آپریشن عزم استحکام پرپارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیداکیاجائیگا،خواجہ آصف


لاہور (صباح نیوز) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام پرپارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیداکیاجائے گا، ملک میں دہشت گردوں کی کہیں رٹ قائم نہیں ہوئی، آپریشن عزم استحکام کا ماضی کے آپریشنز سے موازنہ درست نہیں ہے،آپریشن عزم استحکام کے کوئی سیاسی مقاصد نہیں ہیں، سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو دور کریں گے، وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پورنے ایپکس کمیٹی میں دبے الفاظ میں آپریشن کی حمایت کی،جے یوآئی، اے این پی اور پی ٹی آئی ووٹ بینک محفوظ رکھنے کیلئے اسٹینڈ لے رہے ہیں۔

لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ماضی میں سوات ،قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی تھی، آپریشن عزم استحکام پرقومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث کی جائے گی،کابینہ اور پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیداکیاجائیگا، بیورو کریسی اور میڈیا کی حمایت کی بھی اشد ضرورت ہوگی۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ملک میں دہشت گردوں کی کہیں رٹ قائم نہیں ہوئی، آپریشن عزم استحکام کا ماضی کے آپریشنز سے موازنہ درست نہیں ، ماضی میں سوات ،قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی تھی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ، جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ تینوں جماعتیں ووٹ بینک محفوظ رکھنے کیلئے اسٹینڈ لے رہے ہیں لیکن اس وقت ووٹ بینک کے لیے نہیں ملک کیلئے اسٹینڈ لیں۔جے یوآئی، اے این پی اور پی ٹی آئی کی تشویش دور کی جائے گی، آپریشن پر اپوزیشن کی تشویش کا ازالہ کیاجائے گا، ریاست کے تمام اداروں کو آپریشن کی حمایت کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا نے ایپکس کمیٹی میں کوئی اختلاف نہیں کیا، علی امین گنڈا پورنے دبے الفاظ میں آپریشن کی حمایت کی۔وزیر دفاع نے کہا کہ ایسا نہیں کہ طالبان کی رٹ ہو جس کی وجہ سے یہ پلان لانا پڑا، وزیر اعظم، چاروں وزیر اعلی آرمی چیف اور دیگر موجود تھے کسی نے مخالفت نہیں کی۔آپریشن کا مرکز خیبرپختونخوا اور بلوچستان ہوں گے، عزم استحکام آپریشن کیلئے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پچھلے آپریشن میں نقل مکانی ہوئی تھی، یہ آپریشن انٹیلی جنس بیسڈ ہوں گے، ردالفساد اور ضرب عضب کے بعد امن قائم ہوا تھامگر طالبان کو دوبارہ لانے اور بسانے کے بعد یہ لہر آئی ہے، دنیا میں امن ہوچکا، نیٹوکی فوجیں جاچکیں، ہم آج بھی نبرد آزما ہیں۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ اس آپریشن میں بستیوں کو خالی نہیں کرایاجائے گا، چند دنوں میں آپریشن کا طریقہ کار واضح ہوجائے گا، آپریشن پر اتفاق ہوجائے تو اس کے خدوخال پر بھی اتفاق ہوجائے گا، آپریشن کی فنانشل سپورٹ میں صوبوں کو حصہ ڈالنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاسی عزائم نہیں ہم دہشتگردی کا خاتمہ چاہتے ہیں، آپریشن سے متعلق تشویش اور سوالات کا جواب دیا جائے

انہوں نے کہا کہ ماضی میں دہشگردوں کے خلاف ضرب عضب سمیت دیگر آپریشن ہوئے، دسمبر2016میں سانحہ اے پی ایس ہوا اس وقت نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، اس وقت سوات سمیت کچھ علاقوں پر دہشگردوں کا قبضہ تھا، اب صورت حال اس وقت سے مختلف ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ افغانستان میں بھی بات چیت کرنے گیا،اور بھی لوگ جاتے رہتے ہیں، کابل حکومت نے تعاون کا اظہار کیا لیکن کوئی ٹھوس پیشرفت نہیں ہوسکی، اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ ان حالات میں تمام اداروں کی ضرورت ہوگی، اس میں صوبے بھی اپنا حصہ ڈالیں، صوبوں کے پاس زیادہ فنڈ موجود ہیں، اگر رینجرز بلائے جاتے ہیں تو اس کا خرچہ بھی فیڈریشن اٹھاتی ہے، صوبوں کو فنانشل سپورٹ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے، اچھے برے عناصر ہمارے سمیت تمام اداروں میں موجود ہیں۔