ہماری سیاسی جماعتوں کا کردار عمومی طور پر مایوس کن رہتا ہے۔ سب کی سیاست اپنے اپنے سیاسی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے قومی مفادات کے معاملات پر بھی سیاست کی جاتی ہے۔
گزشتہ ایک دو سال سے تحریک انصاف کی طرف سے تو اپنے سیاسی مفادات کیلئے پاکستان کی معیشت کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا جو انتہائی افسوس ناک بات ہے۔
ایسے میں دو دن قبل چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر تیسرے پاک چین مشترکہ مشاورتی میکنزم اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کا ایک پیج پر نظر آنا اور مثالی اتفاق رائے کا مظاہرہ کرنا ایک ایسا خوش آئند عمل تھا جس کی سب کو حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ ہماری سیاسی جماعتیں معیشت سمیت دوسرے قومی مفادات سے متعلق معاملات پر اپنی اپنی سیاست اور اپنے اپنے ذاتی مفادات کی بجائے پاکستان اور عوام کے مفاد کو ترجیح دیں۔
یہ واحد طریقہ ہے جس سے پاکستان کے مسائل اور اس کو درپیش چیلنجز کا بہتر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
جنگ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق سی پیک سے متعلقہ اس اہم اجلاس میں تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ہر طرح کے مذموم عزائم کو ناکام بناتے ہوئے پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کیلئے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔
اجلاس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، تحریک انصاف کے سینیٹر سید علی ظفر، جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، پیپلز پارٹی کی حنا ربانی کھر، استحکام پاکستان پارٹی کی منزہ حسن، نیشنل پارٹی کے سینیٹر جان محمد، سینئر سیاستدان افراسیاب خٹک اور دیگر رہنما شامل تھے۔
چینی وزیر لیوجیان چاؤ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترقی کیلئے اندرونی استحکام ضروری ہے، سرمایہ کاری کیلئے سیکورٹی صورتحال بہتر، اداروں اور سیاسی جماعتوں کو ملکر چلنا ہوگا۔
فضل الرحمان نے کہا سی پیک پر پاکستان میں قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے، پاک چین دوستی ہمارے باہمی اختلافات سے بالاتر ہے، سینیٹر علی ظفر نے کہا منصوبوں میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود تمام سیاسی جماعتیں چین اور سی پیک کے حوالے سے متفق ہیں اور اپ گریڈ شدہ ورژن کو مضبوط بنانے کیلئے پرعزم ہیں۔ پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے سی پیک ٹو کو آگے لے جانے کیلئے سیاسی جماعتوں کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے جعلی خبروں ،جن کا مقصد سی پیک اور پاک چین تعلقات کو نقصان پہنچانا ہے، کے سدباب کیلئے ریپڈ رسپانس انفارمیشن سسٹم کے قیام کی تجویز بھی پیش کی۔
گویا جس بھی سیاسی رہنما نے اس اجلاس میں بات کی وہ مثبت تھی۔ سی پیک اور چین سے پاکستان کے گہرے تعلقات کے متعلق سیاسی جماعتوں کے اس اتفاق کے مظاہرے کونہ صرف سراہنے کی ضرورت ہے بلکہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے سیاسی اختلافات اور نظریات سے بالاتر ہو کر پاکستان کو موجودہ مشکلات سے نکالنے کیلئے اسی طرح کے عمل کو تقویت دیں۔
اس سے پاکستان کی سیاست کی عزت ہوگی، سیاستدانوں کے متعلق عوام میں پایا جانیوالا منفی تاثر دور ہو گا۔ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو، اگر سیاسی رہنما قومی مفاد سے متعلق معاملات پر اتحاد کا مظاہرہ کریں گے تو اس کا سیاسی فائدہ سب کو ہوگا۔
اگر ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے اور اس لڑائی میں قومی مفاد کے معاملات پر بھی سیاست کرتے رہیں گے تو پھر نقصان پاکستان اور عوام کے ساتھ ساتھ سب سیاستدانوں اور ان کی سیاست کا بھی ہوگا۔
فائدے کی سیاست وہ ہے جو پاکستان اور عوام کو فائدہ دے۔ ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ