ہر کہ آمد، عمارتِ نو ساخت : تحریر کشور ناہید


روٹھنا اور منانا، یہ تو جوانی اور فلموں کی باتیں اور اسی زمانے میں اچھی لگتی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں اور انکے رہنماؤں کی عمر میں سوائے بلاول میاں کے، بڑھاپے کی سیڑھیاں بھی ہاتھ پکڑ کر چڑھنے کا زمانہ اور ملکی معیشت کا اس سے زیادہ دگرگوں حال ہو تو روز روز آج اِس کے در پر اور کل اُس کے درپر دیکھتے، اکتاہٹ ہوتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ لڑکھڑاتی حکومت کے 100 دن ایسے بھی قابل فخر نہیں گزرے کہ اس کیلئے باقاعدہ قوم سے خطاب کیا جائے۔ ویسے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے کچھ احوال واقعی بتانے کو گریبان میں جھانک رہی ہوں۔ میری محبت کو شکایت نہ سمجھا جائے۔

16سال سے سندھ میں ایک پارٹی کی حکومت ایسی ہے کہ کسی اور کا دخل برداشت ہی نہیں۔ بوری بند لاشیں دینے والوں کاپتہ کاٹا گیا ہے، پھر بھی ہر حکومت میں وہ کچھ نہ کچھ ہوتے ہیں۔ مگر اس سولہ سالہ حکومت کا جائزہ اگر میں دوست عارف حسن کے حوالے سے کروں یا میڈیا رپورٹوں سے کہ پورے صوبے میں ہر سال ٹیوب ویل خراب ہونے کے اربوں روپے رکھے جاتے ہیں وہ کب اور کہاں خرچ ہوتے ہیں کہ ہر سال کاشتکار سے کھیتوں کو پانی نہ ملنے کی مناجات سنی جاتی ہیں۔ پانی وہ بھی پینے کا صرف اور صرف ٹینکر خریدنے پر پی سکتے ہیں۔ بجلی کے لیے کوئی ایک شہر، صوبہ نہیں عطش عطش کا شور ہے سب سے برا حال کراچی کا ہے۔صوبہ پنجاب جس کی سربراہ ہماری ہمت والی بیٹی ہے۔ اس کو بتانا چاہتی ہوں کہ لاہور ہی سارا پنجاب نہیں ہے۔ گلاب کے عرق سے لاہور کے فرش نہیں سڑکیں دھو ڈالیں مگر پورے پنجاب میں جو بچے اسکول سے باہر تھے، وہ باہر ہی ہیں۔ بہت سے اسکولوں کی عمارتیں یا تو مخدوش ہیں یا ہیں ہی نہیں۔ بچے زمین پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ ڈیڑھ ہزار کے قریب اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں۔ صوبہ پختونخوا جہاں دھمکیاں دینے والا کچھ اور نہیں کررہا وہاں بھی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر نہیں ہیں۔ سینئر صحافی خلیل جبران کو مار رہے ہیں۔ سوات میں سیاح کو مارنے والوں نے یاد کرایا کہ لاشوں تک کو بے آبرو کرنا، نوجوانوں نے مذہب کے نام پر سیکھا ہے۔ وفاق سے پیسے مانگ رہے ہیں۔ صوبے کی آمدنی، سڑکوں اور بسوں کا حال خراب ہے۔ پرسان حال نہیں۔ بلوچستان کا مشکل سے بجٹ تیار ہوا ہے پہلے ہزارہ برادری پر ظلم توڑے جاتے تھے۔ اب پنجابی وہ بھی ایک دس شناخت کرکے مار دیئے گئے۔ بار بار کہا جارہا ہے کہ ایران سے گیس منصوبہ اب چلا، تب چلا، یہ بالکل سی پیک کی طرح ہے کہ عمران کے زمانے میں تو بند ہی رہا یا پھر چینیوں کو مارنےکیلئے تحریک طالبان والے سرگرم رہے۔ ہمارے وزیراعظم نے 5 روزہ دورہ چین کیا۔ معافی تلافی بہت کچھ ہوئی اور ٹی وی پر کہا سادگی اختیار کی جائے گی۔ چینی ہمارے وفد کے نئے قیمتی سوٹ دیکھ کرحیران ہوئے۔ تازہ تر یہ کہ دو اور وفود چین سے پاکستان آچکے ہیں۔ پہلے ہم امریکہ کے غلام تھے اور اب چین کے ساتھ بڑی مشکل معیشت چلے گی۔ ہم نے پچھلے برس تک اسلام آباد کے ہر سیکٹر میں چینیوں کو دس بارہ کی شکل میں ایک فلیٹ یا گھر میں رہتے اور ہر سیکٹر میں گھومتے، کھاتے پیتے اور رعنا مارکیٹ سے ہزاروں چھوٹی مچھلیاں خریدتے خود دیکھا ہے۔ سی پیک سڑک کے دونوں جانب مارکیٹس بنانے کا منصوبہ بھی تھا۔ مگر ہم تو اپنے کھانے سے فارغ ہی نہیں ہوتے کہ وہ منصوبہ تو خام خیالی بن گیا۔ بہت سے باہر کے ساہوکار آئے، مگر نہ پانی، نہ بجلی فیکٹریاں کیسے لگائیں اور لیبر بھی ہڈ حرام ہے۔ لگتا ہے چینی اب اپنی لیبر خود لاکر کام کو آگے بڑھائیں گے، مگر اس کے دشمن بہت ہیں۔ انڈیا نے تو پہلے ہی ازبکستان اور دیگر ممالک سے اپنے لئے راستے بنانے شروع کردیئے ہیں۔ ہم سوچتے رہتے ہیں اور بس نکل جاتی ہے ہم تحریک طالبان والوں کو ختم نہیں کرسکے۔

ماضی کو چھوڑیئے تازہ احوال یعنی بجٹ کیا ہے اس سال بجٹ میں 18کھرب ڈالرز ہیں۔ جس میں سے 10کھرب سود میں دیئے جائیں گے۔ 2کھرب فوج پر خرچ ہونگے۔ 15کھرب صوبوں میں تقسیم ہونگے ایک کھرب پنشن کیلئے۔ 6کھرب فوجی سامان کیلئے۔ 2.5کھرب تعلیم اور صحت کے لئے۔ ایک کھرب سول اخراجات کے لئے۔ یہ اعداد و شمار مغربی اخباروں سے لئے گئے ہیں۔ ممکن ہے غلط ہوں۔ ابھی تو 5کھرب بینکوں کو واپس کرنے کا سوال بھی ہے اور ڈالر کہتا ہے میں آگے ہی جاؤنگا۔اس صورت احوال میں ابھی عدلیہ نے، ایسے فیصلے سنانے ہیں کہ دن کو تارے نظر آئیں گے۔ پھر فارم 47 سے آنے کی قلعی بھی کھل جائیگی۔ پھر نئے نویلے فنانس منسٹر کیا کھلائیں گے اور کیا پکائیں گے۔ سب سے مشکل مرحلہ آبادی کا پھیلاؤ ہے۔ اس پر قابو پانا ضروری ہے۔ اب آئیے موسم کیا کہتا ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں ہم نے سائنسی تحقیقات کا پھیلاؤ اتنا وسیع کیا کہ اب ہم مصنوعی ذہانت کو فروغ دینے کے چکر میں ہیں۔ پہلے اسلحہ، پھر بم، پھر مشینی بارش اور فصلوں کی کٹائی۔ چاند پر تو پہلے ہی کمندیں سب ڈال رہے ہیں اور اب سورج کی سولر انرجی کا پہاڑہ پڑھتے ہوئے، سب قومیں دوڑ پڑی ہیں۔ فطرت ایک صدی تک یہ جادوگری دیکھتی رہی اور آخر کو بے وقت اور بے تحاشہ بارشیں، سیلاب، طوفان، جنوبی اور شمالی پول پربھی اتنی گرمی کہ وہاں کے علاوہ ہمالیہ اور دیگر پہاڑوں کے گلیشیر پھٹ رہے ہیں۔ کہیں جھیلیں بن رہی ہیں۔ کہیں زمین چٹیل صحرا، سمندروں کی سطح اونچی ہورہی ہے۔ زلزلے ایسے اور بارشیں ایسی کہ ترکی سے لیکر متحدہ عرب امارات کے شہر کے شہر سیلاب میں بہہ گئے۔ لوگ شیطان کو کنکر مارنے گئے، موسم 52ڈگری، پانی نایاب۔ نتیجہ اموات انسان نے فطرت کو چیلنج کیا تھا۔ پہلے قبر کے اندر جھانکنے اور موت کے اندازے لگانے میں مات کھا گئے۔ اب موسم کی بے اعتباری سے ساری کلاسیکی شاعری میں ساون، بھادوں، برکھارت، پانی کا جھڑی لگنا، سب بے معنی ہوگیا۔ سورج اپنا غصہ نکال رہا ہے۔ قدرت اس انسانی ظلم کا جواب دے رہی ہےجو غزہ کے میدان میں ہورہاہے۔خدا سے پناہ مانگیں ۔ اب تو نمک بھی پنساری کی دکان پر ٹیکس دینے کے بعد ملے گا۔ ابھی سیاست اور موسم کے رنگ اگست تک نظر آتے رہیں گے۔ مگر اب کوئی طارق کشتیاں جلاکے ملک بچانے نہیں آئے گا۔ اب بھی ہوش کرلو۔

بشکریہ روزنامہ جنگ