معراج محمد خان بنام عمران خان : تحریر مظہر عباس


معراج محمد خان مرحوم ہماری سیاسی تاریخ کے اہم ترین کرداروں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں طلبہ سیاست سے لیکر عملی سیاست تک نہ صرف قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ اپنے اصول اور نظریہ کی خاطر بڑی جماعتوں میں بڑے عہدوں سے استعفیٰ دینے سے اور پارٹی چھوڑنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ممتاز اسکالر ڈاکٹر جعفر احمد کا شکریہ کہ انہوں نے معراج کی خودنوشت ’نگار سحر کی حسرت میں‘ انکے وہ خطوط شامل کیے ہیں جو انہوں نے پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو، سیکریٹری جنرل جے اے رحیم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو لکھے اور جب وہ اس دنیا سے گئے تو ان پر نہ کرپشن کا کوئی الزام تھا نہ اپنے نظریہ کو مفاد پر قربان کرنے کا۔ اب اس مختصر کالم میں آپ کے سامنے معراج بنام عمران خان کا وہ خط پیش کرتا ہوں جو انہوں نے پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے عہدہ اور سینٹرل کمیٹی سے استعفیٰ دیتے وقت لکھا تھا۔ جو شائد آج کے حالات کے پس منظر میں خود عمران خان صاحب کیلئے ایک سبق ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے خان صاحب نے اسکا کوئی جواب معراج کو نہیں دیا البتہ جب انہوں نے صدر ذوالفقار علی بھٹو کو وزارت سے استعفیٰ دیتے ہوئے جو خط لکھا اس کا جواب بھٹو نے استعفیٰ قبول کرتے ہوئے 7 اکتوبر 1972ء کو لکھا اسکی صرف ایک لائن یہ تھی ’’آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ میں نے ہر موقع پر حتیٰ کہ اس وقت بھی جب آپ نے ہماری حکومت کی مخالفت کی آپ کیساتھ تعاون کیا اور ساتھ دیا۔ چونکہ آپ نے استعفیٰ دینا پسند کیا میں اسے فوری طور پر قبول کرتا ہوں۔ تاہم مجھے کوئی شبہ نہیں کہ پارٹی میں آپ کی دلچسپی اور کام جاری رہیگا‘‘۔ اسکے بعد معراج کو بھٹو صاحب کی جیل کا بھی تجربہ ہوا مگر جب بھٹو کی پھانسی ہوئی تو معراج نے جنرل ضیاء کی مذمت کی اور ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ معراج نے پی ٹی آئی 1997ء میں یعنی پارٹی کی تشکیل کے چند ماہ بعد جوائن کی اور مئی 2003ء میں سیکریٹری جنرل اور سینٹرل کمیٹی سے استعفیٰ دیدیا۔ خط کے مندرجات:’’ڈیئر عمران، تحریک انصاف میں آپ کیساتھ 5 برس سے زیادہ کا عرصہ گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ کے چند ایک غیرسیاسی ساتھی جس انداز میں پارٹی بنانا اور چلانا چاہتے ہیں وہ میرے تجربہ، فہم اور سمجھ سے بالاتر ہے اسلئے میں اس عہدے سے اور سینٹرل کمیٹی سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ ڈیئر عمران، ہمارے پاس آپ جیسی دلآویز اور معروف شخصیت موجود تھی، نیز سیاسی خلا کیساتھ ساتھ ملک کے معروضی حالات بھی سازگار تھے۔ عظیم نصب العین اور مقاصد مضبوط تنظیم کے پرچم تلے اور قربانیوں سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اب اسے بدقسمتی کہیں کہ جو قیادت کے منصب پر براجمان ہیں ان میں اجتماعی سوچ اور مشترکہ ویژن کا فقدان ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پارٹی ایک حقیقی جمہوری پارٹی بنکر ابھری تو پارٹی پر سے ان کا کنٹرول ختم ہو جائیگا اور عمران خان بھی انکے دائرہ اثر میں نہیں رہیں گے۔ اسلئے انہیں پارٹی میں گروہ بندی، خلفشار اور بدنظمی پیدا کرنے میں اپنا مفاد نظر آتا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے مشتبہ، مشکوک لوگوں کو حتیٰ کہ مجرموں کو پارٹی میں شامل کیا تاکہ پارٹی غیر موثر رہے۔ آپ ان کی چرب زبانی اور پُرفریب اسٹائل سے دھوکہ کھاگئے، نیز آپ ان کی اصل حقیقت پہچان نہ سکے اور ان پر انحصار کیا۔ لہٰذا موجودہ صورتحال پارٹی کی، اسی کا منطقی نتیجہ ہے۔ آپ نے جن لوگوں کو چیف آرگنائزر اور چیف انتخابی مہم منیجر کے عہدوں پر نامزد کیا اور دوسرے بھی جو آپ کے قریب تھے وہ درحقیقت پارٹی بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے اسلئے انہوں نے بلدیاتی انتخابات یا عام انتخابات کیلئے سنجیدگی سے تیاری نہیں کی۔ انکی بنیادی حکمت عملی کا مقصد صرف حکومت کی حمایت حاصل کرنا تھا تاکہ وہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکیں اسی لیے انہوں نے دانستہ طور پر یہ تجزیہ پیش کیا کہ نوازشریف اور بے نظیر ملک سے باہر ہیں لہٰذا فوجی حکومت کیلئے عمران خان ہی بہترین چوائس ہوگا لہٰذا وہ حلقہ کی سیاست کرنیوالے مضبوط امیدواروں کو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑانے کیلئے مجبور ہو جائیگی۔ اسی لئے انہوں نے آپ کو اور پارٹی کو ریفرنڈم کی حمایت پر مجبور کیا۔ بہرکیف جب یہ واضح ہوگیا کہ حکومت مسلم لیگ (ق) کی حمایت کررہی ہے تو آپ نے گجرات کے چوہدریوں کو ہدف تنقید بنانا شروع کردیا مگر اس وقت تک بہت تاخیر ہوچکی تھی۔ یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ کرکٹ بائی چانس مگر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سیاست بائی چانس نہیں ہوتی۔تاہم ہمیں پارٹی کے امیدواروں کے حوصلے کی داد دینی چاہئے جنہیں الیکشن کے آخری دنوں میں نامزد کیا گیا، جو سیاسی حلقوں میں معروف نہ تھے اور پارٹی بھی انکی مالی اور تنظیمی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ آپ کی میاں والی میں کامیابی میں کارکنوں، مقامی لیڈر اور خصوصی طور پر الیکشن مہم کے انچارج حفیظ اللہ خان نیازی کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ اس کے علاوہ اکبر ایس بابر نے میڈیا اور پریس کا علم بلند رکھا اور حامد خان نے قانونی محاذ پر 1973ء کے آئین کی بحالی اور ایل ایف او کیخلاف جدوجہد کرنیوالے وکلا اور دوسری تنظیموں کی قیادت کی‘‘۔ (معراج کے خط کا یہ پہلو انتہائی اہم ہے) ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی کپ جیتنے پر لوگ بہت خوش اور آپ کو ہیرو سمجھتے ہیں اور شوکت خانم کینسر اسپتال قائم کرنے پر آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر آپ نے جس انداز میں سیاسی امور نمٹائے ہیں لوگ آپ کو نجات دہندہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی پارٹی کو وہ ذریعہ جس سے نظام میں تبدیلی اور انہیں خوشحالی نصیب ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمارے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیا۔ پارٹی نے کبھی واضح طور پر اپنا سیاسی پیغام نہیں دیا کہ ہمارے دوست کون ہیں اور دشمن کون۔ وہ کونسے طبقات ہیں جن کے مفادات ہمیں عزیز ہیں اور وہ کون جن کے ہم مخالف ہیں۔ میری 4اپریل 2003ء کو آپ سے ملاقات ہوئی اور ہم نے مشترکہ طور پر سی ای سی ممبران کی فہرست مکمل کی۔ جب 6اپریل کے اجلاس میں آپ نے تمام موجودہ ممبران کو(جن میں کچھ متعلقہ لوگ بھی شامل تھے) 6ماہ کیلئے سینٹرل کمیٹی کا رکن بنانے کا اعلان کردیا۔ میں اس پر آپ کو اور ان کو مبارک باد ہی دے سکتا ہوں اس کا حصہ نہیں بن سکتا۔اختتام سے قبل میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سوشل ڈیموکریٹک سیاست میں تجربہ کی بنیاد پر میں نے جتنا ممکن تھا آپ کی مدد کرنے کی کوشش کی تفصیل سے لکھنے کا مقصد دیانتداری سے اپنا نقطہ نظر پیش کرناہے اور یہ وہی کچھ ہے جو ماضی میں زبانی طور پر اکثر بیان کرتا رہا ہوں۔ غالباً آپ کسی وقت اس پر غور کرنا پسند کریں۔‘‘

والسلام معراج محمد خان

معراج محمد خان اب اس دنیا میں نہیں مگر ان کی اصولی سیاست قیدوبند سے قربانی، جدوجہد آج کے سیاسی کارکنوں بشمول پی ٹی آئی، مسلم لیگ اور پی پی پی کے لیے مشعل راہ ہے۔عمران آج اڈیالہ جیل میں ہیں ایسے وقت میں انسان ماضی پر ضرور غور کرتا ہے کہ اس سے کہاں غلطی ہوئی اور تاریخ کا سبق کیا ہے۔ سیاست برداشت اور حکمت عملی کی متقاضی ہے۔ جمہوریت کا سفر قبولیت سے نہیں مقبولیت سے آگے بڑھتا ہے، یہی عمران کو معراج کا پیغام تھا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ