اپنے دعوے اور لوگوں کے چہرے دیکھیے … تحریر : الطاف حسن قریشی


قارئین کرام! آپ کو عید کی لاکھوں مبارک باد۔

ہم آپ کو لاکھوں مبارک باد اِس لیے پیش کر رہے ہیں کیونکہ تاریخی شعور سے بے بہرہ ہمارے کچھ دوست پاکستان کو ایک بڑی قربان گاہ میں تبدیل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ ارضِ پاک جو قائدِاعظم کی زیرِقیادت برِصغیر کے مسلمانوں کی بیمثال جدوجہد سے آزاد ہوئی تھی، وہ اللہ تعالی کی ایک بیش بہا نعمت ہے جس پر ہمیں ہر وقت اپنے رب کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ یہ زرخیز خِطہ جس کا جغرافیہ بھی منفرد ہے اور تاریخ بھی بیمثال عظمتوں کی امین ہے، بدقسمتی سے اقتدار اور دولت کے پجاریوں نے اِسے تضادستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان کی خرمستیوں اور عاقبت نااندیشیوں سے پاکستان کی ایسی حالت بن چکی ہے کہ ہمارے بعض بلند ہمت دانش ور بھی اِس کے مستقبل سے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ اِسی دوران ہماری سیاسی ابتری اور معاشی بحران بھی گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور عام آدمی کو سلامتی کا راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ حددرجہ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ صورتِ حال روز بروز سنگین ہوتی جا رہی ہے۔

اِس گھٹاٹوپ اندھیرے میں امید کی کرن بھی طلوع ہو رہی ہے۔ غیرمعمولی بگاڑ کے باوجود گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے سیاسی اور عسکری قیادتیں پاکستان کو معاشی گرداب سے نکالنے کیلئے پوری تن دہی سے سرگرم ہیں۔ انہوں نے تجربہ کار ماہرین کے مشورے سے ایک سرمایہ کاری سہولت کونسل قائم کی ہے جس نے حالات میں اچھا خاصا فرق ڈالا ہے۔ ان کی شبانہ روز رِیاضت سے ایسے منصوبے تیار کیے جا چکے ہیں جو بیرونی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ پاکستان جو دراصل سونے کی چڑیا ہے، اِس کی طرف اب بڑے بڑے ممالک متوجہ ہو رہے ہیں۔ اِس حقیقت کا اعتراف کیا جانا چاہیے کہ ہمارے آرمی چیف کی مسلسل کاوشوں سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے معاہدوں پر دستخط کر چکے ہیں۔ اِسی طرح وزیرِاعظم پاکستان جناب شہباز شریف بھی چین کے دورے سے بڑی امیدیں سمیٹ کر لائے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اگر ہم اپنا گھر درست کرنے اور دوستوں کے اعتماد کو مہمیز لگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو مایوسی کے اندھیرے بھی چھٹ جائیں گے اور اللہ تعالی کی رحمتوں کا نزول ایک روح پرور منظر قائم کر دے گا۔

ہمارے آج کے حکمران بڑے بڑے دعوے کرتے ہوئے خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ ان کی طرف سے اِس عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ڈیڑھ ماہ کے اندر معیشت کو بہت فروغ حاصل ہو گا اور غیرضروری اخراجات پر قابو پا لیا جائے گا۔ شدید حبس میں ان کی یہ باتیں تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتی ہیں، مگر یہ گمان بھی گزرتا ہے کہ جوشِ عمل ضرورت سے کچھ زیادہ ہے اور عمدہ حکمتِ عملی کا عنصر قدرے کم ہے۔ پھر یہ امر بھی غورطلب ہے کہ قوم کو یہ مژدہ سنایا جا رہا ہے کہ مہنگائی ایک سال میں 36 فی صد سے 12 فی صد پر آ گئی ہے، مگر عوام کے چہرے دمکنے کے بجائے بجھے ہوئے ہیں، اگر ان کا بار اِس قدر کم ہو گیا ہے، تو ان کے چہروں پہ رونق ہونی چاہیے تھی۔ یوں لگتا ہے کہ دو قدم آگے اور چار قدم پیچھے کا سلسلہ پہلے کی طرح آج بھی جاری ہے اور بجلی کے بِل بجلی بن کر گر رہے ہیں۔ ہماری تاریخ میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ مقاصد بہت اچھے تھے، مگر جب اصلاحات نافذ ہوئیں، تو ہولناک نتائج برآمد ہوئے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ہماری قومی زندگی میں سب سے بڑا اِصلاحاتی آپریشن مسٹر بھٹو نے کیا تھا۔ ان کی لمبی چوڑی عوامی تقریروں سے یہ تاثر ملتا تھا کہ وہ غریبوں، محنت کشوں اور پسے ہوئے طبقوں کی تقدیر بدل کے رکھ دیں گے۔ ان کی اِسی سحرکاری سے ایک بڑا طبقہ ان کی شخصیت سے متاثر ہوا تھا۔ انہوں نے اختیارات پر پوری طرح قابض ہونے کے بعد بڑے اور چھوٹے کارخانے، کاروبار، بینک اور اِنشورنس کمپنیاں قومی تحویل میں لے کر انہیں بیوروکریسی کے حوالے کر دیا جسے صنعتیں اور کاروبار چلانے کا سرے سے کوئی تجربہ نہیں تھا، چنانچہ پاکستان کی پھلتی پھولتی معیشت بری طرح بیٹھ گئی۔

قارئین کرام! اِس حادثے پر تقریبا نصف صدی گزر چکی ہے، مگر اِس کے بعد ہماری معیشت سنبھل ہی نہیں سکی۔ ہمیں بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ہے۔ اِس کا بڑا سبب مسٹر بھٹو کی حکمت سے عاری معاشی اور اِنتظامی اصلاحات تھیں۔ ہم ان کا حوالہ اِس لیے دے رہے ہیں کہ معاشرے کو غربت اور اِفلاس سے آزاد کرانے والے آج کے حکمران ان سے سبق سیکھیں اور اپنے اچھے عزائم کے حصول کا ایک حقیقت پسندانہ منصوبہ تیار کریں۔ حال ہی میں حکومتِ پنجاب نے اصلاحِ احوال کا ایک تجربہ کیا ہے جس سے ایک نئی شورش زور پکڑتی جا رہی ہے۔ بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہمارے ہاں آئے دن شہریوں، سرکاری عہدیداروں اور حساس اور باوقار اِداروں کی عزت خاک میں ملائی جاتی ہے، اِس کی روک تھام کی جائے۔ ہم نے بھی اِس خیال کی تائید کی تھی اور مہذب ملکوں کا حوالہ دیا تھا جہاں قانون اور ضابطے اِس قدر سخت ہیں کہ ہر شخص ہتکِ عزت کا ارتکاب کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ حکومتِ پنجاب نے ایک ایسا قانون اسمبلی سے منظور کرا لیا ہے کہ مقدمہ درج ہوتے ہی مدعا علیہ پر تیس لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ اِس قانون کے خلاف پوری صحافتی برادری سراپا احتجاج ہے اور معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں چلا گیا ہے جس نے تین شقوں کے حوالے سے نوٹس بھی جاری کر دیے ہیں۔

ہم اربابِ اختیار کو یہ مشورہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اصلاحات کے نفاذ میں غیرمعمولی احتیاط، توازن اور تدریج کا پورا پورا خیال رکھا جائے۔ جناب وزیرِاعظم یہ فرما رہے ہیں کہ ڈیڑھ ماہ کے اندر تمام غیرضروری وزارتیں اور کرپشن میں لدے پھندے محکمے ختم کر دیے جائیں گے۔ یہ خیال تو اچھا ہے، مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کہیں بے قابو جوشِ عمل پورے حکومتی ڈھانچے ہی کو تلپٹ نہ کر ڈالے اور بیروزگاری کا ایک طوفان امڈ آئے۔ اِس لیے ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا اور ہر لحظہ میانہ روی سے کام لینا ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ