تصوف پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ صوفی زمانےکی تلخیوں اور مشکلات سے بے نیاز اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں۔ بے آسرا کو گھنے پیڑ کا سایہ ،افسردہ کو دلاسے والا کندھا ، زخمی کے زخم پر پھاہا ، بھوکے کو لنگراور پیاسے کو پانی کا کٹورا ضرور پیش کرتے ہیں مگر ظالم کا ہاتھ نہیں روکتے، نہ ہی استحصال کرنے والے کے خلاف آواز بلند کرنے کی صلاح دیتے ہیں کہ ان کا کام امن ، محبت اور حسنِ سلوک کی تعلیم ہوتا ہے مگر یہ کسی بھی صوفی کے حوالے سے درست رویہ نہیں ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ صوفی کا ٹھکانہ درِ فیض ہوتا ہے۔ اس کا دستر خوان ہر رنگ اور عقیدے کے نیک،بد یا زمانے کی نظر میں حقیر اور گنہگارفردکا استقبال کرتا ہے کیونکہ صوفی برے عمل سے نفرت کرتا ہے،انسان سے نہیں۔ وہ کسی کا رتبہ اور عمل دیکھ کر مجلس میں شرکت کی اجازت نہیں دیتا ، اس کے ڈیرے پر روک ٹوک اور دستک کے محتاج دروازے نہیں ہوتے۔پھر جو اس کی مجلس اختیار کرلے وہ بدلتا ضرور ہے۔ دوسرا یہ کہا جاتا ہے کہ صوفی کیونکہ آخرت پر زیادہ زور دیتا ہے اس لیے دنیاوی زندگی کے معاملات اور جدوجہد کرنے کی طرف اس کی توجہ کم ہوتی ہے۔یہ بھی درست رویہ نہیں صوفی صرف مادی دنیا کا ہو کر رہ جانے سے روکتاہے۔ وہ مختصر زندگی کے ہر ہر لمحے کو خدمت خلق اور تفہیمِ ذات سے جوڑ کر بامقصد بنانے کی تلقین کرتا ہے، آخرت سے اس کی مراد ثواب اور جنت کا حصول نہیں بلکہ ذات کو لطافت کے مراحل پر ہمکنار کرنا ہے ،محمد بخش کی شہرہ آفاق تصنیف سفر العشق یعنی سیف الملوک پڑھئے آپ پر کھلے گا کہ صوفی اس دنیا کو اہمیت بھی دیتا ہے اور اسے بدلنے کی تگ ودو بھی کرتا ہے۔میاں محمد بخش پنجابی شاعروں میں اس حوالے سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کی شاعری زندگی کے سفر میں معاون بننے والی اخلاقی و سماجی قدروں کی عکاس ہے۔صرف سیف الملوک میں ایسے سینکڑوں اشعار موجود ہیں جو وقت کے نئے تقاضوں کے آئینوں میں سنور کر ، معانی اور سیاق وسباق کے نئے پیرہن زیب تن کرکے ہر مکتب فکر اور عمر کے لوگوں کی اخلاقی اور جمالیاتی تربیت گاہ کادرجہ اختیار کر چکے ہیں ۔ان اشعار کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ انسانی عقل نے تجربے کے صندوق میں رکھے صدیوں کے حاصل وصول کی چھان بین اور تجزیہ کرکے انھیں عالمی سچائی کے روپ میں پیش کیا ہے۔میاں محمد بخش کے اور بھی بہت سے کمالات اور اعزازات ہیں لیکن سب سے بڑا کمال محنت، جدوجہد،کوشش اور صِدق سے نامہربان حالات کو بدلنے کا ہنر ہےجو ان کے ہر شعر کے قلب میں دھڑکن کی طرح سمایا ہوا ہے۔
جے توں طالب راہ عشق دا چھڈ وہماں وسواساں
ہمت دا لک بنھ محمد رکھ آساں پیا پاساں
عشق زندگی کا مقصد ہے ، زندگی کا حاصل ہے ، یہ طویل رستہ مشکلات سے بھرا ہوا ہے۔قدم قدم پر رکاوٹوں کے انبار ہیں مگر جو لوگ ہمت ،حوصلے سے جدوجہد جاری رکھتے ہیں اور آس کا دِیا بجھنے نہیں دیتے اْن کی آنکھیں محبوب کا دیدار ضرور کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔
جاں تک ساس نراس نہ ہوویں ساس ٹْٹے مْڑ آسا
ڈھونڈ کرن تھیں ہٹیں ناہیں،ہٹ گئیوں تاں ہاسا
سانس کے ساتھ امید بندھی رہنی چاہیے۔جب تک سانس چلتا ہے انسان کو نہ مایوس ہونا چاہیے نہ مشکلات سے گھبرا کر سفر ترک کرنا چاہیے۔جو فرد تلاش اور جدوجہد کا سفر ادھورا چھوڑ کر واپس لوٹ آتا ہے لوگ اس کی کم ہمتی کا مذاق اڑاتے پیں۔
جہاں مجبوری اور بے کسی کی کسی بھی حالت میں ہمت نہ ہارنا انسان کی فضیلت بتائی گئی وہیں کومل موسموں کو غلام بنانیوالے طوفانوں کے سامنےاپنی پوری قوت یکجا کرکے ٹکرانے کا نسخہ بھی موجود ہے۔انسان کے وجود میں سب قوتیں پوشیدہ ہیں۔علم ، دولت اور طاقت کے سرچشمے اندر سے پھوٹتے ہیں مگر ان ہیرے موتیوں کو تلاشنا پڑتا ہے ، پھولوں سے جھولی بھرنے کے لئے انگلیوں کی پوروں کو چبھن جھیلنی پڑتی ہے۔ خون کا نذرانہ دینا پڑتا ہے زندگی کا راستہ کانٹوں بھرا ہے۔اس سے نہ ڈر کر جدوجہد کرنے والے کامیاب ہوتے ہیں۔
ریت وجود تیرے وچ سونا اینویں نظر نہ آوے
ہنجوواں دا گَھت پانی دھوویں ریت مِٹی رُڑھ جاوے
کنڈے سخت گْلاباں والےدوروں دیکھ نہ ڈرئیے
چوہباں جَھلیے رَت چوائیے جَھول پْھلیں تد بھرئیے
انسان کا وجود ریت کی مانند ہے ، جس کے اندر سونا مٹی کے غلاف میں لپیٹ کر رکھا گیا ہے۔اس خشک ریت کو آنسووں سے بھگویا جائے تب سونا نظر آتا ہے۔ باطن میں جھانکنا اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ذمہ داری انسان کی ہے۔ مقابلے کی لگن انسان کے وجود میں پوشیدہ رازوں کو یکجا کر کے اسے مضبوط اور ناقابل تسخیر بنا دیتی ہے۔
ہر انسان کو زندگی کرنے کیلئے دل کی دولت کے ساتھ ساتھ دنیاوی روپیہ پیسہ اور وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔میاں محمد اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں
دنیا دی ہر مشکل تائیں دولت کرے آسانی
ڈاہڈے قفل اُتارے ایہہ وی کنجی ہے رحمانی
اگرچہ صوفی پوری دنیا کو خدا کی زمین سمجھ کر کائنات کے لوگوں کو ایک کنبہ سمجھتا ہے لیکن جس زمین پر اس کا جنم ہوتا ہے جو اسکی شناخت بنتی ہے اس کی اہمیت سے آگاہ ہوتا ہے۔وطن کی مٹی اور ہوائیں انسان کے وجود کے موافق ہوتی ہیں وہ وہاں آزادی ،اپنائیت اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ وہ اس کا وارث ہوتا ہے جب کہ پردیس میں اسے بیگانگی کا سامنا ہوتا ہے۔پھر ہر فرد اپنی قوم اور نسل کے لوگوں میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ انسان کو ایسی مخلوق کی بادشاہی گراں گزرتی ہے جن کے ساتھ اس کی کوئی بھی سانجھ نہ ہو۔
توڑے کُتے بن کے رہیے وچ وطن دیاں گلیاں
در در جِھڑکاں سہیے تاں وی فِر پردیسوں بھلیاں
بشکریہ روزنامہ جنگ