قربانی تو غزہ والے دے رہے ہیں : تحریر محمود شام


کل قربانیوں کی عید ہے۔ میں غزہ میں انسانیت کی قربانی کے مناظر اسکرین پر دیکھ رہا ہوں۔

ایک صدی وہ تھی جب ایک مسلمان بیٹی کی مدد کیلئے محمد بن قاسم سینکڑوں میل سے اپنا لشکر لے کر پہنچ گیا تھا۔

پھر وہ صدیاں آئیں جب کسی اپنے غیر مسلم شہری کے کسی مصیبت میں پھنس جانے پر اس ملک کے سفارت خانے وزارت خارجہ متحرک ہوجاتے تھے۔ اپنے گم شدہ ہم وطن کے بحفاظت گھر پہنچنے تک آرام نہیں کرتے تھے۔

امریکہ جس کی ہم نوائی پر اکثر مسلمان ملک فخر کرتے ہیں۔ وہ اپنے کسی ایک شہری اور بالخصوص فوجی کیلئے ہلاکت خیز میزائل تک بھی داغ دیتا ہے۔

آج اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں قریباً 50 اسلامی ممالک ہیں۔ جن میں امیر بادشاہتیں بھی ہیں، ایک ایٹمی طاقت بھی ہے، جدید ترین اسلحے کی تربیت رکھنے والی طاقت ور اسلامی فوجیں بھی ہیں۔ ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک کتاب، ایک قبلہ، ماننے والے کئی کروڑ ۔ ایک چھوٹے سے قصبے غزہ میں سفاک اسرائیل کے ہاتھوں 15000 بچے بد ترین طریقوں سے قتل کیے جا چکے ہیں۔ 17 ہزار یتیم ہو چکے ہیں۔ 12ہزار زخم زخم ہیں۔ کسی کا بازو کٹ چکا ہے۔ کسی کی ٹانگ ٹوٹ چکی ہے۔

کوئی بادشاہ اپنا لشکر لے کر انکی مدد کو نہیں پہنچا ہے۔

کل جب میدان حشر سجے گا۔ جب ایک طرف یہ پچاس ہزار بچے کھڑے ہوں گے۔ مقتول، زخمی، یتیم، معذور۔ ایک طرف شہنشاہ، شہزادے، صدور، وزیر اعظم، آرمی چیف، وزرائے خارجہ، وزرائے مذہبی امور، سرمایہ دار، صنعت کار، تاجر، صحافی، ایڈیٹر۔ سوال پوچھا جائے گا۔ کل جب غزہ میں خون بہہ رہا تھا۔ یوسف بلبلا رہا تھا۔ سدرہ کی جان اٹکی ہوئی تھی۔ علمہ کے سامنے اس کے ماں باپ کی لاشیں پڑی تھیں۔ کم سن، نومولود غذا کیلئے ترس رہے تھے۔ کسی ماں کا لاڈلا، کسی باپ کی آنکھ کا تارا دوا نہ ملنے سے دم توڑ رہا تھا، تو بادشاہو، شہزادو، وزیراعظمو، تم اپنے اپنے خاندان کی دیکھ بھال میں لگے ہوئے تھے۔ کیا غزہ میں یہ ظلم وبربریت روکنا تمہارا فرض نہیں تھا۔

میں تو یہ سوچ کر لرز گیا ہوں۔ بجٹ پر کچھ اظہار کرنا تھا۔ ٹیکسوں کا رونا رونا تھا۔ لیکن 9 سالہ یوسف کی آواز سے میرے قلم اور ذہن پر کپکپی طاری ہو گئی ہے۔ ایک اسپتال کے ملبے میں پڑا یہ خوبصورت بچہ یونیسیف کے کارکن سے کہہ رہا ہے۔ ’’جنگ بند کرو،ہم تو بچے ہیں، ہمارا کیا قصور ہے، مجھ پر گولی کیوں چلائی گئی،میں اس ابتلا کا سامنا کیوں کر رہا ہوں۔‘‘

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے۔ ملکی اور عالمی حالات پر تبادلہ خیال کا دن۔ ہمارے بچے اسمارٹ فون پر زخم زخم فلسطینی بچے دیکھ چکے ہیں۔ وہ پوچھیں گے، دادو نانو! دنیا ان بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے کیوں نہیں بچا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کیا کررہی ہے، حرمین شریفین کے پاسبان کہاں ہیں،کئی اسلامی ملکوں کی فوج کے سربراہ راحیل شریف کہاں ہیں، اسلامی بم کہاں ہے، اسلامی قلعے کیا ہوئے۔

بچوں کے سوالات کے جوابات بہت سوچ سمجھ کر دینے ہوں گے۔ مہذب یورپی قوموں کی ویب سائٹس تو والدین سے کہہ رہی ہیں کہ غزہ میں بچوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ اس لیے اپنی اولادوں کے سوالوں کے جواب میں اتنا ہی بتائیں جتنا وہ جاننا چاہتے ہیں۔ ان غیر مسلم اداروں کو یہ فکر ہے کہ غزہ میں کم سنوں پر جو گزر رہی ہے۔ وہ اگر ان کے بچوں کے علم میں آئے گی تو نفسیاتی خلجان کا شکار ہو سکتے ہیں۔ وہ اس کا حفظ ماتقدم کر رہے ہیں، زیادہ تر غیر مسلم ادارے ہی غزہ میں مدد کیلئے پہنچے ہوئے ہیں۔ امریکی یورپی یونیورسٹیوں میں ہی طالب علم مظاہرے کررہے ہیں۔ مسلمان ملکوں کی یونیورسٹیوں، کالجوں میں سناٹا ہے۔ پندرہ صدیوں میں مسلم امہ کو اتنا بے حس تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا۔

اسرائیل کی بربریت کی ہولناکی غزہ کے معصوموں کے چہروں، جسموں اور اعضا پر سلگ رہی ہے۔ 12سالہ علمہ کرب سے چیخ رہی ہے۔ ’میں مرنا چاہتی ہوں‘ اسکے ماں باپ رشتے دار دھماکے میں مارے گئے۔ 18ماہ کا بھائی حالت نزع میں ہے۔ 7سالہ سدرہ حسونہ 75 اہل خانہ میں سے اکیلی بچی ہے۔ 13 سالہ لڑکا ایک بازو سے محروم ہوگیا ہے۔ بیہوش کرنے کی دوا نہیں تھی اس لیے بازو اس کے ہوش میں ہی کاٹا گیا۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں اس پر کیا گزری ہو گی۔ 36اسپتالوں میں سے صرف دس گیارہ کسی حد تک اس قابل ہیں کہ کچھ علاج کر سکیں ڈاکٹر مارے جا چکے ہیں، نرسیں زخمی ہیں، عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ دس بچوں میں سے اوسط ایک بچہ زندہ رہ سکا ہے۔ جو زندہ ہیں ان کیلئے مناسب غذا نہیں ہے۔ غزہ اسرائیل اور بحیرۂ روم کی درمیان 40 کلو میٹر کی پٹی ہے۔ جہاں کبھی 20 لاکھ جفاکش، حسین وجمیل فلسطینی سانس لیتے تھے۔ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ بچوں کا کھیلنے کا حق، بچوں کا پڑھنے کا حق، بچوں کا دوست بنانے کا حق، کتنی ہزاروں تنظیمیں ان حقوق کیلئے کام کررہی ہیں۔ ڈالر، پونڈ لاکھوں کی تعداد میں صَرف ہورہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے عین قلب غزہ میں تو بچے ’’سانس لینے کا حق ‘‘بھی نہیں رکھتے۔

اسرائیل اپنے بھیانک منصوبوں پر اطمینان سے عمل کررہا ہے۔ غزہ کی پٹی اسے خالی کروانی ہے۔ امریکہ برطانیہ اس کی پشت پر ہیں۔ یورپ کے کچھ چھوٹے ملکوں کو انسانیت کے احترام کا خیال آیا ہے۔ لیکن مسلمان حکمران ڈائس کے سامنے کھڑے ہوکر بیان دے رہے ہیں۔ غزہ میں کام کرتی وار چائلڈ اور تعاون سمیت مختلف تنظیموں کو مسلمان امیر ریاستوں کی طرف سے کوئی بڑے عطیات بھی نہیں مل رہے۔ پاکستان کی ’الخدمت‘ ترکی کے اداروں کی مدد سے کچھ کر رہی ہے۔ ضرورت تو عسکری اقدامات کی ہے۔ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے۔ وہ سب فوجی جارحیت ہے۔اس کے جواب میں صرف زبانی جمع خرچ ۔ اکثر اسلامی ملک یہ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا نائب حضرت انسان اور آخری دین اسلام کا ماننے والا ہلاک ہورہا ہے۔ جسم کی دھجیاں اڑ رہی ہیں ہر دس منٹ بعد ایک بچہ زخمی یا ہلاک ہوتا ہے۔ اسرائیل امریکہ برطانیہ کی ہلا شیری سے فلسطینیوں کی ایک نسل ختم کرچکا ہے۔ ایک نسل کو اپاہج کرچکا ہے۔ لیکن یہ ہزاروں بچے جن کی پیشانیاں لہولہان ہیں جن کے اعضا شکستہ ہیں جو باپ کی شفقت ماں کی مامتا سے محروم ہوچکے ہیں۔ یہ اسرائیل اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے خلاف جو نفرت لے کر پناہ گاہوں میں پل رہے ہیں۔ کل یہی ایک صبح آزادی کامل کے ساتھ طلوع ہوں گے۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

میں اپنے پڑھنے والوں سے معافی کا خواہاں ہوں کہ ان کی عید کی خوشیوں میں غزہ کا لہولے کر آ گیا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ