وفاقی حکومت کے پہلے 100دن گزر چکے ہیں۔ اگرچہ ان دنوں کو ہنی مون پیریڈ سمجھا جاتا ہے لیکن انہی ابتدائی دنوں کو دیکھ کر بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ دنوں میں حکومت کیا کارگزاری دکھائے گی۔ بیتے ہوئے سو دنوں کو دیکھیں تو اس میں اچھے اوربرے پہلو دونوں نمایاں نظر آتے ہیں۔ اچھے پہلو افراط زر میں کمی، مہنگائی میں تھوڑا سا ریلیف، پٹرولیم کی قیمت میں کمی، ڈالر ریٹ کا استحکام، سٹاک مارکیٹ میں تیز ترین بہتری، برآمدات میںاضافہ اور درآمدات میں کمی ہیں۔ بُرے پہلوؤں میں نمایاں بات یہ ہے کہ معاشی بہتری کا جو منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے وہ مستقل طور پرقائم رہتا ہوا نظر نہیں آتا، بظاہر یہ معاشی بہتری ایک بلبلے کی طرح ہے جو بیرون ملک کے سود کے قرض کی ادائیگیوں میں صرف ہو جائے گی اور ملک ایک بار پھر معاشی ابتری کا چیلنج بھگتے گا۔ دوسرا بُرا پہلو سیاسی عدم استحکام ہے، معاشی بہتری کو قائم رکھنے کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہوتا ہے چونکہ تحریک انصاف اس حکومت کوتسلیم کرنے پر ہی تیار نہیں اس لئے اعتماد کا بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ موجودہ وفاقی حکومت کے سربراہ شہباز شریف سیاست سے آنکھیں چرا کر اپنی توجہ صرف معیشت اور گورننس پر مرکوز کیے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے وزیر اعظم بننے اور قائم رہنے کیلئے سیاست کرنا ضروری ہے۔ سیاست پر ان کا لب کشائی نہ کرنا یا دوسرے لفظوں میں ’’گونگا‘‘ بنا رہنا حکومتی سیاست میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی کامیابی میں پہلی شرط سیاسی بیانیہ اور دوسری شرط کارگزاری ہوتی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف کی توجہ کارگزاری پر تو ہے بیانیے پر بالکل نہیں۔ لہٰذا اگر وہ سونے کے پہاڑ کھڑے کردیں، شیشے کی سڑکیں بنا دیں اور پٹرول کو پانی جتنا سستا بھی کردیں تب بھی سیاسی بیانیے کے بغیر ان کی ساری کارگزاری اکارت جائے گی۔
معیشت میں جو بہتری آئی ہے وہ سخت نگرانی اور مسلسل محنت کی وجہ سے ہے لیکن اس طرح کی نگرانی ہر وقت اور ہمیشہ نہیں ہوسکتی۔ فوج اور حکومتی محکموں نے ڈالر کی افغانستان سمگلنگ کو کافی حد تک کنٹرول کیا ہوا ہے چمن بارڈر کافی عرصے سے بند ہے، ظاہر ہے اسے ہمیشہ بند تو نہیں رکھا جاسکتا ،جب یہ بارڈر کھلے گا تو پھر سے سمگلنگ شروع ہو جائے گی۔ ایران بارڈر سے غیر قانونی تیل پر 70فیصد قابو پا لیا گیا ہے لیکن اب بھی 30فیصد ایرانی ڈیزل اور پٹرول پاکستان میں فروخت ہو رہا ہے۔ اگر سرحدوں کی نگرانی میں تھوڑی نرمی دکھائی گئی تو پھر سے ایرانی تیل کی سمگلنگ شروع ہو جائے گی۔
معاشی بہتری کیلئے جو عارضی اقدامات کئے گئے ہیں انکے نتائج بہتر ہیں مگر مستقل اقدامات نہ کئے گئے تو ہم برآمدات کے گڑھے اور قرضوں کی دلدل میں اس قدر دھنس جائیں گے کہ نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ پہلا سوال یہ ہے کہ تجارتی خسارہ کم کرنے کیلئے کونسی برآمدات کو فروغ دیا جائے گا؟ حکومت کون سے سیکٹر کی حوصلہ افزائی کرے گی اور پھر برآمدات کا کیا ہدف مقرر ہوگا؟ دوسرا اہم ترین سوال یہ ہے کہ درآمدات کم کرنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جار ہا ہے ؟ کیا صرف درآمدات بند کرنا مسئلے کا حل ہے؟ جب تک درآمدات کی متبادل مقامی انڈسٹری کھڑی نہیں ہوتی اس وقت تک درآمدات پر پابندی سے منفی رجحانات پیدا ہوں گے۔
فی الوقت حکومت کی سخت معاشی پالیسیوں کے باعث درآمدکنندگان ہوں یا برآمدکنندگان دونوں مشکلات کا شکار ہیں۔ مالیاتی پالیسیوں کےباعث سرمایہ کار اپنا پیسہ بینکوں میں رکھ کر منافع کما رہے ہیں حالانکہ ایسی پالیسیاں ہونی چاہئیں کہ یہ سرمایہ صنعتوں کے فروغ اور نئے روزگار کی فراہمی کیلئے استعمال ہو۔ ملک کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ اب مہنگی بجلی بن چکا ہے، نہ سولر کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی بجٹ میں سامنے آئی ہے اور نہ بجلی کو سستا کرنے کے حوالے سے کوئی منصوبہ یا ہدف سامنے لایا گیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بجلی کا ریٹ تب کم ہوگا جب نئی صنعتیں لگیں، بجلی کا استعمال زیادہ ہو تاکہ ہم گنجائش کے مطابق آئی پی پی کو جو رقم بجلی استعمال کئے بغیر دے رہے ہیں وہ بجلی استعمال ہو تبھی اس کے نتیجے میں بجلی سستی ہوگی۔ فی الحال حکومت کی طرف سے ایسا کوئی واضح اقدام سامنے نہیں آیا جس سےاس منزل کی طرف سفر کی نشاندہی ہوتی ہو۔
موجودہ مخلوط حکومت کا سب سے بڑا چیلنج بہرحال سیاسی بحران سے نمٹناہے کیا تحریک انصاف کے بانی کو اسی طرح جیل میں اور منتخب ایوان میں کشیدگی کو برقرار رکھ کر پائیدار معاشی استحکام حاصل کیا جاسکے گا؟ میری ذاتی رائے میں ایسا ممکن نہیں۔ نوازشریف اور آصف زرداری کو سرجوڑ کر بیٹھناچاہیے اور اس مسئلے کے حل کیلئےمقتدرہ سے بھی بات کرنی چاہیے ، عمران خان کو جیل میں رکھنے سے اس کی مقبولیت میں کمی نہیں اضافہ ہوا ہے، سیاست دانوں کا مقابلہ صرف سیاست سے ہو سکتا ہے ۔ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو جیلوں میں رکھنے سے کیا ان کا ووٹ بینک کم ہوا تھا؟ نواز شریف کو جیل میں بھیجنے سے کیا ان کی مقبولیت کو کوئی فرق پڑا تھا؟ اسی طرح عمران خان کو بھی جیل میں رکھ کر سیاسی شکست نہیں دی جا سکتی۔ بہترین جمہوری رویہ تو یہی ہوگا کہ تحریک انصاف نے 8فروری کے انتخابات میں جو کامیابی حاصل کی ہے اس کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے، دوسری طرف عمران خان بھی اپنے سیاسی اور ذاتی مخالفوں کے بارے میں اپنےانتقامی رویے پر نظر ثانی کریں۔ چینی سینئر وزیر کی آمد پر تحریک انصاف کے وفد کی سرکاری دعوت میں شرکت خوش آئند ہے، پارلیمان کے اندر سے ہی مذاکرات شروع کئے جائیں اور ملک کے سیاسی اور معاشی استحکا م کو مدنظر رکھا جائے۔
وفاقی حکومت کے پہلے سو دنوں میں سیاسی موقف کی عدم موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہباز حکومت معیشت کو اپنی پہلی اور آخری ترجیح سمجھ رہی ہے حالانکہ سیاسی حل کی طرف بڑھے بغیر پائیدار معیشت کا ہدف بھی پورا نہیں ہوگا۔ جوبھی سیاسی حل ہو وہ جمہوری اور آئینی اصولوں کی سربلندی کیلئے ہونا چاہیے، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی، اپوزیشن کا جائز مقام اور انسانی حقوق کااحترام وہ بنیادی نکات ہونے چاہئیںجن پر مصالحت کی عمارت کھڑی کی جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ