میڈیا چوپالوں کی گرم بازاری کے باوجود پی ٹی آئی سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ سنجیدہ، بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے کوئی ٹھوس پیشرفت کرسکتی ہے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹھہراؤ، سبھاؤ، مکالمہ، بات چیت، افہام و تفہیم اسکی سرشت میں ہی نہیں۔ دوسرا سبب یہ کہ وہ سیاستدانوں کے بجائے آج بھی اُسی ’’بارگاۂِ فیض‘‘ کی طرف دیکھ رہی ہے جہاں سے ماضی میں اُسے فیضان حاصل ہوا۔ سو وہ ’مذاکرات‘ کے عنوان سے ’’پنگ پانگ‘‘ کھیل رہی ہے۔ محمود خان اچکزئی کمیٹی کو اُڑان بھرنے سے پہلے ہی بے ذوق لطیفہ بنا دیا گیا۔ بار بار باور کرایا جارہا ہے کہ اچکزئی نے خود ہی ’’ثالثی‘‘ کی دستار اپنے سر پہ سجالی ورنہ ہم تو ’’چوروں‘‘ اور’’ ڈاکوؤں‘‘ کو منہ لگانے کے روادار نہیں۔ بیرسٹر گوہر نے اچکزئی صاحب کی اِس ’’تمنائے بے تاب ‘‘کا ذکر خان صاحب سے کیا اور اُنہوں نے بندھی بندھائی مجبور وبے بس سی دیہاتی دلہن کی طرح ’’ہاں‘‘ کر دی۔ اگلے ہی دِن وضاحت جاری کی گئی کہ ’’اِس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ پی۔ٹی۔آئی اب غاصبوں سے مذاکرات پر آمادہ ہوگئی ہے۔ مینڈیٹ چرانے والوں سے کوئی بات نہیں ہوسکتی۔‘‘ 15جون کو ایک باضابطہ پریس کانفرنس میں پارٹی ترجمان نے وضاحت کی۔ ’’اگر محمود خان اچکزئی ’تحریکِ تحفظ آئین ِپاکستان‘ کے پلیٹ فارم سے، کسی کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو یہ اُن کی مرضی ہے۔ بانی چیئرمین نے صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ ہم کسی بھی پارٹی سے کوئی مذاکرات نہیں کر رہے۔ بانی چیئرمین چوروں سے کسی قسم کی بات چیت پر آمادہ نہیں۔‘‘
ایک ٹی۔وی شو میں رؤف حسن نے دوٹوک لفظوں میں کہا۔ ’’ہم نے اچکزئی کو کوئی اختیار نہیں دیا۔ ہماری پوزیشن واضح ہے۔ ہم ’’مینڈیٹ چوروں‘‘ سے کوئی رابطہ نہیں چاہتے۔‘‘ تین چار دِن قبل خود خان صاحب نے کہا ’’ہم ن لیگ سے کیا بات کریں؟ موسم کا حال پوچھیں؟ مذاکرات اس طرح نہیں ہوا کرتے۔ محمود خان اچکزئی کوئی آفر لے کر آئیں گے تو مذاکرات کے بارے میں سوچیں گے۔‘‘ اچکزئی صاحب کی پُشت پناہی کے بجائے پی۔ٹی۔آئی تاثر دے رہی ہے کہ وہ تو محض ایک خودساختہ ہرکارہ، قاصد یا ایلچی ہے جو حکومت سے خان صاحب کے لئے کوئی بڑی ’’آفر‘‘ لینے جا رہا ہے۔ وہ آفر کی کوئی اچھی سوغات لے آیا تو ویٹو پاور کے حامل خان صاحب فیصلہ کریں گے کہ مذاکرات کئے جائیں یا نہیں۔‘‘ عبدالصمد اچکزئی کا 76 سالہ فرزند محمود خان بھی کیا سوچتا ہوگا کہ یہ میں کس قافلۂِ بے راہ ومنزل کی طرف آنکلا ہوں۔ مردِ کہستانی سے میری پرانی یاد اللہ ہے۔ وہ مروّت کے سلیقوں اور محبت کے قرینوں سے بخوبی آگاہ ہے لیکن کھرا پشتون ہونے کے ناتے عزتِ نفس کے حوالے سے بھی بے حد حساس ہے۔ عمران خان نے ایک اور دلچسپ بات کہی ’’اگر میرے پیچھے ہٹنے سے پاکستان کا کوئی فائدہ ہوتا ہے تو مجھے مطمئن کریں۔‘‘ یہ ایک ایسی کڑی شرط ہے جو کم ازکم پاکستان کے کسی ذی روح کے بس کی بات نہیں۔ کون ہوگا ایسا مردِ ہنرکار جو خان صاحب کو ’’مطمئن‘‘ کرسکے یا اُنکے موقف کے سامنے اپنی دلیل کا چراغ جلاسکے۔ ’’پاکستان کے فائدے‘‘ کے حوالے سے بھی خان صاحب جداگانہ اور منفرد معیار رکھتے ہیں۔ اُنکے نزدیک طویل دھرنوں کے ذریعے 2014میں چینی صدر کا راستہ روکنا پاکستان کے مفاد میں تھا۔ عوام الناس کو سول نافرمانی کی تلقین کرنا، بینکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنا، بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کے بجائے جلا دینا، دیوالیہ پن کی دہلیز پہ کھڑے پاکستان کی امداد روکنے کیلئے آئی۔ایم۔ایف کو خط لکھنا، اس کے صدر دفاتر کے باہر وطن مخالف مظاہرے کرانا، امریکی سائفر سے طفلِ خود معاملہ کی طرح کھیلنا، مسلح افواج کے اندر بغاوت کیلئے سازش کا جال بننا، 250 سے زائد دفاعی تنصیبات پر حملے کرنا، شہداء کے مجسمے توڑنا، مکروہ بھارتی سوچ کی مظہر تصویری ٹویٹس کے ذریعے سقوطِ ڈھاکہ کے المیے کو موجودہ حالات پر منطبق کرتے ہوئے آرمی چیف کو نشانہ بنانا، بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرنا، عالمی برادری کو پاکستان سے بدظن کرنا اور اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے قبائے وطن کے بخیے ادھیڑتے رہنا ’’مفادِ پاکستان‘‘ کے بنیادی تقاضے ہیں۔ اس پیمانے کے مطابق خان صاحب کو کون بتائے اور کیسے مطمئن کرے کہ ’پاکستان کا فائدہ‘ کس بات میں ہے؟ اب تو ’’پاکستان کے مفاد‘‘ سے ’’دِل بستگی‘‘ اس انتہا کو جا پہنچی ہے کہ کھیل کے میدانوں سے عالمی سیاست کے ایوانوں تک، پاکستان کی ہر سُبکی دل بستگانِ تحریک انصاف کے لئے تسکین قلب کا سامان بن جاتی اور کسی بھی گوشے سے آنے والی ہر اچھی خبر اُنکے جگر میں تیر نیم کش کی طرح ترازو ہوجاتی ہے۔تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے ہمارے پیشِ نظر بھی ہمیشہ یہ الجھن رہی اور اب مبصّرین بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ پی۔ٹی۔آئی کی طرف سے کرائی گئی کسی بھی یقین دہانی کی ضمانت کون دے گا؟ حقیقت ِثابتہ یہ ہے کہ خود عمران خان بھی اپنی افتادِ طبع کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اُن کی ’’مستقل مزاجی‘‘ کے سبب درجنوں مذاکراتی مجلسیںناکام ہوچکی ہیں۔ مئی 2022ء میں حکومتی اتحاد نے سینیٹر اسحاق ڈار، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، سید یوسف رضاگیلانی اور قمرزمان کائرہ پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی کہ پی۔ٹی۔آئی کو فوری انتخابات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جائے۔ شاہ محمود قریشی، بیرسٹر علی ظفر اور فواد چودھری نے پی۔ٹی۔آئی کی نمائندگی کی۔ طے پاگیا کہ جون 2022ء میں بجٹ کی منظوری کیساتھ ہی اسمبلی توڑ دی جائیگی اور اگست میں انتخابات ہو جائینگے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ کے ذریعے خان صاحب کو بھی آگاہ کر دیا گیا۔ پی۔ٹی۔آئی ٹیم کے ارکان شاداں وفرحاں نویدِجانفزا لے کر خان صاحب تک پہنچے تو انہوں نے یہ مفاہمت مسترد کر دی۔ کہا کہ’’ میں 25 مئی کو لشکر جرار لے کر اسلام آباد جا رہا ہوں اور طاقت کے زور پر انتخابات کی تاریخ لے کر اٹھوں گا۔‘‘ تینوں اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ حکومتی کمیٹی نے پوچھا تو بولے __ ’’وہ نہیں مانتا۔‘‘
اب خان صاحب اپنے تمام پتے چل چکے ہیں۔ اُنکی کوئی چال کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ جمعہ کے جمعہ اُنکی احتجاجی کال نے، اسٹریٹ پاور کا پول بھی کھول دیا ہے۔ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی ہجوم کی نفری، نواحی مسجد میں نماز جمعہ کے شرکاء کی تعداد سے بھی کہیں کم ہوتی ہے۔ مقدمات اپنی جگہ موجود ہیں۔ پارٹی میں یکجہتی نام کی کوئی شے نہیں۔ 66 ارب روپے کرپشن کا ’’القادر کیس‘‘ فیصلہ کُن موڑ تک آن پہنچا ہے۔ ڈسے یا نہ ڈسے، 9 مئی کا شیش ناگ بدستور پھن پھیلائے پھنکار رہا ہے۔ خان صاحب کے لئے ٹھنڈی ہوا کا کوئی دریچہ کھُلتا دکھائی نہیں دیتا۔ بات اُس وقت تک آگے نہیں بڑھے گی جب تک خان صاحب خلوصِ دِل کے ساتھ اپنی جماعت کی ایک بااختیار کمیٹی تشکیل نہیں دیتے۔ ہر تدبیر الٹی پڑنے اور ہر حربہ ناکام ہوجانے کے بعد خان صاحب کی شاخِ فکر پر ’’پاکستان کے مفاد‘‘ کی جو تازہ کونپل پھوٹی ہے، وہ بالغ نظری اور سنجیدہ قدمی کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ نہیں تو بے اختیار قاصدوں، ہرکاروں، نامہ بروں اور ایلچیوں کو رُسوا نہ کریں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ