے پتہ چلا کہ شاید ہم نیچ لوگ ہیں جو دین کے مطابق زندگی گزارنے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور قرآن کو مکمل ضابطہ حیات سمجھتے ہیں۔
“میں گرا ہویا بندہ جما نیچ بلیئے” گانے کی مجھے اس پوڈکاسٹ کو دیکھ کر سمجھ آئی۔
مجھے دکھ ہے میری پیدائش سے پہلے بڑے غلام علی خان صاحب، خورشید بائی جموں والی وفات پاچکی تھیں ورنہ ضرور ان سے ملنے جاتا اور کچھ نہ کچھ سیکھتا شاید یہی کمی مجھے نیچ ہونے کا احساس دلا رہی ہے۔
بڑوں کو ہمیشہ بارش کیلئے نماز استسقاء ہی ادا کرتے دیکھا اب پتہ چلا راگ گانے سے بھی بارش ہوتی ہے۔
میرے والدین اب اللہ پاس ہیں اگر زندہ ہوتے تو ضرور سوال کرتا کہ ایسے کرتے ہیں تربیت۔
اچھا انسان بنانے کے چکر میں نیچ بنا دیا۔