الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے حوالہ سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردینے کی استدعا مسترد ، 5رکنی لارجر بینچ کی تشکیل کے لئے ججز کمیٹی کوبھجوادیا گیا

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن تنازعات سننے کے لئے صوبہ پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کے ججز کی تعیناتی کا معاملے پر 5رکنی لارجر بینچ کی تشکیل کے لئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کے تحت قائم سپریم کورٹ کے3ججز پر مشتمل کمیٹی کوبھجوادیا۔عدالت نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے حوالہ سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قراردینے کی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل کی استدعا مسترد کردی جبکہ عدالت نے ریٹائرڈ ججر کی بطور الیکشن ٹربیونل تقرری کوکالعدم قراردینے کی مدعاعلیہ نمبر1سلمان اکرم راجہ کی استدعا بھی مستردکردی۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قراردیا ہے دوججز بیرون ملک ہیںاور توقع ہے کہ کمیٹی کااجلاس آئندہ ہفتے ہو گا، عدالت جلد ازجلد بینچ کی تشکیل کے بعد کیس کی سماعت کرے گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فارم 45والی بات الیکشن ٹربیونل میں ہو گی ہم کیس کو میرٹ پر نہیں دیکھیں گے، ہوسکتا ہے کل کوہمارے پاس اپیلیں آجائیں۔

صدارتی آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کی توہین ہے، آرڈیننس ہی لانا ہے تو ایوان کوبند کردیں۔پارلیمان نے ایک طریقہ بنادیا بیچ میں آرڈیننس کدھر سے آگیا، پھر پارلیمنٹ کو بند کردیں، کس نے آرڈیننس بنایا اُس کو کیا ضرورت تھی، یہ پارلیمان کسی خوف وخطرے کے بغیر تھی جس نے 2017کا الیکشنز ایکٹ بنایا تھا،اگر پارلیمنٹ نے طریقہ کار بنادیاتواس حوالے سے آرڈیننس جاری نہیں کرسکتے، یہ پارلیمان کی توہین ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن مل کر معاملہ حل کرسکتے ہیں۔  میں آخری شخص ہوں گا جواُس آئینی شق کی تشریح کرے جس کی تشریح درکار نہیں۔کیا ہم ایک امیدوار کے لئے آئین کودوبارہ لکھیں۔  جب بھی پاکستان میں الیکشن ہوا ہے شاید ہی کبھی تنازعہ نہ ہوا ہو، جبکہ بھارت میں دھاندلی کے الزامات نہیں لگتے جیسے یہاں ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اپنی مرضی کا جج نہیں ملے گا، الیکشن کمیشن نے بھی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے ملنے کی زحمت نہیں کی۔ ہم نے آئین اور قانون کے تحفظ کاحلف اٹھایا ہے نہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا۔ ادارے ایک دوسرے کوعزت دیں۔مدعا علیہ کیوں چاہتے ہیں کہ ان کا کیس کوئی مخصوص جج سنے۔سپریم کورٹ میںصوبہ پنجاب میں الیکشن تنازعات سننے کے حوالہ سے 8 الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل پر سماعت ہوئی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواستیں چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

درخواستوں میں سلمان اکرم راجہ، رائو عمر ہاشم خان اوردیگر کوفریق بنایا گیا تھا۔سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی رہنما نیاز اللہ خان نیازی نے پیش ہوکرکہا کہ انہوں نے راوالپنڈی ڈویژن سے انتخابات میں حصہ لینے والے 9امیدواروں کی جانب سے کیس میں فریق بننے کی درخواست دی ہے۔اس پر چیف جسٹس کا نیازاللہ نیازی کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر مدعا علیحان کو نوٹس ہواتو پھر آپ کو سنیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کس حوالہ سے ہے۔ اس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل  دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل219-Cکی تشریح کامعاملہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تنازعہ کیا ہے، فیکٹس بتادیں۔ سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ الیکشنز ایکٹ2017کے سیکشن 140کے تحت الیکشن کمیشن نے رجسٹرارلاہور ہائی کورٹ سے الیکشن ٹربیونل کے ججز کی تعیناتی کے لئے لسٹ مانگی تھی۔ سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ 14فروری 2024کو الیکشن ٹربیونلز میں ججز کی تعیناتی کے لئے تمام ہائی کورٹس کے رجسٹرارز کو خط لکھا کہ ججز کا پینل فراہم کیا جائے تاکہ انہیں پرنسپل سیٹ اوردیگر رجسٹریوں میں انہیں بطور الیکشن ٹربیونل جج تعینات کیا جائے۔ سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، 1977سے الیکشن کمیشن ہی الیکشن ٹربیونلز قائم کرتا آ رہا ہے، لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے 20 فروری کو 2 ججز کے نام دئیے گئے، دونوں ججز کو الیکشن ٹریبونلز کیلئے نوٹیفائی کردیا گیا، جسٹس سردار محمد سرفرازڈوگر کو بہاولپور اور ملتان کے الیکشن ٹربیونل کا جج تعینات کیا گیا جبکہ جسٹس سلطان تنویراحمد کو پرنسپل سیٹ پر لاہور میں الیکشن ٹربیونل کا جج تعینات کیا گیا، 26 اپریل کو مزید دو ججز کی بطور الیکشن ٹریبونلز تشکیل دیئے گئے، 4 ٹربیونلز کی تشکیل تک کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔دوران سماعت ہائیکورٹ کیلئے قابل احترام کہنے پر چیف جسٹس نے سکندر بشیر مہمند کو روکتے ہوئے کہا کہ آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟اس پر سکندر بشیر مہمندکاکہناتھاکہ کنگز کالج انگلینڈ سے قانون میں ماسٹرز ڈگری حاصل کررکھی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معزز جج ہوسکتا ہے عدالت نہیں، کیا انگلستان میں پارلیمان کو قابل احترام کہا جاتا ہے ؟ یہاں پارلیمنٹرین ایک دوسرے کو معزز نہیں کہتے بلکہ ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں،اپنے لئے بھی قابل احترام لکھ دیں کہ معزز الیکشن کمیشن آف پاکستان۔

سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ چار ججز پر الیکشن کمیشن نے اتفاق کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ہائی کورٹ ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرسکتے تھے، ایک میٹنگ میں بیٹھ کر سب طے کیا جاسکتا ہے، کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازعہ بنانا لازم ہے ؟ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازعہ تھا،ہم نے چیف الیکشن کمشنر اور صدر مملکت کی ملاقات کروائی،الیکشن ہوگئے، آپ لوگ تونہیں کرواسکے تھے، رجسٹرار کون ہوتا ہے بات کرنے والا، کیا آئین میںبات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے تنازعہ نہیں ہوا، لاہور ہائیکورٹ کے علاوہ کہیں تنازعہ نہیں ہوا، بلوچستان ہائیکورٹ میں تو ٹربیونلز کی کارروائی مکمل ہونے کو ہے، میں جب چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تھا ہم نے واضح کہہ دیا تھا ٹربیونلز کے قیام کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ سلمان اکرم راجہ لاہور ہائی کورٹ میں کیسے درخواست گزار بن سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انا کی بات ہے، کیا بات ہے، میں انے اپنے اختیارات ختم کردیئے، دوسرے لوگ بھی ایک دوسرے سے بات کرلیں، آئینی ادارے ہیں کوئی دشمن تونہیں۔

چیف جسٹس کا کہناتھا کہ دوآئینی اداروں کے درمیان معاملہ عدالت میں کیسے پہنچا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا الیکشن کمیشن کو اپنی مرضی کا جج نہیں ملے گا، الیکشن کمیشن نے بھی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے ملنے کی زحمت نہیں کی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اپنا ملک ہے چیزوں کوآگے بڑھائیں، خط کیوں لکھیں گے ،چیف الیکشن کمشنر ملنے جائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ باقی صوبوں سے بھی سیکھ لیں۔ سکندر بشیر مہمند کا کہناتھا کہ آئین کے آرٹیکل 219-Cاورالیکشنز ایکٹس 2017کی دفعات 140-3اور151کے تحت الیکشن ٹربیونلز قائم ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا یہ سب ہائی کورٹ کے جج ہیں۔ اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے ہاں میں جواب دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب بھی پاکستان میں الیکشن ہوا ہے شاید ہی کبھی تنازعہ نہ ہوا ہو، جبکہ بھارت میں دھاندلی کے الزامات نہیں لگتے جیسے یہاں ہوتا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات رکوادیئے تھے ،اُس وقت میں باہر جارہا تھا، ایک درخواست آئی میں پارٹی کانام نہیںلینا چاہتا۔ سکندر بشیر مہمندکا کہناتھا کہ 9مئی 2024کو رٹ پیٹیشن دائر ہوئی۔

اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رٹ پیٹیشنز دائر ہوتی رہتی ہیں، آپ اپنا کام کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا یہ عوامی مفاد کامعاملہ ہے یا ذاتی شکایت ہے۔ چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ یہ عوامی مفا کامعاملہ نہیں ہے، اگر آپ کی درخواست زیرالتوا ہے توپھر یہ ذاتی مفاد کا معاملہ نہیں، آپ کو اپنے مخالف کو پارٹی بنانا چاہیئے تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر دوآئینی اداروں میں اختلاف ہے ، ایک کوپارٹی بنایا اوردوسرے کو پارٹی نہیں بنایا۔ چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجہ کومخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ ہم نے سوال پوچھا ہے اس کا جواب دیں، ہم دلائل نہیں سنیں گے۔چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ یہ ذاتی مفاد ہے عوامی نہیں ، اگردواروں میں لڑائی تصور کرلیں تواس میں آپ کا کیا لینا دینا ہے، جس وقت آپ نے درخواست دائر کی آپ کو کیسے پتا چلا کہ الیکشن کمیشن اورہائی کورٹ کے درمیان خط وکتابت چل رہی ہے،کیا آپ کو ہائی کورٹ نے خط دیا۔سلمان اکرم راجہ کاکہناتھاکہ 180الیکشن کے حوالہ درخواستیں ہیں، دو ججزکیسے فیصلے کریں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر وکیل ججز کے نام لینا شروع کرتے ہیں تویہ عدلیہ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے، یا توان ججز کو پارٹی بنائیں۔ چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ کی جانب سے ہینڈپکڈ کا لفظ استعمال کرنے پر ان کی سرزنش کرے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو بعض ججز پر اعتماد نہیں، ہنڈپکڈ کیا مطلب ہوا۔سکندر بشیر مہمندکا کہناتھا کہ 27مئی کو صدارتی آرڈیننس کے قانون میںترمیم ہوئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کیسے کرتے ہیں، یہ پارلیمنٹ کی منشاء ہے، یہ کس کی مرضی ہے، آرڈیننس کی کیا وقعت ہے۔

چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہائی کورٹ فیصلے کو چیلنج کریں، آرڈیننس ہائی کورٹ کے فیصلے کی نفی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمان نے ایک طریقہ بنادیا بیچ میں آرڈیننس کدھر سے آگیا، پھر پارلیمنٹ کو بند کردیں، کس نے آرڈیننس بنایا اُس کو کیا ضرورت تھی، یہ پارلیمان کسی خوف وخطرے کے بغیر تھی جس نے 2017کا الیکشنز ایکٹ بنایا تھا،اگر پارلیمنٹ نے طریقہ کار بنادیاتواس حوالے سے آرڈیننس جاری نہیں کرسکتے، یہ پارلیمان کی توہین ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ بھی الیکشن میں مداخلت ہے ، اس حوالہ سے الیکشن کا کیا نقطہ نظر ہے، کیا پوزیشن ہے آرڈیننس ٹھیک ہے یاغلط؟ اس پر سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ یہ قانونی ہے کیونکہ آئین ایسا کہتا ہے، آئین کے آرٹیکل 189کے آرڈیننس جاری ہوتا ہے۔ سکندر بشیر مہمند کا کہناتھا کہ الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 140میں مناسب طریقہ کار موجود ہے آرڈیننس غیر ضروری ہے۔ سکندر بشیر مہمند کا کہناتھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ ہمارے پاس اضافی ججز نہیں، ہمارے پاس پہلے ہی زیادہ کام ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سب ذمہ دار ہیں، لاہور ہائی کورٹ میں ججز کی آسامیاں کیوں خالی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ طریقہ کار کے تحت اپنے نام بھیج دیں، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان منظور کرے یا نہ کرے، سپریم کورٹ میں ہم نے ججز کی تعدادپوری کرلی ہے، ہوسکتا ہے ہائی کورٹس بھی اس کی پیروی کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر 10،10،20،20نام اکٹھے آئیں گے تویہ بھی مناسب نہیں ہوگا، سلمان اکرم راجہ ایسی درخواستیں نہیںلاتے،جلد یہ کام بھی ہوجائے گا، لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس تبدیل ہورہے ہیں ابھی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی بطور جج سپریم کورٹ تقرری کانوٹیفیکیشن نہیں آیا۔

سلمان اکرم راجہ کاکہناتھاکہ صدارتی آرڈیننس لاہور ہائی کورٹ اوراسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ توپورے پاکستان پر لاگو ہوتا ہے ، کوئی چیزیں توفوری طو ر پر یہاں چیلنج کردیتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے حکم جاری کررکھا ہے کہ الیکشن معاملات فوری سماعت کے لئے مقرر کئے جائیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ 2جج دیتی ہے اور 6بعد میں دیتی ہے، سارے جج اکٹھے کیوں نہیں دیتے، یہ ہم نہیں کھیلیں گے ،اختیار کس کے پاس ہے۔ چیف جسٹس کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا میں نے درخواست کی ہے کہ میری بات کے دوران مداخلت نہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہم نے آئین اور قانون کے تحفظ کاحلف اٹھایا ہے نہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے ہم تشریح کرتے ہیں، اچھے قوانین کی تشریح کی ضرورت نہیں ہوتی، بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قانون سازی کو کالعدم قراردیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کاکام الیکشن کروانا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم شام تک کیس سننے کے لئے تیار ہیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ الیکشن کمیشن نیوٹرل جج تعینات کرسکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ آراوز نے الیکشن کروائے تھے اس کے بعد شورشرابا ہوا اس کے بعد ہائی کورٹ نے ججز دینے چھوڑ دیئے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم صدارتی آرڈیننس پر وفاق کو نوٹس کرسکتے ہیں۔

عدالتی وفقہ کے بعد کیس کی سماعت شروع ہوئی توسلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ 5رکنی بینچ بنایا جائے وہ اپنے تفصیلی دلائل 5رکنی بینچ کے سامنے دیں گے۔اس پر چیف جسٹس کا کہناتھا کہ 5رکنی بینچ ، ڈن۔ سلمان اکرم راجہ کاکہناتھا کہ الیکشن کمیشن نے انٹراکوٹ اپیل کو بائی پاس کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ جو معاملہ ہمارے سامنے نہیں اس حوالے سے بات نہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک اِدھر سے خط آرہا ہے ایک اُدھر سے خط آرہا ہے مشاورت توہوئی نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تصادم سے بچیں، اگر آئینی عہدیدار شروع سے ہی لڑائی شروع ہوجائے تو ملک کیسے چلے گا۔ چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیوں ساری عدلیہ پر مجموعی طور پر اعتماد نہیں کرتے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے چیف جسٹس نے نام دیئے۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ اگر دو جج ہوتے تو180دن میں میرے کیس کا فیصلہ نہیں ہونا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا آپ کا نقطہ کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ ججز کو بھی نہیں لگائیں گے اور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی معطل کردیتے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کا کہناتھا کہ 5رکنی لارجر بینچ بنائیں میں تفصیلی دلائل دوں گا، ریٹائرڈ جج نہ لگائیں ہم ہائی کورٹ گئے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مختصر تاریخ دیں گے، کمیٹی کو بھجوائیں گے کہ جلدی لگادے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پانچ ججز کو فیصلہ کرنے دیں۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ویٹو پاورز کااستعمال کررہا ہے جس کو چاہے ٹربیونل کاجج لگادے اورجس کو چاہے مستردکردے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے پاس بھی من مانے اختیارات نہیں ہیں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر بل میں ماسٹر آف روسٹر کے نظریہ کو دفن کردیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نوٹس کردیتے ہیں۔ اس پر سلمان اکرم راجہ کاکہناتھا کہ جلد تاریخ دے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک بڑااچھا وقت تھا چیف جسٹس جو مرضی کرے اور جس طرح مرضی بینچ بنائے، 15ججز نے فیصلہ کیا کہ پارلیمان کا بنایا گیا قانون دست ہے، 10ججز نے فیصلے کے حق میں اور 5نے مخالفت میں ووٹ دیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم جمہوریت کی طرف بڑھ رہے ہیں، پرانے طریقہ کار کے تحت ہم دو بھی فیصلہ کرسکتے تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ادارے ایک دوسرے کوعزت دیں۔چیف جسٹس کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو اپنے کیس میں خود دلائل نہیں دینا چاہیں تھے، کالے کوٹ میں نہیں آنا چاہیئے جب اپنے کیس میں دلائل دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن مل کر معاملہ حل کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں آخری شخص ہوں گا جواُس آئینی شق کی تشریح کرے جس کی تشریح درکار نہیں۔

چیف جسٹس کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کی پارٹی کے صدر تھے وہ کیوں الیکشن کی تاریخ نہیں دے رہے تھے، الیکشن کمیشن چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے ملاقات کے لئے تیار ہے،کیا ہم ایک امیدوار کے لئے آئین کودوبارہ لکھیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو مشاورت سے نہیں روک رہے۔ سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ لاہورہائی کورٹ کافیصلہ معطل کیا جائے۔ چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیوں چاہتے ہیں کہ مخصوص جج آپ کا کیس سنے، کیا آپ اپنا وکیل کرنا چاہیں گے۔ اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میں وکیل کروں گا۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ٹربیونلز کو کوئی کیس نہیں بھجوائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دوسرے کوقابل احترام نہیں بلکہ انسان کے طور پر اس کے ساتھ برتائو کریں۔ اس موقع پر مدعا علیہ نمبر 2رائو عمر ہاشم خان نے پیش ہوکربتایا کہ ان کے وکیل سمیر کھوسہ بیران ملک ہیں وہ آئندہ سماعت پر پیش ہوں گے۔ ا س کے بعد وکیل نیاز اللہ خان نیازی نے پیش ہوکربتایا کہ انہوں نے راولپنڈی ڈویژن سے انتخابات میں حصہ لینے والے 9امیدواروں کی جانب سے فریق بننے کی درخواست دی ہے ۔ نیاز اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ ان کے مئوکلین فارم 45کے مطابق جیتے ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہناتھا کہ فارم 45والی بات الیکشن ٹربیونل میں ہو گی ہم کیس کو میرٹ پر نہیں دیکھیں گے، ہوسکتا ہے کل کوہمارے پاس اپیلیں آجائیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا نیاز اللہ نیازی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہائی کورٹ میں فریق بننے کی درخواست کیوں نہیں دی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزار ابھی پراپر پارٹی نہیں۔ نیاز اللہ نیازی کاکہنا تھا کہ عدالت میں 100لوگ بیٹھے ہیں جو الیکشن لڑ چکے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جتنی بات کریں گے اپنے آپ کو نااہل کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی درخواست پر متعدد تحفظات کے باوجود ہم آپ کو سن رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو جیتے ہوئے ہیں وہ بھی آجائیں گے کہ ہمیں بھی سنیں ، پھر کیس چلے گانہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی وجہ نہیں بتارہے صرف کہہ رہے ہیں پارٹی بننا ہے۔جسٹس نعیم اخترافغان کا کہناتھا کہ جو الیکشن ٹربیونل ہیں وہ شواہد ریکارڈ کرتے رہیں تاہم فیصلہ جاری نہ کریں، فیصلہ اس کیس کے فیصلہ کے ساتھ مشروط ہوگا۔سلمان اکرم راجہ کاکہناتھا کہ الیکشن کمیشن نے 4کا نوٹیفیکیشن کیا ہے اور4کا نہیں کیا، آٹھوں کو کام کرنے دیں معاملہ آگے بڑھے۔سکندر بشیر مہمد کا کہناتھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی معطل کردیں اور ریٹائرڈ ججز والے معاملہ کو بھی معطل کردیں۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ مشاورت کا یہ مطلب نہیں کہ چائے کی پیالی پی کرآجائیں۔چیف جسٹس کا حکم لکواتے ہوئے کہناتھا کہ سلماناکرم راجہ اور رائو عمر ہاشم خان نے درخواستیں دائر کی تھیں کہ کون الیکشن ٹربیونل کے جج کو تعینات کرے گا یہ کس کااختیار ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے آئین اورقانون کی شقوں کی تشریح کر کے قراردیا کہ الیکشن ٹربیونل کے ججز تعینات کرنے کااختیار لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کاہے۔ سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ فیصلہ آئین اورقانون کے مطابق نہیں، آئین الیکشن کمیشن کواختیار دیتا ہے کہ وہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت کے بعد الیکشن ٹربیونل کے ججز کو تعینات کرے، مشاورت کاعمل جاری تھا اوررٹ پیٹیشن قابل سماعت نہیں تھی، دوآئینی اداروں کے درمیان معاملہ تھا درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں تھا۔چیف جسٹس کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب اپنے کیس میں روسٹرم پر کھڑا تھا توکالے کوٹ میں نہیں تھا، ہم سب کو کہتے ہیں جب پارٹی ہوتے ہیں تووکیل نہیں ہوتے، آپ وکیل کرلیں۔رائو عمرہاشم خان نے سلمان اکرم راجہ کے دلائل اپنا لئے اور کہا کہ ان کے وکیل آئندہ سماعت پر پیش ہوں گے۔چیف جسٹس کا حکم میں کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ 10مئی تک صرف 2الیکشن ٹربیونل پورے پنجاب میں تعینات ہوئے تھے ،کمیشن نے اپنی آئینی اورقانونی ذمہ داری پوری نہیں کی، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ بامعنی مشاورت کے بغیر ٹربیونل تعینات نہیں ہوسکتے، الیکشن کمیشن نے انٹراکورٹ اپیل دائر نہیں کی اورسپریم کورٹ میں رٹ پیٹیشن دائر کی،کیس کی سماعت کے لئے 5رکنی بینچ تشکیل دیا جائے، آئین کی تشریح کا معاملہ ہے ، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ کے تحت قائم 3رکنی کمیٹی کو بھجوایا جائے۔چیف جسٹس کا حکم میں کہنا تھا کہ نیاز اللہ نیاز ی 9درخواست گزاروں کی نمائندگی کررہے ہیں جنہوں نے الیکشن لڑا وہ فریق بننا چاہتے ہیں۔ ہم درخواست پر نوٹس جاری کررہے ہیں، الیکشن کمیشن 9مدعا علیحان کو پارٹی بنائے، کوئی نیانوٹس جاری نہیں کیاجائے گا۔

جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے علاوہ تینوں صوبوں کے چیف جسٹسز کے ساتھ الیکشن کمیشن کی خط وکتابت کاریکارڈ آئندہ سماعت پر پیش کیا جائے۔ جسٹس نعم اخترافغان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے الیکشن ٹربیونل کے دائرہ اختیار کانوٹیفیکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہماراآرڈر صرف لاہور ہائی کورٹ پر نہیں بلکہ پورے پاکستان پر لاگوہوگا، صوبائیت تک نہ رہیں بلکہ پورے پاکستان کی بات کریں۔ عدالت نے معاونت کے لیئے اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان کو نوٹس جار ی کرتے ہوئے معاملہ 5رکنی بینچ کی تشکیل کے لئے تین رکنی کمیٹی کو بھجوادیا۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دو ججز بیرون ملک ہیں، آئندہ ہفتے 3رکنی کمیٹی کااجلاس ہو گا اورکوشش ہو گی کہ کیس جلد ازجلد سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے احکامات دیئے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی الیکشن کامعاملہ ہواسے فوری سماعت کے لئے مقررکیا جائے۔سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ ہم جینوئن طریقہ سے جانا چاہتے ہیں، معاملہ جوں کاتوں چھوڑ دیا جائے،اگر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ دستیاب ہوں توہم ان سے مشاورت کرلیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نئے تعینات ہونے والے ججز کاحلف سوموار کے روز ہوگاابھی تک ان کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپنے دلائل کومختصر رکھیں اور صرف یہ بتائیں کہ کون الیکشن ٹربیونل مقررکرے گا اوراس کا دائرہ اختیار کیاہوگا ، آئین اورقانو ن کی بات کریں۔