قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث جاری

اسلام آباد(صباح نیوز)قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پرعام بحث جمعہ کو بھی جاری رہی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین نے افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدی تجارت کوقانونی شکل دینے، کرپشن کے خاتمہ کیلئے ڈیجیٹلائزیشن کے عمل کوآگے بڑھانے اور تنخواہ دارطبقے کو ریلیف فراہم کرنے کی تجاویز دیں۔ اراکین نے کہاکہ برآمدی صنعتوں کیلئے زیرو ریٹڈ رجیم کے خاتمہ سے انڈر انوائسنگ میں اضافہ ہوگا جس سے معیشت کیلئے مشکلات پیداہوں گی جبکہ بعض اراکین نے صنعتوں اور زراعت کیلئے مراعات میں اضافہ کی ضرورت پرزوردیا۔جمعہ کوقومی اسمبلی میں بجٹ پربحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رکن خرم شہزاد نواز نے کہا کہ بجٹ سازی میں منتخب اراکین سے بھی مشاورت کی جانی چاہیے، متاثرین اسلام آباد کے بقایاجات اداکیے جائیں، وفاقی دارالحکومت کے بسنے والوں کو ان کا قانونی حق نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے لوگوں نے سکولوں کے لئے اراضی وقف کی لیکن ان سکولوں میں اساتذہ نہیں ہیں۔2017 میں 200 بسیں دی گئیں تاہم محکمہ کے پاس اس کے چلانے کے لئے ڈرائیور نہیں ہیں۔اب پنک بسیں چلانے کی بات ہورہی ہے۔

سنی اتحادکونسل کے امجدعلی خان نے کہاکہ بجٹ اگر منظورہوا تواس سے عوامی مسائل میں اضافہ ہوگا، ہم نے ابھی تک صحت کوبنیادی ضرورت کا درجہ تک نہیں دیا، گزشتہ سال صحت کابجٹ جی ڈی پی کا 1.4 فیصدتھا، اس سال ایک فیصد کر دیا گیا ہے، اسی طرح تعلیم کا بجٹ 65 ارب سے کم کرکے 25 ارب کر دیا گیا ہے۔پی ایس ڈی پی سے ملاکنڈکے دومنصوبے نکال دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ خیبرپختونخوا اپنی ضرورت سے زیادہ پانی سے بجلی پیداکرکے نیشنل گرڈ کوفراہم کررہاہے مگر بجلی ہمیں 80 روپے یونٹ میں بیچی جا رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ اس بجٹ سے مہنگائی میں اضافہ کا امکان ہے۔مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ذولفقار علی بھٹی نے کہاکہ سیاستدانوں کوایک دوسرے کی عزت کرنا چاہئے۔ اس پارلیمان کی عزت اور وقار سیاستدانوں نے بنانی ہے۔انہوں نے کہاکہ ان کے حلقہ کی سڑکوں کی حالت خراب ہے، پی ایس ڈی پی میں ایک سکیم موجودتھی مگردستاویزات میں وہ شامل نہیں ہے۔میری گزارش ہے کہ وہ سکیم پی ایس ڈی پی میں شامل کی جائے۔ بی آئی ایس پی کی تقسیم میں کرپشن ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعہ ختم کی جاسکتی ہے ۔ساجدخان نے کہاکہ سابق فاٹا میں افغانستان کے ساتھ تجارت کیلئے بارہ راستے کھولے جائیں، اس سے افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں تک ہماری برآمدات میں اضافہ ہوسکتاہے، اس معاملہ پرپارلیمان کی کمیٹی بنانے کی بھی ضرورت ہے، انگوراڈہ بارڈر پہلے کھولاگیاتھا مگر اسے بندکر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ایران کی طرح پاکستان کوبھی ویزہ سہولیات فراہم کرنے ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ سرحد کوانسانی ہمدردی کی پہلوسے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔مہمندایجنسی میں ماربل انڈسٹری بند ہوچکی ہے، ہمیں وسطی ایشیا تک رسائی دی جائے، اس سے نہ صرف پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوگا بلکہ علاقہ میں امن بھی قائم ہوگا۔انہوں نے کہاکہ سابق فاٹا میں ہمیں کوئی صوبائی اور وفاقی ٹیکس منظورنہیں ہے۔این ایف سی کے حوالہ سے مسلم لیگ ن اپنے وعدے پرعمل درآمدکرائے۔ایم کیوایم کے ارشدعبداللہ ووہرہ نے کہاکہ میثاق جمہوریت کے اثرات نظرآرہے ہیں، اس سے سیاست کاطریقہ کارتبدیل ہواہے،اسی طرح تمام جماعتوں کوپاکستان کی معیشت کومستحکم کرنے کیلئے میثاق معیشت پرمل کربیٹھنا ہوگا،اسے سے پاکستان مستحکم ہوگا۔انہوں نے کہاکہ تنخواہ دارطبقہ سب سے زیادہ ٹیکس دے رہاہے مگراسی طبقہ پرمزید بوجھ ڈالاگیاہے، اس طبقہ کوریلیف دینے کی ضرورت تھی۔انہوں نے کہاکہ غیردستاویزی معیشت کو براہ ٹیکس نیٹ میں لانے سے ملکی معیشت کوبہتربنانے میں مدد ملے گی۔بجٹ میں زراعت اور نئی صنعتوں کیلئے کوئی ترغیبات نہیں ہے، برآمدات پرزیروریٹڈ رجیم کے خاتمہ سے ری بیٹ میں رشوت کاعنصرداخل ہوجائیگا جس سے کاروبار اور برآمدات پر اثرات مرتب ہوں گے۔

انہوں نے کہاکہ شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے نجی شعبہ کیلئے قرضہ لینے کی گنجائش کم ہوجاتی ہے۔لیٹرآف کریڈٹ کے طریقہ کارکوآسان بنانے کی ضرورت ہے۔ٹیکسٹائل کی صنعت پرچندصنعت کاروں کی اجارہ داری ہے اس کو مسابقتی بنانے کی ضرورت ہے۔سنی اتحادکونسل کے شاہرام خان ترکئی نے کہاکہ بجٹ میں غریب آدمی کیلئے کچھ نہیں ہے، افراط زرکی شرح 26فیصدکے قریب ہے، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 9 کروڑ لوگ غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزاررہے ہیں، مہنگائی بڑھنے سے اس تعدادمیں اضافہ ہوگا۔ بجٹ میں صنعتوں، لائیوسٹاک اور کاروباری لاگت کم کرنے کے حوالہ سے اقدامات شامل نہیں ہے۔ ایکسپورٹ پروسیڈز پرٹیکس سے انڈرانوائسنگ میں اضافہ ہوگا۔تنخواہ دارطبقے اور چیریٹی ہسپتالوں پرٹیکس نہیں ہونا چاہئے۔ہمیں غیرملکی سرمایہ کاروں کی بجائے اپنے ملکی سرمایہ کاروں کوسہولیات فراہم کرنا چاہئے اس سے ملکی معیشت کوفائدہ پہنچے گا۔مسلم لیگ ن کے جمال شاہ کاکڑنے کہاکہ عوامی اعتماد کی بحالی ضروری ہے، ملک سے کرپشن ختم کرنے سے ہمارے 50 فیصدمسائل حل ہوسکتے ہیں۔ کرپشن اور سمگلنگ پرقابوپانے سے ہماری معیشت درست ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں مواصلات کے نظام پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ڈی آئی خان کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی تک شاہراہ کے منصوبوں کوجلدمکمل کیاجائے، کوئٹہ میں پینے کے پانی کابہت بڑامسئلہ ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے، بجٹ میں کوئٹہ میں پانی کی فراہمی کابڑامنصوبہ شامل کیاجائے۔کوئٹہ اور صوبہ میں امن وامان، بجلی اور گیس سے متعلق مسائل حل کئے جائے۔

افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدی تجارت کوقانونی شکل دینے سے پاکستانی معیشت کوفائدہ پہنچے گا۔سنی اتحادکونسل کے محمد احمد چٹھہ نے کہاکہ اندرونی قرضوں کی ادائیگی کاحجم 8 ٹریلین روپے ہے جبکہ بیرونی ادائیگیاں 1 ٹریلین روپے ہے، قرضوں کوری سٹرکچرکرنے کی ضرورت ہے، گزشتہ سال 9.2 ٹریلین روپے ٹیکس وصولی کی گئی جس میں 40 فیصداضافہ کردیا گیاہے، اس میں آمدنی بڑھانے کیلئے اقدامات نہیں ہے جس سے عوام پربوجھ بڑھے گا۔کتابوں، ادویات، طبی سازوسامان، دودھ،زرعی ادویات، ٹریکٹروں، فروٹ اینڈ ویجیٹیبل پرٹیکس عائد کرنے کی تجویزہے جس سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔برآمدکنندگان پر ٹیکس سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔رکن قومی اسمبلی مجاہد علی خان نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ پورے ملک کا ہے اس کا حل ڈیم کی تعمیر میں ہے۔1960 کی دہائی میں پاکستان میں ڈیم بنے، نئے ڈیم بنیں گے تو ہی یہ مسئلہ حل ہوگا۔میاں خان بگٹی نے کہا کہ سوئی پاکستان کا اہم علاقہ ہے جو 70 فیصد گیس فراہم کرتا ہے لیکن مقامی آبادی گیس سے محروم ہے۔یہ آئین میں ہے کہ مقامی لوگوں کو پہلے تیل وگیس دی جائے۔پی پی ایل کے سوئی میں تعینات کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیاجائے۔ہمارے علاقہ میں طویل لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ہے۔کچی کینال کو بارشوں سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کیاجائے تاکہ کینال بحال ہو