امریکی کانگریس اراکین کا خط … تحریر : مزمل سہروردی


امریکی کانگریس اراکین کا بانی پی ٹی آئی کی حمایت میں ایک اور خط امریکی اراکین کانگریس نے تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کی حمایت میں ایک اور خط لکھا ہے، یہ خط امریکی صدر جوبائیڈن کو لکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی کانگریس ارکان کی جانب سے صدر جوبائیڈن کو ہی خط لکھا گیا ہے۔

امریکی کانگریس میں اسی قسم کی ایک قرارداد بھی منظور ہو چکی ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو نہ تو امریکی کانگریس میں قرارداد اور نہ پہلے خط کے بعد ریاست پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی۔ معاملات جیسے پہلے تھے ویسے ہی رہے۔ اب دوسرے خط کے بعد کیا ہوگا؟ میری رائے میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ایسے خطوط کا ریاستیں کوئی دباؤ نہیں لیتیں۔ ویسے بھی یہ امریکا میں انتقال اقتدار کا وقت ہے۔ ایک حکومت جا رہی ہے دوسری آرہی ہے، اس لیے خطوط کی ٹائمنگ غلط ہے۔

یہ درست ہے کہ 24 نومبر کو دی جانے والی احتجاجی کال سے قبل ایک بار پھر امریکی کانگریس کے 46 اراکین کا خط ، ایک اسکرپٹ کا حصہ لگ رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف نے 24نومبر کی کال میں تصادم کی پلاننگ کی ہے۔ وہ ریاست اور حکومت کے ساتھ تصادم چاہتے ہیں اور یہ خط اس تصادم سے پہلے وہاں امریکا میں ایک ماحول بنانے کے لیے لکھوایا گیا ہے تا کہ تصادم کے بعد کہا جائے کہ پہلے خط بھی لکھا گیا تھا لیکن اب ایکشن لیا جائے۔ ورنہ اس بے وقت خط کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ خط پر کوئی ایکشن نہیں ہونا۔

خطوط کے تناظر میں سیاسی تجزیہ کار واضح طور پر کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور اس کی جماعت کے صیہونی لابی کے ساتھ گہرے روابط ہیں اور وہ بانی پی ٹی آئی کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے مہرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

یہاں سوال یہ بھی ہے کہ یہ امریکی کانگریس مین بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ناروا سلوک کا پروپیگنڈا تو کرتے ہیں مگر اسرائیل کے فلسطین اور بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر ان کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ امریکی کانگریس کے ارکان نے کبھی غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے لیے خط نہیں لکھا، کبھی لبنان میں حزب اللہ پر بے وجہ بمباری پر خط نہیں لکھا، کبھی مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کے لیے خط نہیں لکھا پھر صرف تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کے لیے خطوط کسی اور ایجنڈا کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

دوسری جانب سفارتی تجزیہ کاروں کا اس نئے خط کے حوالے سے کہنا ہے کہ امریکی کانگریس کے اراکین کا بار بار صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کردار ادا کرنے کا کہنا کسی بھی خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے اور یہ سفارتی اصولوں کے خلاف ہے۔ سفارتی تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی اعلی عدالتیں آزاد ہیں آئین پاکستان کے مطابق فیصلے کر رہی ہیں لہذا کسی بھی ملک کا دبا کے پیش نظر کسی بھی ایسے قیدی کو رہا کرنا ممکن نہیں ہے جو کرپشن دہشت گردی اور عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے جیسے مقدمات میں ملوث ہو۔

ریاست پاکستان کا موقف یہی ہوگا کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے متعلق مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ان کا فیصلہ اعلی عدالتوں نے کرنا ہے۔ سیاسی جماعت کا بار بار لابیز کا استعمال کر کے غیر ملکی قوتوں کو مدد کے لیے بلانا ریاست پاکستان کی خود مختاری پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے جس کا عدالتوں کو سختی سے نوٹس لینا چاہیے ۔

حکومت اور ریاست پاکستان کا موقف ہے کہ بیرون ملک فرار کچھ پی ٹی آئی کے ارکان غیر ملکی لابیز اور سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان مخالف سرگرمیوں اور ریاست اور ریاستی اداروں کے مخالف پروپیگنڈے میں مصروف عمل ہیں اس منظم غیر ملکی لابنگ سے قبل بھی بعض عالمی ذرایع ابلاغ اور نشریاتی ادارے بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت کی لابنگ میں پیش پیش نظر آئے ہیں اور شاید آگے بھی نظر آئیں ۔ ان کی سرگرمیاں کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں۔

امریکی اراکین کانگریس کی جانب سے یہ دوسرا خط لکھا گیا ہے اس میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان تمام اراکین کانگریس نے پاکستان میں متعین امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے کردار پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ ڈونلڈ بلوم پاکستان میں گرفتار سیاسی قیدیوں اور پاکستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس حوالے سے امریکا کی پالیسی کو انھوں نے نظر انداز کیا ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی سفیر امریکی ارکان کانگریس کے نہیں امریکی حکومت کے پابند ہیں۔ وہ امریکی حکومت کی پالیسی کو مانتے ہیں۔ اس لیے وہ ایسے خطوط کے تابع نہیں ہیں۔ سفارتی تجزیہ کار اس حوالے سے کہتے ہیں کہ امریکی کانگریس کے اراکین کی جانب سے ڈونلڈ بلوم پر الزام تراشی بے معنی ہیں، ڈونلڈ بلوم نے اپنے دور میں پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا مطلب اس ملک سے تعلقات خراب کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اراکین کانگریس کی جانب سے یہ دوسرا خط بھی پہلے خط کی طرح کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔ مذکورہ بالا خط حقائق کے منافی اور یک طرفہ کہانی کو بیان کرتا ہے۔ اس خط کا مقصد پاکستان کے نظام انصاف پر دباؤ ڈالنا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار پی ٹی آئی کی جانب سے بار بار امریکی کانگریس مین سے مدد کے لیے خط لکھوانے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس خط اور غیر ملکی لابنگ نے بانی پی ٹی آئی کے نظریہ ”ہم کوئی غلام ہیں” کو عملا دفن کر دیا ہے۔

بہر حال یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس وقت پاک امریکا تعلقات ایسے نہیں جہاں امریکی دباؤ ہمارے لیے کوئی مشکل لا سکے۔ پاکستان اس وقت امریکا کے لیے ایک غیر اہم ملک ہے۔ کوئی مشترکہ جنگ نہیں، کوئی مشترکہ ایجنڈا نہیں ہے، اسی لیے پوری امریکی صدارتی مہم میں پاکستان کو کوئی ذکر نہیں ہے۔

اب توامریکی ڈو مور کے مطالبے بھی ختم ہو گئے ہیں۔ پاکستان اس وقت امریکا کے ترجیحی ممالک میں شامل نہیں۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ امریکا تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کے لیے پاکستان پر کوئی غیر ضروری دباؤ ڈالے گا نہ کوئی انتہائی قدم ہی اٹھائے گا۔ اس لیے مجھے تو خطوط اور لابنگ ضایع ہوتے ہی نظر آرہے ہیں جیسے اب تک ضایع ہوئے ہیں۔ پہلے بھی ساری کاوشیں ضایع ہی ہوئی ہیں۔ برطانیہ میں یونیورسٹی کا اعزازی چانسلر بننے کی کاوش ضایع ہو چکی ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ایسے خطوط ملک کے اندر تحریک انصاف کے لیے تلخی اور مسائل تو پیدا کر رہے ہیں لیکن کوئی آسانی پیدا نہیں کر رہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس