بچوں کی ہلاکتوں کا المیہ : تحریر نعیم قاسم


گرچہ غزہ میں پندرہ ہزار سے زائد نونہالوں کے جنازوں نے ہر حساس طبع انسان کی روح کو کرچی کرچی کر دیا ہے، دل و دماغ کو شل کر کے رکھ دیا ہے،اس نام نہاد مہذب دنیا کے دعویدار حکمرانوں نے صیہونی مقاصد کی تکمیل کے لیے بچوں سمیت ہزاروں مرد و زن کی نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اپنے ضمیروں پر کچھ بوجھ نہیں محسوس نہیں کر رہے ہیں تو کیسے وہ شرف انسانیت کے علمبردار ہونے کا دعوی کر سکتے ہیں، اسرائیلی فضائیہ ہسپتالوں، سکولوں، خیمہ بستیوں پر اندھا دھند بمباری سے نہ صرف ہزاروں فلسطینیوں بلکہ ان کے ننھے منے پھولوں کو بھی شہید کیے جا رہے ہیں اس وقت تک پندرہ ہزار سے زائد فلسطینی بچے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، فلسطینی پناہ گزینوں کے اقوام متحدہ کے ادارے (انرا) نے بتایا ہے کہ غزہ میں بچوں کی ہلاکتیں گزشتہ چار سالوں میں دنیا کے کل تنازعات سے بھی زیادہ ہیں یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بچوں کے بھوک اور بیماریوں سے بچوں کے متاثر ہو نے کے خدشات بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں، دس لاکھ بچے بے گھری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، سترہ ہزار بچے ایسے ہیں جہنوں نے اپنے والدین کو کھو دیا ہے یونیسف کے مطابق غزہ ہزاروں بچوں کا قبرستان بن چکا ہے، شام میں بھی پچاس لاکھ بچوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے ،نو برس کی خانہ جنگی میں ہزاروں افراد ،ہلاک ہو چکے ہیں۔ شام کے اکثر کیمپوں میں داعش کے اکثریت پسندوں کے بچے ہیں، جہنیں خارجی جان کر کوئی بھی ملک قبول نہیں کرتا ہے، ان کے اصل ملک انہیں قبول کرنے سے انکاری ہیں اور وہ کیمپوں میں سخت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یہ بچے خود مجرم نہیں ہیں بلکہ یہ ان جرائم کی سزا کاٹ رہے ہیں، جو ان کے والد ین نے کیے ہیں شام سے اکثر پناہ گزین غیر قانونی طور پر کشتیوں کے ذریعے ترکی کے سمندری راستے سے یورپ داخل ہونے کی کوشش میں کشتیاں ڈوب جانے سے ہلاک ہوئے ہیں اور ان میں بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے جس سے انسان سخت اذیت محسوس کرتا ہے پاکستان ایک طرف ناقص طبی سہولیات کی عدم فراہمی سے نومولود بچوں کی 60 فیصد شرح اموات سے دنیا بھر میں سر فہرست ہے وہیں ان معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل بھی کیا جا رہا ہے پاکستان میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں قبائلی علاقوں کے مدرسوں میں سینکڑوں بچے شہید کیے گئے دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول اور ہماری پریڈ لین میں دو سو کے قریب بچوں کو شہید کیا جس پر ہر آنکھ آشک بار رہی مگر آج تک ان غفلت کے مرتکب سول اور ملٹری ملازمین کو سزا نہیں دی گئی جو اس سانحہ کے ذمہ داران تھے دہشت گرد معصوم بچوں کی برین واشنگ کر کے انہیں خود کش بمبار حملوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، جو ایک انسانیت سوز جرم ہے حال ہی میں ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں انتظامیہ کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت سے چلڈرن وارڈ میں 13 معصوم بچے آگ میں جل کر اللہ کو پیارے ہو گئے وزیر اعلی مریم نواز نے جب اس غفلت کے ذمہ داران کو گرفتار کرانے کی کوشش کی تو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف نے شدید احتجاج کیا یعنی ایک چوری اوپر سے سینہ زوری مریم نواز نے انہیں شرم دلاتے ہوئے پوچھا اگر آپ کے پچے اس حادثے میں مارے جاتے تو پھر آپ کیا کہتے ظلم اور نا اہلی دیکھیں کہ وہاں پر موجود عملے کو آگ سے بچاو کے آلات استعمال کرنا ہی نہیں آتے تھے اور نہ کبھی پرنسپل، ایم ایس یا انتظامی افسران نے انہیں اس کے استعمال کی ٹریننگ دی ایک یو ٹیوبر ڈاکٹر صاحب جو بڑی اعلی اخلاقیات کی باتیں کرتے ہیں کہ رہے تھے کہ سینئر ڈاکٹرز جونیئر ڈاکٹرز کے رول ماڈل ہوتے ہیں انہیں وزیر اعلی کو گرفتار نہیں کرانا چاہیے تھا ان ڈاکٹرز کی باہر کے ممالک میں بڑی ڈیمانڈ ہے ویسے یہ پاکستان ہے یہاں ڈاکٹرز جتنے مرضی بندے مار دیں انہیں ان کی تنظیموں کی پشت پناہی کی وجہ کوئی کچھ نہیں کہ سکتا ہے ایسا واقعہ امریکہ یا لندن میں ہوتا تو پھر میں دیکھتا کہ ان انتظامیہ کے ڈاکٹرز کے ساتھ کیا ہوتا وہاں تو مریض کو ڈاکٹر مطمئن نہ کرے، اس کی فون کال نہ سنے تو حکومت ایکشن لے لیتی ہے کجا بے گناہ بچوں کی موت ہو اور وزیر اعلی اپنی بھرپور کوشش کے باوجود مجرموں کو سزا نہ دلوا سکی رہائی پر ان ڈاکٹروں کو ہار پہنا کر استقبال کیا گیا پاکستان میں وکیلوں کے اپنے دھڑے ہیں، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اپنے جھتے ہیں، ڈرائیورز کی غلط اور تیز رفتاری سے روزانہ سینکڑوں بے گناہوں کی جان چلی جاتی ہے چھوٹے بچوں کو تو روزانہ گاڑیوں، ویگنوں کے نیچے کچلا جا رہا ہے عید کے دنوں میں ایک چار سالہ بچی اپنے ماں باپ کے ساتھ میو ہسپتال اپنی نانی کی تیمارداری کے لیے آئی تو اس کے والد نے کہیں اس کو گود سے اتارا تو اس کی آنکھوں کے سامنے صفائی کرنے والی وہیکل نے اس کو کچل دیا مریم نواز نے ڈاکٹروں کو گرفتار کرانے کا حکم دے کر بالکل درست قدم اٹھایا تھا یہ کہنا کہ پہلے انکوائری ہو، ذمہ داران کا تعین ہو تو تب ایکشن لینا چاہیے پاکستان میں انکوائریوں کو لمبے عرصے تک چلایا جا تا ہے حتی کہ معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اگر کوئی اہلکار معطل ہو جائے تو وہ ٹربیونل سے تمام فوائد سمیت بحال ہو جاتا ہے خون خاک نشیناں رزق خاک ہو جاتا ہے اور میں روزانہ بچوں کی ہلاکتیں دیکھتا ہوں تو دل انتہائی غمگین ہو جاتا ہے کبھی مدرسے یا سکول میں بچوں کو تشدد سے ہلاک کر دیا جاتا ہے چھوٹے بچوں کو اغوا کر کے جنسی زیادتی کے بعد قتل کر کے اس کی نعش کو پھینک دیا جاتا ہے ذاتی لڑائی جھگڑوں میں بچوں کے سامنے ماں باپ کو مار دیا جاتا ہے معصوم بچوں کو جرائم پیشہ افراد اغوا کر کے لے جا رہے ہیں چائلذ لیبر، بچوں کو جنسی مقاصد کے لیے استعمال، گھریلو بچے پچیوں پر تشدد اور ان کی صحت کے معاملات میں غفلت، غذائی قلت اور ناقص غذا سے ہمارے بچے مر رہے ہیں ان کی نشوونما نہیں ہو رہی ہے 1000 بچوں میں سے 79 بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے فوت ہو جاتے ہیں تھرپارکر میں بچوں کے مرنے کی شرح بہت زیادہ ہے پاکستان میں حکومت کے ساتھ ساتھ ہر بالغ شہری کا فرض ہے کہ وہ نونہالان پاکستان کی محفوظ اور بہتر پرورش میں اپنا کردار ادا کرے ہمارے نبی پاک محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم بچوں سے بے حد شفقت فرماتے تھے یتیم بچوں کے لیے سایہ ابر تھے ہمارے بچوں کو گھر، سکول، پارکوں، سڑکوں پر مکمل تحفظ چاہیے ماں باپ کو بھی چاہیے کہ وہ چار چار بچوں کو موٹر سائیکل پر لے کر سفر نہ کریں اور ان کو ناقص بازاری اشیا نہ کھلائیں اور بچوں کے معاملے میں کسی بھی رشتہ دار اور دوست احباب پر اعتبار نہ کریں آجکل کی ٹریفک میں پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں کو سڑکوں پر سائیکل اور موٹر سائیکل چلانے کی اجازت نہیں دینا چاہیے گاڑی تو کم از کم بیس بائیس سال کی عمر میں ڈرائیو کرنے کی اجازت ہو ہمارے بچے نشے، شیشہ اور سگریٹ نوشی کے ہاتھوں بھی مر رہے ہیں، لہذا آج ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی محفوظ پرورش ممکن بنائیں تاکہ وہ بڑے ہو کرذہنی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر مضبوط اور مستحکم شخصیت بن سکیں۔

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز