ہر فرد ایک عجب داستان ہے۔وہ کہانیاں جو کائنات میں گردش کرتی دکھائی دیتی ہیں وہ انسان کے وجود کے اندر بھی ہلچل مچائے ہوئے ہیں۔ کوئی کسی جیسا نہیں یہی تو اس کائنات کا سب سے بڑا معجزہ ہے کہ اربوں انسان مختلف اشکال رکھتے ہیں،انفرادیت سے ہی فرد ہے اور فرد کی انفرادی صلاحیتوں،دانش اور خیالات سے کائنات کی تمام گہماگہمی۔ہر دور کے سردار غالب نے کہاتھا
تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعہ خیال ابھی فرد فرد تھا
ہر فرد اپنی حیات کے نسخہ ہائے وفا کی تالیف کرتا ہے کوئی احساس کی سطح پر اور کوئی دانش و استدلال کی سطح پر۔ ڈاکٹر ساجد علی نے ادب ، مذہب اور تنقید پر مختلف مواقع پر لکھے اپنے مضامین کو فردفرد مجموعہ خیالکے عنوان سے کتابی شکل میں شائع کر کے اہلِ فکر ونظر کی سوچ پر دستک دی ہے۔ ظاہر و باطن میں ایستادہ عقیدت کے بتوں کے سامنے سر جھکائے ایک ڈگر پر چلتے ذہنوں کو آنکھ اٹھا کر ارد گرد پڑی حقیقتوں سے آشنائی کا مشورہ دے کر نئے زاویوں سے تلاش وجستجو کی راہ نکالی ہے۔ طلبِ علم رکھنے والوں کو مشاہدے، پرکھ ، استدلال اور موازنے کے ذریعے نتیجے تک پہنچنے اور رائے قائم کرنے کا گر سمجھایا ہے۔ اس کتاب کے انتساب میں چھپی بصیرت اور پیغام سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں اپنے والدین کے نام جنہوں نے مجھے رائے قائم کرنے کا حوصلہ بخشا۔ہمارے ہاں دلائل کی سطح پر رائے قائم کرنے کا رواج نہیں نہ بچوں کو یہ اجازت دی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے اکثریت دوسروں کے خیالات کے رحم وکرم پر رہتے ہوئے سطحی چیزوں ،اشخاص اور خیالات کے گرد گھومتے گزار دیتی ہے۔تاہم فرد فرد مجموعہ خیال کے یہ تمام مضامین قاری سے گہری سنجیدگی کے متمنی ہیں۔ آپ چلتے پھرتے ،ٹی وی دیکھتے یا موبائل سے چھیڑ خانی کرتے ہوئے انہیں پڑھیں گے تو آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا بلکہ تشنگی مزید بڑھے گی اور علمی بحث ناگوار لگنے لگے گی۔ لیکن اگر آپ اپنی پوری توجہ حرفوں کے تسلسل کے ساتھ باندھے رکھیں گے۔ ہر لمحہ حاضر دماغی کے ساتھ اس محفل میں حاضر رہیں گے تو مدعا سمجھنے کے ساتھ ساتھ دلائل کے واروں سے ایسے لطف اندوز ہوں گے کہ بحث کو مزید آگے بڑھانے اور خود کوئی رائے قائم کرنے کی سوچ ابھرتی محسوس کریں گے۔خیال و نظر کے اک ذرا بھٹکنے کی سزا میں تفہیم اور دلچسپی کا سلسلہ یوں منقطع ہو جائے گا کہ اگر دوبارہ آغاز سے مکالمہ نہ سنا جائے تو مضمون تفہیم کی حد سے باہر ہوتا جائے گا۔کتاب کو تین حصوں ، متفرق مضامین ،اقبالیات اور ادبی مضامین میں تقسیم کیا گیا ہے۔ہر حصے میں مختلف اور منفرد تحریریں شامل ہیں۔ محمد حسن عسکری کا تصور روایت و مابعدالطبعیات اور بنام سلیم احمد روایت و استدلال پر مبنی علمی اور فکری مضامین ہیں۔ ان میں مذہب ، فلسفہ اور تصوف بھی خوب زیرِبحث آئے ہیں۔اس کے علاوہ، عورت ،اسلام اور ملا، فلسفی کارل پوپر ، مسئلہ وجود، شاہ اسماعیل شہید کی کتاب پر تصریحات ، رومیلا تھاپر، اثبات و تغیر،اقبال وسیع مشرب یا فرقہ پرست،اقبال اور تصور پاکستان عمومی مغالطے،تشکیل جدید الہیات اسلامی ،ناصر کاظمی ،ظفر اقبال اور باصر کاظمی کی شاعری پر اظہار خیال سے لے کر جنت میں ٹی ہاوس کی میز تک ادبی گفتگو کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ہر مضمون میں ڈاکٹر ساجد علی کا عالمانہ رنگ پوری طرح منعکس ہے۔کسی رائے سے اختلاف یا اپنی رائے کی تائید میں زبانی کلامی جمع خرچ کی بجائے مذہب، تاریخ اور فلسفے کی اعلی کتب کے حوالہ جات سے اپنا نقطہ نظر واضح کیا گیا ہے ۔ اس لیے کسی بھی موقع پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صاحب مضمون نے کسی کی مخالفت یا تائید میں ذاتی دلچسپی یا پسند سے کام لیا ہے۔میں اگرچہ خود تصوف ،فلسفے اور ادب کی طالب علم ہوں اور کئی مضامین کے کچھ نکات پر مجھے بالکل اتفاق نہیں ہے لیکن ڈاکٹر ساجد علی نے بحث میں جس زاویہ نگاہ سے روشنی ڈالی ہیاسے رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔زبان و بیان پر ڈاکٹر صاحب کو ملکہ حاصل ہے، تحریر موتیوں کی لڑی کی طرح پروئی ہوئی نظر آتی ہے،بحث نکتہ نکتہ آگے بڑھتے ہوئے قاری کو اسیر کرتی ہے۔مجھے بنامِ سلیم احمد مضمون پڑھ کر اس لئے بھی شدید حیرت ہوئی کہ یہ مضمون 1983 میں لکھا گیا تھا۔ مجھے یقین ہے جو کوئی بھی یہ مضمون پڑھے گا نوجوان ساجد علی کا فکری استدلال اور انداز اسے بھی حیرت میں ڈال دے گا۔میں یہ ضرور تجویز کروں گی کہ ہمارے نوجوان اور ہمعصر ان مضامین کے مطالعے سے اپنی فکری بالیدگی اور تنقیدی رہنمائی کا سامان کرنے کی کوشش ضرور کریںتاکہ فکری اور تنقیدی میدان کو جوہڑ بننے سے بچایا جا سکے۔افسوس کا مقام ہے کہ آج کے علمی ادبی افق پر گردش کرتے زیادہ تر مضامین میں دلیل اور حوالہ مفقود ہو چکا ہے۔ تعلق اور مفاد کے گرد گھومتی نام نہادتنقیدی اور تحقیقی تحریروں نے سطحیت کو فروغ دینے کی دوڑ شروع کر رکھی ہے۔ ہر بات سے اتفاق کی روش نے فکر کا کینوس محدود کر دیا ہے۔ اختلاف کیلئے حسد کی ضرورت نہیں ہوتی مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کے دامن میں دلائل کا انبار لگا دے اور آپ مسئلے کا مختلف پہلووں سے جائزہ لے کر رائے قائم کرنے کا حوصلہ کرسکیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ