لوڈشیڈنگ کا عذاب : تحریر سلیم صافی


یہ عجیب ملک ہے جہاں بجلی کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہے لیکن کراچی سے لے کر خیبر تک لوگ دس سے بیس گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ برداشت کررہے ہیں۔ بلنگ کا سسٹم عجیب ہے کہ جو بل ادا کرتا ہے اس کو بھی بل ادا نہ کرنے والے کے جرم کی سزا لوڈشیڈنگ کی صورت میں ملتی ہے اور یہ عجیب ملک ہے کہ وفاقی وزیر تک اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ظالمانہ نظام ہے لیکن پھر بھی جاری و ساری ہے۔

یہ بات تو آپ نے کئی مسلم لیگی وزرا اور ترجمانوں کی زبانی سنی ہوگی کہ 2015ءسے قبل ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا اور سی پیک کے تحت فوری منصوبے لگا کر نوازشریف نے ملک میں بجلی سرپلس کردی ۔آج بھی وہ کہتے ہیں کہ بجلی سرپلس ہے لیکن عید کے دنوں میں جبکہ لوگ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گرمی میں جھلس رہے تھے اس دن بھی حکومت کے پاس سرپلس بجلی موجود تھی تاہم اپنی پالیسی کے تحت اسے سپلائی نہیں کی جارہی تھی۔کہتے ہیں کہ جتنی زیادہ بجلی سپلائی کرتے ہیں اتنا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ سوال ہے کہ یہ معمہ کیا ہے کہ بجلی ضرورت سے زیادہ موجودہے لیکن پھر بھی بعض جگہوں پر بیس بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ؟

دراصل پاکستان میں بجلی کی ترسیل کا نظام مختلف کمپنیوں مثلا پیسکو، ایسکو، جپکو، فیسکو، لیسکو، مپکع، قسکو، سپکو، حیکسو اور کے الیکٹرک کے سپرد ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر کمپنی کی حدود میں اربوں روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے ۔یہ چوری کہیں زیادہ کہیں کم ہے لیکن کراچی سے خیبر تک یہ بیماری پھیلی ہوئی ہے ۔ کچھ جگہوں پر تو حکومتی رٹ کی کمزوری کی وجہ سے چوری ہورہی ہے لیکن کچھ جگہوں پر واپڈا والوں کی ملی بھگت بھی اس کی وجہ ہے ۔حکومت کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ چوری پیسکو کی حدود میں ہورہی ہے اس لئے لوڈشیڈنگ بھی وہاں زیادہ ہے ۔

پیسکو کے مطابق اس کے زیرانتظام 1300 سے زیادہ فیڈرز ہیں جن میں 156فیڈرز پر لاسز کم ہیں اس لئے وہاں صرف دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔ 135فیڈرز پر 20سے 30 فی صد لاسز ہیں اس لئے وہاں چھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔ 96 فیڈرز ایسے ہیں جن پر لاسز 30سے 40فی صد ہیں اور وہاں7گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔ 143 فیڈرز پر 40سے 60 فی صد لائن لاسز ہیں اور وہاں پر 12گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔157فیڈرز پر لاسز 60سے 80فی صد ہیں جہاں پر 16گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔ 159فیڈرز پر لاسز 80فی صد ہیں جس کی وجہ سے وہاں پر بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔ اب جہاں پر بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے وہاں بجلی کے کنکشن کا کیا فائدہ ؟ ان فیڈرز کے تحت آنے والے جو لوگ بروقت بل جمع کرتے ہیں، وہ بھی بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی زد میں ہیں تو کیا یہ ان کے ساتھ ظلم نہیں؟

جو لوگ کنڈے لگاتے ہیں وہ بجلی بھی بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔ حکومت کا کہنا یہ ہے کہ ہر ڈیسکو میں جتنی دیر زیادہ بجلی سپلائی ہوتی ہے وہاں حکومت کو زیادہ نقصان ہوتا ہے اس لئے یہ لوڈشیڈنگ اس وجہ سے نہیں ہورہی کہ بجلی کی کمی ہے بلکہ اس لئے ہورہی ہے کہ حکومت کے نقصان کو کم کیا جائے ۔ چنانچہ اب حکومت نے بجلی کی سپلائی کی ان کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے لیکن اگر کراچی کے تجربے کو دیکھا جائے تو شاید نجکاری بھی اس کا مناسب حل نہیں ہے کیونکہ لوگوں سے میٹرز لگوانے اور بجلی چوری روکنے کے لئے پولیس کی ضرورت ہوتی ہے اور پولیس صوبائی حکومتوں کے زیرانتظام ہے ۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ نجکاری کی بجائے ان کمپنیوں کو صوبوں کے حوالے کیا جائے ۔

پاکستان میں لوگوں کے بجلی چوری کی طرف رجحان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی ان کے بس سے باہر ہوگئی ہے ۔ اس میں بجلی کی اپنی قیمت کم لیکن دیگر چیزیں زیادہ ہوتی ہیں۔ مثلا حکومت اپنا سیلز ٹیکس بھی اس کے ذریعے وصول کرتی ہے ۔اسی طرح ٹی وی فیس بھی بجلی کے بلوں میں بھیج دی جاتی ہے حالانکہ یہ سراسر ظلم ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی وی کو اربوں روپے کا فنڈ کیوں دیا جائے ؟ اگر نجی ٹی وی چینلز اپنا خرچہ پورا کرسکتے ہیں تو سب سے بڑے انفراسٹرکچر کا حامل یہ ادارہ اپنے اخراجات پورے کیوں نہیں کرسکتا اور اگر نہیں کر سکتا تو پھر اس کی نجکاری کیوں نہیں کی جاتی ؟

ایک اور مصیبت ہمارے گلے میں آئی پی پیز کی پڑی ہوئی ہے ۔آئی پی پیز کے ساتھ جو معاہدے کئے گئے ہیں وہ گرمی کے موسم ،جس میں بجلی زیادہ استعمال ہوتی ہے کو مدنظر رکھ کر کئے گئے ۔ پھر سردی میں اس بجلی کی ضرورت ہی نہیں ہوتی لیکن حکومت کو انہیں ان کی پیداوار کے حساب سے ادائیگی کرنی پڑتی ہے ۔ یقینا ًوہ ان اداروں کے ساتھ معاہدوں کی پابند ہے لیکن ان کے ساتھ ان پر نظرثانی کے لئے کبھی بات چیت بھی نہیں کی گئی ۔ اب ان کے ساتھ کچھ معاہدے 2027ءمیں اور کچھ 2035ءمیں ختم ہورہے ہیں لیکن تب تک یہ ہمیں نچوڑ دیں گے ۔

یہ تو لانگ ٹرم کی باتیں ہیں لیکن شارٹ ٹرم میں وزارت توانائی کو اپنی نااہلی کی سزا عوام کو نہیں دینی چاہئے ۔ اگر لائن لاسسز ہورہے ہیں تو یہ اس کی اپنی کمزوری سے ہورہے ہیں ۔ اگر بجلی چوری ہورہی ہے تو اس کو روکنا بھی اس کا کام ہے ۔ اس کی روک تھام کے لئے کوئی اور طریقہ ڈھونڈنا چاہئے نہ کہ ان شہریوں کو بھی سزا دی جائے جو بروقت بھاری بھاری بل جمع کراتے ہیں ۔ یہ تو ایسا معاملہ ہے کہ سڑک پر چند افراد ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کریں تو جرم کے مرتکب افراد کو سزا دینے کی بجائے پولیس پوری سڑک بند کردے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ