غزہ میں کون کس کے ہاتھوں ٹریپ ہوا؟ … تحریر : وسعت اللہ خان


اس وقت دنیا میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ کیا سات اکتوبر کو حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملے کے دوران ایک ہزار سے زائد اسرائیلی سویلینز، فوجیوں اور غیر ملکی کارکنوں کو مار کے اور ڈھائی سو کے لگ بھگ کو آیندہ کی سودے بازی کے پتوں کے طور پر اغوا کر کے اسرائیل کو ایک لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو مارنے ، زخمی کرنے اور نسل کشی کا سنہری موقع اور مغربی اسٹیبلشمنٹ کو مظلوم اسرائیل کی کھل کے مدد کرنے کا بہانہ فراہم کیا ؟

کیا حماس نے اسرائیلی ردِ عمل کا اندازہ لگانے میں سنگین غلطی کر کے پوری غزہ پٹی کو ایک کھنڈر میں تبدیل کروا لیا؟ یا اس نے سوچ سمجھ کر کے اسرائیل کو ایک دلدل میں پھنسا دیا جہاں پوری دنیا پہلی بار اس سفاک روپ کو دیکھ سکتی ہے جسے فلسطینی پچھلی صدی سے دیکھنے کے عادی ہیں ؟

ہم گزشتہ مضمون میں بتانے کی کوشش کر چکے ہیں کہ اسرائیل کے عسکری ڈاکٹرائین میں فلسطینی کبھی بھی بقائی خطرہ نہیں رہے۔اصل خطرہ ہمسایہ عرب ممالک تھے جنھیں رفتہ رفتہ مختلف طریقوں سے رام کر لیا گیا۔اس کے بعد کسی کو بھی پرواہ نہیں رہی کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کیا کرتا ہے یا فلسطینی بحیثیت قوم اپنے مستقبل اور بقا کو کس حد تک فعال یا زندہ رکھ سکتے ہیں۔

اوسلو سمجھوتے کی آڑ میں پی ایل او کو ایک طفیلی درجہ دینے کے بعد اسرائیلی عسکریات کو مکمل یقین ہو گیا کہ حماس یا اسلامک جہاد جیسے گروہوں کے ذہن میں اسرائیل کی بے پناہ فوجی قوت سے ٹکر لے کے خودکشی کا خیال آنا ممکن ہی نہیں۔لہذا انھیں یا ان کی تکالیف کو سنجیدگی سے لینا محض وقت ضایع کرنا ہے۔

جب طاقت ہی سب سے بڑا نشہ ہو تو زورآور بھول جاتا ہے کہ کمزور بھی کبھی غلامی یا جبر کی زنجیریں ڈھیلی کرنے کے لیے کسی انتہائی حکمتِ عملی پر اتر سکتا ہے۔

سات اکتوبر کو یہ جمود ٹوٹ گیا۔اسرائیل عسکری اعتبار سے ایک انتہائی کمزور گروہ کے ہاتھوں اپنی ناقابلِ تسخیریت ٹوٹتے دیکھ کر اجتماعی غضب کا یرغمال بن گیا اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر پوری طاقت غزہ میں جھونک دی۔مقصد بدلہ لینا نہیں بلکہ پوری پٹی کو انسانوں سے صاف کرنا ٹھہرا۔

وہ جو کہتے ہیں کہ غصہ بدلے سے شروع ہوتا ہے اور پشیمانی پر ختم ہوتا ہے۔یہ مقولہ جتنا کسی فرد پر لاگو ہے اتنا ہی ریاست پر بھی ہے۔غصہ چونکہ ہوش و حواس سلب کر لیتا ہے لہذا اندھے غصے کی حالت میں بہترین حکمتِ عملی بھی غصیل کی گردن کا پھندہ بن سکتی ہے۔ویتنام ، عراق اور افغانستان تو سامنے کی مثالیں ہیں۔یہ وہ پھندے تھے جن کے خوف نے ایک سپرپاور کو بے بسی کے عالم میں پتلون سنبھال کے بھاگنے یا جان چھڑانے پر مجبور کر دیا۔

چونکہ اسرائیل نے دشمن کو گھیر کے تحمل سے مارنے کے بجائے دشمن کی پوری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے فوجی کارروائی کی لہذا اسرائیل کو اتنا وقت ہی نہیں مل پایا کہ وہ دھیان دے سکے کہ اگر حماس کو صفحہ ہستی سے نہ مٹایا جا سکا تو پھر کس موڑ پر یہ جنگ رکے گی اور جنگ رکنے کے بعد کیا ہو گا ؟

غزہ کا انفرااسٹرکچر تباہ کر کے اسرائیل نے حماس کو موقع فراہم کیا کہ وہ ملبے کے پہاڑوں میں سروائیو کر کے کوچوں گلیوں کی جنگ سے نابلد اسرائیلی فوج کو اپنی مرضی سے انگیج کر سکے اور ہر وقت ایڑیوں کے بل پر رکھ کے ذہنی طور پر تھکائے رکھے۔

کسی عمارت کی ناکہ بندی کر کے دشمن کو تلاش کرنا آسان ہوتا ہے لیکن جب وہی عمارت ملبے کا ڈھیر بن جائے تو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کس ڈھیر کے اندر یا پیچھے دشمن چھپا بیٹھا ہے۔

جرمن فوج نے جب اسٹالن گراڈ کا محاصرہ کر کے اسے ملبہ بنا دیا تب جرمنوں کو احساس ہوا کہ اب ایک ایک ڈھیر ان کا دشمن بن چکا ہے۔ تباہ و سنسان کھنڈر ان کے لیے ٹریپ بن چکے ہیں۔

ماہر مقامی نشانچیوں کے لیے اس سے بہتر جنگی حالات ممکن ہی نہیں تھے۔روسیوں نے اپنے وقت اور مرضی سے کیل کانٹے سے لیس جرمنوں کو اتنا زچ کیا کہ وہ طے شدہ فوجی حکمت عملی بھول کے ہمہ وقت اپنی بقا کے دلدل میں پھنستے چلے گئے۔روسیوں کا ناقابلِ برداشت حد تک جانی نقصان ہوا مگر روسی اپنے گھر اور زمین کے لیے لڑ رہے تھے اور جرمن محض تسخیر کے جذبے سے لڑ رہے تھے۔نتیجہ آپ نے دیکھ لیا کہ اسٹالن گراڈ میں بالاخر جرمنوں کے ساتھ کیا ہوا۔

مشکل یہ ہے کہ ملبے کی جنگ میں ٹیکنالوجی کی سبقت بھی ایک حد سے آگے کام نہیں کرتی۔

اسرائیلی قیادت نے اپنے عوام کو یہ یقین دلا کے اپنی مشکلیں اور بڑھا لیں کہ وہ اس بار حماس کا نام و نشان صفحہِ ہستی سے مٹا دیں گے۔حالانکہ جنگ کے آٹھ ماہ بعد غزہ کے انفرااسٹرکچر کی مکمل تباہی اور تئیس لاکھ انسانوں کی دربدری کے باوجود اسرائیل کے اندھ بھگت امریکا کی انٹیلی جینس ایجنسی سی آئی اے کا اندازہ ہے کہ حماس نے غزہ میں جو سرنگیں بنا رکھی ہیں ان میں سے اسی فیصد اب بھی سلامت ہیں۔حماس کی پینسٹھ فیصد افرادی قوت اب بھی اپنی جگہ موجود ہے اور جو مر گئے ان کی جگہ لینے کے لیے ہزاروں تیار ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیل نے اعلان کیا کہ شمالی غزہ اور غزہ شہر کو حماس سے پاک کر دیا گیا ہے اور اب یہ علاقے کلئیر ہیں۔اس کے بعد بھی ان علاقوں سے اسرائیل پر راکٹ گرتے رہے۔حماس کے جنگجو گراونڈ پر موجود انفنٹری اور آرٹلری کو گوریلا انداز میں نشانہ بناتے رہے۔چنانچہ جن علاقوں کو کلئیر کرنے کا دعوی کیا گیا تھا ان پر اسرائیل کو دو دو تین تین بار پھر سے فوج کشی کرنا پڑی۔

جبالیہ کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔حتی کہ بمباری اور گولہ باری سے کھنڈر بنے اسپتالوں کا بار بار محاصرہ کرنا پڑا۔مگر حملے پھر بھی نہ رک پائے۔حماس شہد کی ڈنک والی مکھی کی طرح متحرک ہے جو چہرے پر بیٹھتی ہے اور اڑ جاتی ہے اور پھر ناک کے گرد چکر لگانا شروع کر دیتی ہے۔انسان اپنا منہ پیٹ پیٹ کے لال کر لیتا ہے۔ مکھی پھر بھی اڑتی رہتی ہے۔

اسرائیل کا غصہ اورجھنجلاہٹ بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اس غصے کے نتیجے میں جو اندھی سفاکی اور انسانیت سوز حرکتیں سرزد ہو رہی ہیں ان کے سبب عالمی رائے عامہ پہلی بار یہ دیکھ پا رہی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ پچھلے پچھتر برس میں کیا کیا کرتا رہا ہے۔

اب تک اسرائیل نے جتنی بھی جنگوں کا سامنا کیا ان میں وہ خود کو ایک محاصرہ زدہ مظلوم ریاست ثابت کرنے میں کامیاب رہا۔مگر غزہ نے چہرے سے تمام نقاب نوچ لیے اور اب ان کے ٹکڑے دنیا بھر کے احتجاجیوں میں تقسیم ہو رہے ہیں۔اس جنگ نے نہ صرف پہلی بار رائے عامہ پلٹ دی بلکہ مغربی حکومتیں اسرائیل کی غیر مشروط حمائیت کے معاملے پر منقسم ہو گئیں۔

اسرائیل میں اب تک باقی دنیا سے یہودی اس وعدے پر آ کر بستے رہے کہ یہ ایک مضبوط آخری قلعہ ہے۔مگر ایک کمزور ترین دشمن نے جس طرح قلعے میں شگاف ڈالا اس کے بعد لگ بھگ دو لاکھ اسرائیلی شہری ملک چھوڑ چکے ہیں۔حالانکہ اسرائیلی مملکت قائم ہی اس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے کے لیے ہوئی تھی کہ ایک ایسا محفوظ ملک ہو جہاں یہودی اکثریت میں ہوں اور عرب یا جلاوطن ہو جائیں یا پھر انھیں آبادکاروں کی مسلسل آمد کے بوجھ تلے دبا کر ایک اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔

آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر حماس کا وجود نہیں مٹتا تو اسے حماس کی فتح سمجھا جائے گا اور اگر اسرائیل حماس کی مکمل بیخ کنی میں کامیاب نہیں ہوتا تو یہ اس کی شکست کا نقارہ ہو گا۔اس داغ سے بچنے کے لیے اسرائیل تب تک بربادی پھیلاتا جائے گا جب تک خود اس کے پشتیبان اس کا ہاتھ نہیں پکڑتے۔ یہ تو اسرائیل کے بھگت بھی جانتے ہیں کہ ہر جنگ کو ایک نہ ایک دن رکنا ہی ہوتا ہے۔وہ الگ بات کہ امریکا کو یہ احساس غزہ میں چالیس ہزار لاشیں گرنے کے بعد ہوا۔

کوئی مزاحمتی تحریک عارضی طور پر دب سکتی ہے ، شکل بدل سکتی ہے مگر کلی یا جزوی مقاصد حاصل ہوئے بغیر ختم نہیں ہو سکتی۔نظریہ یا خیال طبعی موت تو مر سکتا ہے۔اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس