اسٹینلے والپرٹ کی کتاب جناح آف پاکستان کا آغاز معدودے چند رہنما ہی جنہوں نے تاریخ کا دہانہ بدلا، کہیں کم جنہوں نے دنیا کا نقشہ تبدیل کیا، ایک بھی نہیں جس نے قوم بنائی ہو جبکہ اکلوتا جناح جس نے تینوں کام کر ڈالے۔ مزید، 1903 میں کانگریس پارٹی جوائن کی تو دادا بھائی، فیروز شاہ گھوکھلے اور تلک کی موجودگی میں پلک جھپکتے فرنٹ لائن لیڈر بن گیا۔ غیر معمولی شخص نے مایوس کانگریس کو یقین دلایا کہ آزادی کا خواب سچ ثابت ہو گا ۔
وطنِ عزیز گھمبیر بحران کی لپیٹ میں جب بھی، جہاںدین بیزار قائد اعظم بارے ہرزہ سرائی میں ملوث، وہاں دین دار انوکھی کج بحثی شروع کر دیتے ہیں۔
شذرہ:حضرات! ضروری اعلان، غیر اہم امین گنڈا پور کے بطور وزیر اعلی بیانات نظر انداز کرنا مجرمانہ فعل ہو گا۔ مشتری ہوشیار باش! بلاشبہ گنڈا پور بیک وقت اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان دونوں کے زیر استعمال ہیں۔ ایسے بیانات میں زیادہ روانی ہے جو دونوں کے وارے میں ہوں۔ بلاشبہ عمران خان ریاست میں مارشل لا کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہی خواہش ہے؟ امین گنڈاپور کے بیانات تو ایسے ہی عزائم آشکار کر رہے ہیں۔ بیانات نے مجھے لرزہ براندام کر رکھا ہے۔ جاگتے رہنا، کڑا وقت آیا چاہتا ہے۔
جب بھی مملکت جاں بلب، گندے کرتوت ہمارے اپنے، قائداعظم زیر بحث، مولانا ابوالکلام آزاد کی پیش گوئیاں مارکیٹ میں آ جاتی ہیں۔ ہندوستانی علما کا غصہ سمجھ میں کہ انکی موجودگی میں مسلمانوں کے مرجع خلائق عظیم قائد بن چکے تھے۔ معاصرانہ چشمک علمائے دیوبند کا خاصا رہی جبکہ مولانا آزاد شایدحسد کا شکار تھے۔ اپنی کتاب ” INDIA WINS FREEDOM ” میں رقم طراز، گاندھی نے 1944میں جناح کے مطالبات تسلیم کر کے 1921سے سیاسی معزول غیر اہم لیڈرکو بحال کر ڈالا۔ مولانا کی پرخاش ہی، 1944 میں عظیم قائد کو غیر اہم قرار دے رہے ہیں۔
قائداعظم کی سیاست کے تین ادوار، 1903 تا 1921 ، 1921 تا 1934 ، 1934 تا 1948 ۔ تیسرے دور کا ذکر پہلے، الیکشن 1936/37 میں مسلم لیگ بری طرح شکست کھا گئی، کانگریس چھا گئی۔ 1937/38میں قائداعظم نے گاندھی کو کئی خطوط ارسال کئے کہ حصول آزادی کیلئے مشترکہ جدوجہد کا لائحہ عمل بنائیں۔ جناح کے خطوط پر گاندھی کا متکبرانہ مشورہ کہ آپ ابوالکلام آزاد سے معاملہ طے کریں۔ پہیہ الٹا گھومتا ہے، 6 مئی1944 کو گاندھی جیل سے جب رہا ہوا تو قائد اعظم کی مقبولیت ساتویں آسمان پر تھی۔ جیل سے نکلتے ہی قائداعظم کو خط لکھا کہ میں نے قید میں آپ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ رہائی کے بعد فورا اسکی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔ جب اور جہاں آپ ملنا پسند فرمائیں گے میں وہاں آ جاوں گا۔ قائداعظم بوجوہ بیماری چند ماہ سے سرینگر کشمیر میں مقیم تھے۔ فورا جواب دیا کہ جیسے ہی بمبئی واپس آوں گا آپکو مدعو کرنے پر مجھے خوشی ہو گی۔ قائداعظم بمبئی پہنچے تو 9ستمبر کو گاندھی سے ملاقات طے ہو گئی۔ اگلے 3ہفتوں میں کئی ملاقاتیں اور خطوط کے تبادلے ہوئے۔ 24 ستمبر کے خط میں گاندھی جی نے تقسیم ہند اور دوخود مختار ریاستوں کے قیام پر 4 نکاتی تجاویز دیں۔
(1) شمال مغربی علاقہ ،NWFP ، بلوچستان، سندھ، پنجاب کے مسلم اکثریتی اضلاع اور بنگال و آسام کو انڈیا سے علیحدہ کر دیا جائیگا ۔ (2) کانگریس اور لیگ کا مشترکہ کمیشن جغرافیائی حدود کا تعین کرے گا۔ (3) دو ریاستوں کا قیام انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے فورا بعد ہو گا۔ (4) علیحدگی کی دستاویز پر دستخط کرتے وقت خارجہ، دفاع، مواصلات، کسٹم، تجارت، اقتصادیات پر مشترکہ لائحہ عمل بنایا جائے گا۔ قائد اعظم نے گاندھی کی تجویز 3کو مسترد کر دیا۔2خودمختار ریاستوں کا قیام ہرصورت آزادی سے پہلے ہو گا۔ کیبنٹ مشن مارچ 1946 میں جب انڈیا پہنچا تو قائداعظم نے من وعن انکا پلان قبول کر لیا۔ پلان بھی کم و بیش گاندھی تجاویز سے ملتا جلتا تھا۔ دو باتیں مستحکم، گاندھی اور انگریز بھانپ چکے تھے کہ تقسیم ہند کے بغیر چارہ نہیں مگر کاٹ چھانٹ اپنی مرضی کی۔ قائداعظم انتہائی پرامن اور دوستانہ ماحول میں دو ریاستی فارمولا پہلے نافذ کرنا چاہتے تھے۔
1903 میں عظیم لیڈر نے اپنی سیاست کا آغاز کانگریس کے پلیٹ فارم سے کیا۔ کانگریس قیادت عظیم لیڈر دادا بھائی کے پاس جبکہ فیروز شاہ اور گھوکھلے جیسے جہاندیدہ لیڈر صف اول میں شامل تھے ۔ سب کی سوچ ہندو مسلم یونٹی سے جڑی تھی۔ یہی وجہ کہ قائد اعظم آنا فانا صفِ اول کے لیڈر بن گئے۔ مسلم یونٹی کو کانگریس کا آئین اول بنایا۔
1913 میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور مسلم لیگ اور کانگریس کوایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ 1916میں مسلمانوں کے حقوق پر 14نکاتی تجاویز پر دونوں پارٹیوں سے لکھنو پیکٹ سائن کرایا۔ لکھنو پیکٹ تا کیبنٹ مشن پلان تک کا سفر، مجال ہے مسلمانوں کے حقوق سے کہیں انحراف نظر آئے۔ ہندوستان میں بٹوارے کا بیج تب ہی بودیا گیا تھا جب 1905 میں لارڈ کرزن نے مذہب کی بنیاد پر بنگال کے2 حصے، صوبہ مغربی بنگال اور صوبہ مشرقی بنگال و آسام بنا ڈالا۔ بنیادی طور پر انگریز نے تقسیم بنگال بطور ہتھکنڈہ ہندو مسلم کشیدگی بڑھانے کیلئے ہی تو کی۔ قائداعظم یکسوئی سے مذہبی جذبات بھڑکائے بغیر مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہتے تھے۔ 9جنوری 1915کو جب گاندھی ساوتھ افریقہ سے واپس بمبئی ہندوستان پہنچے تو استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ محمد علی جناح ہی تھے۔ باوجود یکہ 1909میں سوراج کتاب لکھ چکے تھے جس میں مذہب کا پرچار کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ پہلے دن سے مذہبی ٹچ کو سیاست کا حصہ بنایا، کانگریس پر ہندو چھاپ لگائی جبکہ قائد ایسی سیاست کو انڈیا کیلئے زہر قاتل سمجھتے تھے۔
گاندھی کی تحریک ( SATYA GARAH) پر جناح نے 1920میں کانگریس چھوڑ دی کہ ملک میں انارکی کا خدشہ تھا۔ عظیم قائد کی سیاسی فکر، سوچ، طریقہ کار اور لائحہ عمل میں کہیں دوغلا پن نہیں تھا۔ جناح کی 45سالہ سیاسی زندگی منافقت، دھوکہ، لالچ و تشہیر سے پاک دیانت، صداقت، اصول پرستی، صراحت، یکسوئی، یقین، ایمان کا مجسم نمونہ تھی۔ ساری زندگی اپنی کسی بات کی وضاحت کی نہ تردید دی۔ سیاست میں کبھی معذرت خواہانہ رویہ نہ اپنایا۔ زندگی میں ایک ہی موقف اپنایا اور بالآخر اسے ہی پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
سطحی دانشور ، افراتفری کا فائدہ اٹھا کر جو تاریخ مرتب کر رہے، قائداعظم کی شخصیت مسخ کر رہے ہیں، ایسا لکھا ردی کی ٹوکری کا حصہ بنناہے۔ بلاشبہ 20ویں صدی نے کئی غیر معمولی نامور سیاستدان دیئے، لینن، اتاترک، ہیل سلاسی، چرچل، ڈیگال، گاندھی، نہرو تانیلسن منڈیلا وغیرہ سب آل ٹائم گریٹ سیاستدان تھے۔ دیانتداری سے موازنہ کرتا ہوں تو قائداعظم سب سے بلند، اسٹینلے والپرٹ کا اعترافی بیان بھی یہی ہے۔ تقسیم ہند کا المیہ کہ کشت وخون ہوا اور پہلے دن سے ہی ایک دشمن گھات میں ملا۔ اس میں قائد اعظم بری الذمہ ہیں۔ پاکستان کو 75 سال سے جس طرح ہم نے باجماعت مضروب رکھا، کیا ہمارے سیاہ کرتوتوں کے ذمہ دار قائد اعظم ہیں؟ جو بیج 73سال سے جانفشانی سے بار بار بیجے، تیار فصل ہی تو بار بار کاٹ رہے ہیں۔ اے عظیم قائد ہم شرمندہ ہیں! یہ بے نور، جرائم پیشہ لوگ آپ جیسے قائد کے ہرگز لائق نہیں تھے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ