آبی تنازعات اور عالمی بینک کے افسران کا دورہ کشمیر : تحریر افتخار گیلانی


بھارت اور پاکستان کے درمیان آبی تنازعہ خاص طور پر ضلع بانڈی پورہ میں کشن گنگا اور کشتواڑ ضلع میں رٹلے ڈیم پر پاکستانی اعتراضات کا جائزہ لینے کیلئے عالمی بینک کے طرف سے مقرر نیوٹرل ایکسپرٹ یا غیر جانبدار ماہر مائیکل لینو اور ان کے تکنیکی معاون لوک ڈیروا جموں و کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں۔ 13 اکتوبر 2022 کو عالمی بینک نے ان دو پراجیکٹس پر دریائے سندھ تاس معاہدہ کی رو سے غیر جانبدار ماہر کو مقرر کیا تھا۔ماہرین کی یہ ٹیم 17 جون کو دہلی پہنچی تھی، جہاں اس نے دونوں فریقوں کے دلائل ایک بار پھر ریکارڈ کئے۔ لینو ایک فرانسیسی سول انجینیر ہیں اور بڑے ڈیموں کے بین الاقوامی کمیشن کے سربراہ بھی ہیں۔ بانڈی پورہ کی تحصیل گریز میں 330میگا واٹ کا کشن گنگا پروجیکٹ آپریشنل ہو چکا ہے اور بھارتی حکومت کے نیشنل ہائیڈرو پاور کارپوریشن (این ایچ پی سی) کی ملکیت ہے۔ کشتواڑ میں 850 میگا واٹ رٹلے پروجیکٹ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے۔ جموں و کشمیر میں تین دریاں پر کسی بھی بڑے آبپاشی یا بجلی کے منصوبے کی تعمیر 1960 کی دہائی میں دستخط شدہ، ورلڈ بینک کی ثالثی میں سندھ آبی معاہدے کے تحت کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان مستقل انڈس کمیشن کام کر رہے ہیں۔ وہ منصوبوں کی تفصیلات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور انہیں حتمی شکل دیتے ہیںتاہم جب ڈیزائن وغیرہ پر اختلافات پیدا ہوتے ہیں،تو پہلے ان کو دونوں ممالک کے آبی سیکرٹریز کے سپرد کیا جاتا ہے۔ اگر وہ بھی کوئی حل نکالنے میں ناکام رہتے ہیں، توکوئی فریق عالمی بینک سے رجوع کرکے غیر جانبدار ماہر یا کورٹ آف آربٹریشن (ثالثی کورٹ) مقرر کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ اگر تنازعہ بس ڈئزاین وغیرہ یا تکنیکی ایشوز تک ہی محدود ہے، تو وہ غیر جابندار ماہر اس پر فیصلہ صادر کرتا ہے ہے، مگر اگر اس میں قانونی نکات میں شامل ہیں، تو پھر وہ عدالتی ثالث ان کی سماعت کرتا ہے۔ جموں و کشمیر میں تقریبا تمام بڑے پاور پروجیکٹ IWT کے تنازعات کے حل کے میکانز م سے گزرے ہیں۔ ڈوڈہ ضلع میں بگلیہار پاور پروجیکٹ کے ڈئزاین میں بھارت کو تبدیلیاں کرنی پڑیں۔ یہی کچھ کشن گنگا کے ساتھ بھی ہوا۔ مگر اس میں جو تبدیلیاں کی گئیں، ان سے پاکستان مطمئن نہیں ہے۔اس معاملے میں پہلے پاکستان نے غیر جانبدار ماہر مقرر کرنے کی مانگ کی، مگر پھر اس مانگ کو واپس لیکر ثالثی عدالت کا مطالبہ کیا۔ مگر تب تک عالمی بینک نے غیر جانبدار ماہر مقرر کر دیا تھا مگر پھر پاکستان کی مانگ پر پروفیسر شان ڈی مرفی کی سربراہی میں دی ہیگ میں 5 رکنی ثالثی عدالت بھی قائم کی۔ بھارت نے اس پر اعتراض کیا کہ دو میں صرف ایک ہی میکانز م ایک وقت کام کرسکتا ہے۔ اس نے ثالثی عدالت کو برخاست کرنے کے درخواست کی مگر پچھلے سال کئی سماعتوں کے بعد ثالثی عدالت نے بھارت کا یہ اعتراض مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ غیر جانبدار ماہر کے ہوتے ہوئے بھی کام کرنے کی اہل ہے، کیونکہ اس کا دائرہ قانونی ایشوز کو سلجھانا ہے اور غیر جانبدار ماہر صرف تکنیکی ایشوز کو دیکھے گا۔ بھارت نے فی الحال اب ثالثی عدالت کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق وہ غیر جانبدار ماہر کے فیصلہ کا انتظار کر رہا ہے اور اس کے بعد ہی عدالت کے تئیں کوئی رخ اپنائے گا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ کشن گنگا پاور پروجیکٹ کا ڈیزائن بھی معاہدے کی شقوں کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ اسی طرح سے بھارت کا کہنا ہے کہ ریٹلے پاور پلانٹ کے ڈیزائن میں فراہم کردہ 2 میٹر فری بورڈ معاہدے کی شقوں کے مطابق ہے اور اس سے آپریٹنگ پول میں پانی کی سطح کو مصنوعی طور پر بلند نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح بھارت کا دعوی ہے کہ ڈیزائن میں فراہم کردہ 23.86 ملین کیوبک میٹر (MCM) پانی کو تالاب میں جمع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ انڈس واٹر ٹریٹی (IWT) بھارت اور پاکستان کی سفارت کاری کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ سلال، ڈل ہستی وغیرہ پروجیکٹ پر کوئی زیادہ اختلافات پیدا نہیں ہوئے تھے۔ 1980کی دہائی میں سوپور سے متصل وولر بیراج پراجیکٹ کے ڈیزائن پر اختلافات شدید ہوگئے اور ابھی تک اس کا کوئی حل نہیں نکل رہا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اوقات، ڈیزائن کاپی کیے جاتے ہیں، اور کوئی تخلیقی صلاحیت استعمال نہیں کی جاتی ہے، جس سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ بھارت جب بھی کوئی پاور پروجیکٹ بناتا ہے، اسکے لئے لازم ہے کہ مغربی دریاں کا پانی نہیںرکنا نہیں چاہئے۔ اسلئے جب ان دریاوں پر ڈیم بنایا جائے، تو اس کے سپل ویز اوپری سطح پر ہونے چاہئیں۔ بگلیہار کے معاملے میںغیر جانبدار ماہر نے بھارت کے حق میںفیصلہ دیا۔ مگر ثالثی عدالت نے پاکستان کے اعتراض کو درست قرار دیا۔ مگر تب تک پروجیکٹ مکمل ہو چکا تھا ۔ اس لئے عدالت نے کہا کہ آئندہ کے پروجیکٹس بگلیہار کے ڈئزائن پر نہیں بنیں گے۔ پانی کی سطح کا اندازہ لگانے کے لیے، ٹیلی میٹری ٹیکنالوجی ہے کو اب اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ پانی کے بہاو کا ڈیٹا مسلسل پاکستان کو ملتا رہے۔ سندھ تاس معاہدہ کی رو سے بھارت کو مغربی دریاں کے پانی کا 20% استعمال دینے کا حق دیا گیا ہے ۔ بھارت کی دلیل ہے کہ ان کو پاکستان کی ڈیموں میں دروازوں کی پوزیشن کے اعتراضات سے مسئلہ ہے۔ سلال پروجیکٹ کے لیے،بھارت نے گیٹس کو اوپر ی سطح پر رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن اب ڈیم کے اندر 37 میٹرکا گڑھا پیدا ہو گیا ہے ۔ اس میں جو سلٹ یعنی گندگی وغیرہ جمع ہو گئی ہے اس کی نکاسی کو کوئی صورت نہیں ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے مطابق مٹی اور سلٹ سے بچنے کے لیے نیچے کے قریب گیٹ بنایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اب پانی کی کمی کی وجہ سے کشمیر میں چاول کی کاشت کم ہو رہی ہے اور لوگ باغبانی پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ باغبانی کے مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے علاقوں میں 4,000 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ماہرین کے مطابق کشن گنگا ایک ایسا پروجیکٹ تھا، اگر بھارت اور پاکستان کسی طرح تعاون کرتے، تو اس سے ذرا دوری پر لائن آف کنٹرول کے پاس ایک بڑا پاور پروجیکٹ بنایا جاسکتا تھا، اور دونوں ممالک اس سے پیدا شدہ بجلی آپس میں بانٹ سکتے تھے۔ فی الحال پانی کے ان ذرائع کو بچانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کیلئے دونوں ممالک کو اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ماحولیاتی فنڈز تک رسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر دونوں ممالک اس سلسلے میں مشترکہ طور پر کوششیں کریں، تو شاید کشمیر کے پانی کے ذخیرہ بچ سکتے ہیں۔ ورنہ ان کا خدا ہی حافظ ہے، پھر کون سندھ تاس معاہدہ یا غیر جابندار ماہر یا عالمی بینک کی ثالثی کورٹ۔ جب پانی ہی نہ رہا ،تو کس کا فیصلہ کریں گے۔

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز