امریکی ایوان نمائندگان ہماری قومی اسمبلی جیسا ہے۔ اس کے 85فی صد اراکین اگر باہمی اختلافات بھلاکر کسی معاملہ کی حمایت میں متحد ہوکر کوئی قرارداد منظور کریں تو اس کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ گوگل کھول کر کالم کی روانی میں رکاوٹ ڈالنا نہیں چاہتا۔ فقط یادداشت کی بنا پر یہ دعوی کررہا ہوں کہ غالبا نائن الیون کے بعد پہلی مرتبہ ایوان نمائندگان کی اتنی بڑی تعداد نے جماعتی اختلافات سے بالاتر ہوکر پاکستان کے 8فروری کوہوئے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ تقاضہ یہ بھی ہوا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ حکومت پاکستان پر مذکورہ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی منصفانہ تحقیقات کیلئے دباؤ بڑھائے۔ اصرار یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان سیاسی مخالفین کو ڈرادھمکاکر خاموش رہنے کو مجبور کررہی ہے۔ پاکستانیوں کو اپنی رائے کے روایتی اور سوشل میڈیا پر اظہار کے مواقع سے محروم کیا جارہا ہے۔
امریکی روایات اور قوانین اس ملک کی حکومت کو پابند نہیں کرتے کہ وہ ایوان نمائندگان سے منظور ہوئی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ بائیڈن انتظامیہ ویسے بھی اپنی چار سالہ آئینی مدت مکمل کرنے والی ہے۔ جمعہ کے روز سے صدارتی امیدواروں کے مابین ٹی وی کیمروں کے روبرو مباحث کا آغاز ہوجائے گا۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال بائیڈن /ٹرمپ کی کامیابی یا ناکامی میں کلیدی کردار ادا نہیں کرسکتی۔ خارجہ امور سے کہیں بڑھ کر امریکی ووٹر یہ طے کرنا چاہ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی جگہ آیا بائیڈن افراط زر پر قابو پانے میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں۔ خارجہ امور کے حوالے سے فقط دو سوالات کبھی کبھار زیر بحث آتے ہیں۔ ان دو میں سرفہرست یہ سوال ہے کہ امریکہ مزید کتنے برس اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتا رہے گا۔ اس کے بعد یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ یوکرین کو روس کے قبضے سے بچانے کے لئے امریکہ کس حد تک جاسکتا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے اکتائے عوام کی کثیر تعداد اس تناظر میں یہ سوچ رہی ہے کہ یوکرین کو مزید رقم فراہم کرنے سے گریز اختیار کیا جائے۔
جسے ڈیپ سٹیٹ کہا جاتا ہے وہ چین کو امریکہ کی قومی سلامتی کے خلاف ابھرتا سب سے خطرناک ملک بناکر پیش کررہی ہے۔ وائٹ ہا?س میں وہ ایسے شخص کو براجمان دیکھنے کی خواہاں ہے جو چینی خطرے کے تدارک کے لئے امریکی افواج کو جدید ترین ہتھیاورں سے لیس کرنے پر توجہ مرکوز رکھے۔ ٹرمپ اس تناظر میں ان کا پسندیدہ تصور ہوتا ہے۔ وہ مگر ڈیپ سٹیٹ کو 2020 کے انتخابات میں اپنی شکست کا ذمہ دارٹھہراتا ہے۔ مصر ہے کہ بائیڈن نے وہ انتخاب اس سے چرایا تھا۔ ڈیپ سٹیٹ کے ان کرداروں کے خلاف انتقامی کارروائی کو بضد بھی ہے جنہوں نے اس کی دانست میں بائیڈن کو وائٹ ہا?س بھجوانے میں سازشی مدد فراہم کی اور بعدازاں سابق صدر کو مختلف مقدمات میں ملوث کرتے ہوئے ایک کیس میں سزا بھی دلوادی۔
امریکہ جیسے ملک میں جہاں ریاستی ادارے بہت منظم اور عوامی نمائندوں کے روبرو جوابدہ تصور ہوتے ہیں 2020 کے صدارتی انتخابات کے نتائج کے بارے میں ٹرمپ اور اس کے حامیوں کے جانب سے پھیلائے شکوک وشبہات امریکی سیاستدانوں کے لئے باعث شرم ہیں۔ ان پر توجہ دینے کے بجائے ایوان نمائندگان کے 368 اراکین جماعتی اختلافات بھلاکر پاکستان میں 8فروری 2024 میں ہوئے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو قابل اعتبار تصور کرتے ہوئے صاف شفاف تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ حقیقت بھی نہایت فراخ دلی سے فراموش کردی ہے کہ 2022 کا مارچ شروع ہوتے ہی تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے دہائی مچانا شروع کردی تھی کہ ان کی آزاد منش پالیسیوں سے اکتاکر واشنگٹن نے رجیم چینج کی سازش تیار کی۔ پاکستان میں امریکی سفارت کار متحرک ہوئے اور عمران مخالف جماعتوں کو یکجا کرتے ہوئے عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی۔ مذکورہ قرارداد پیش ہونے سے قبل سابق وزیر اعظم تقریبا ہر روز پاکستان کے مختلف شہروں میں عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے سائفرکہانی بناتے رہے۔ ہم کوئی غلام ہیں کا سوال اٹھاتے ہوئے پاکستانیوں کو حقیقی آزادی کے لئے تیار کرنا شروع ہوگئے۔
امریکی ایوان نمائندگان نے تاہم بڑا دل دکھاتے ہوئے اپنے ملک پر لگے الزامات کو نظرانداز کردیا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے عنوان سے تیار ہوئی قرارداد بلکہ ہمیں ایک اور رجیم چینج کے لئے تیار کررہی ہے۔ یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ اب کی بار رجیم چینج کی ایک اور کاوش کامیاب ہوگئی تو اس کا فائدہ کس جماعت کو ہوگا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے لائے انقلاب کے دوران ہوش سنبھالنے اور بعدازاں بطور صحافی جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی حکومتوں کے دوران آزادی اظہار کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کی بدولت میں بخوبی جانتا ہوں کہ امریکہ کو ہمارے جیسے ملکوں میں جمہوریت کی کس قدر ضرورت ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان سے پاس ہوئی قراردادوں کے پیچھے ہوئی لابنگ کی حقیقت بھی نگاہ میں ہے۔ اس کے باوجود 368 اراکین کی بھرپور حمایت سے پاس ہوئی قرارداد کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ اس کا پاس ہونا ثابت کررہا ہے کہ امریکہ میں مقیم عاشقان عمران نہایت منظم انداز میں وہاں کے فیصلہ سازوں تک رسائی کے حامل ہیں۔ جو قرارداد منظور ہوئی ہے اب اس پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے لابنگ کو تیز تر کیا جائے گا۔ اس کے ذریعے کوشش ہوگی کہ ریاستی اداروں میں اہم عہدوں پر فائز چند افراد کو جمہوریت اور انسانی حقوق کا دشمن ٹھہراکر ان کے خلاف پابندیوں کا اعلان ہو۔ بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن کے خلاف بھی ایسے ہی اقدامات کا اعلان ہوا تھا۔ امریکہ میں مقیم عاشقان عمران کی منظم اور بھرپور مہم کے مقابلے کے لئے عمران مخالف قوتوں کے پاس موثر بیانیہ ہی موجود نہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان کی قراردادمنظور ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد وزیر اعظم شہباز شریف قومی اسمبلی کے اجلاس میں تشریف لائے۔ اپوزیشن رہنمائوں کی نشستوں پر جاکر ان سے مصافحہ کیا اور بعدازاں اپنی نشست سے کھڑے ہوکر تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دی۔ ان کے اس عمل کو سراہنے کے بجائے جھکی افراد کی اکثریت نے فی الفور یہ محسوس کیا کہ وہ امریکی ایوان نمائندگان سے پاس ہوئی قرارداد کے دبائو میں آگئے ہیں۔ کاش جو مصافحے وزیر اعظم نے بدھ کے روز قومی اسمبلی میں کئے ہیں وہ امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد آنے سے پہلے ہوگئے ہوتے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت