نئی حد بندی کی وجہ سے اب جموں و کشمیر اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد نوے ہے۔ عمر اور سجاد کے برعکس، جیل میں بند انجینئر کے بیٹے 23 سالہ ابرار رشید نے ایک مختصر مہم کی قیادت کی۔ اس کی ایک سادہ سی التجا تھی کہ اگر آپ میرے والد کو ووٹ دے سکتے ہیں جو دو بار اسمبلی میں عوام کی نمائندگی کر چکے ہیں تووہ جیل سے باہر آسکتے ہیں۔انتخابی مہم کے لیے لوگوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے اخراجات کے ذریعے ہر چیز کا انتظام کیا۔ جہاں آجکل کروڑوں روپے انتخابی مہم پر خرچ ہوتے ہیں، ان کی پارٹی کے افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے پوری مہم پر صرف27 ہزار روپے خرچ کئے، جس سے ایک گاڑی کا پٹرول خریدا گیا۔ باقی خرچ لوگوں نے خود اٹھائے۔ اس انتخاب کو لیکرآنجہانی جارج فرنانڈیز یاد آتے ہیں ۔بطور ٹریڈ یونین لیڈر اپنے پہلے انتخاب میں انہوں نے 1967 میںممبئی میں بس دس ہزارروپے کے فنڈسے کانگریس کے ایک قد آور لیڈر ایس کے پاٹل کر ہرایاتھا۔ تمام جماعتیں انجینئر کو بھول چکی تھیں۔ اس کی گرفتار ی کے خلاف کوئی آواز ہی نہیں اٹھاتا تھا۔ قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی کے مطابق رشید کو منی لانڈرنگ کے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر پانچ سالوں سے کیس کی ٹرائل ہی نہیں ہو رہی ہے۔ ویسے پارلیمانی نظام تو جنوبی ایشیانے اپنایا ہے ، مگر امیدوار انتخابات لڑنے کیلئے خرچہ کہاں سے لائیں گے، اس پر کسی نے غور نہیں کیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو کارپوریٹ ادارے پیسہ دیتے ہیں۔ اسی طرح ان کو بھی انتحابی مہم کیلئے ایک کاروباری شخصیت نے چندہ دیا تھا، جس نے دوسری جماعتوں کو بھی پیسہ دئے تھے، جو اب زیر عتاب ہیں۔ اب اس چندہ کی وجہ سے وہ معتوب ہو گئے ہیں۔ ان انتخابات نے کم سے کم انجینئر کو دوبارہ زندہ کرکے کشمیر بھر میں ایک مقبول سیاست دان بنا دیا ہے۔ 1971میں کشمیریوں نے اسی طرح سرینگر حلقہ سے صحافی و ادیب شمیم احمد شمیم کی حمایت کی ۔ جس نے اس وقت کے ایک بت سابق وزیر اعظم بخشی غلام محمد کو پاش پاش کرکے ایک تاریخ رقم کی تھی۔ مگر رشید کے برعکس وہ اس حلقہ پر اپنا عکس برقرار نہیں رکھ سکے۔ وہ جیت کے لئے بھی شیخ عبداللہ کے مرہون منت تھے۔ گو کہ پارلیمنٹ کے اندر ان کی کارکردگی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے، مگر وہ عوامی مقبولیت حاصل نہیں کرسکے۔ کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کو جب مغل حکمرانوں نے پانچ صدی قبل قید اور بعد میں بسواک (بہار) جلاوطن کیا، محکوم و مجبورکشمیری قوم تب سے ہی کسی ایسی ہستی کی تلاش میں ہے، جو انکو بیدردی ایام سے نجات دلاسکے۔ کشمیر کی آخری ملکہ حبہ خاتون (زون) کی دلدوز شاعری، جس میں دہلی کے حکمرانوں کی بد عہدی اور اپنے محبوب (یوسف شاہ) کی مصیبتوں کی داستان درج ہے، کشمیری لوک ریت کا ایک جزو ہے۔اس مدت کے دوران اس مقہور قوم نے کئی ہستیوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا، مگر کچھ عرصہ کے بعد انکو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ غالب کا یہ شعر اس قوم پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ چلتا ہو ں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں 1930 کی دہائی میں شیخ عبداللہ نے جب سرکاری ملازمت سے استعفی دیکر ڈوگرہ حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو کشمیر قوم نے انکو سر آنکھوں پر بٹھایا۔کئی سال قبل جب کشمیر کے ایک معروف بیورکریٹ شاہ فیصل نے نوکری سے استعفی دیکر سیاست کی پرخار وادی میں قدم رکھا۔تو ان کو سر پر بٹھایا۔ مگر وہ جلد ہی اس راہ سے فرار ہوگئے۔ اس پیچیدہ سیاسی صورت حال میں انجینئر کی اس جیت نے جہاں امیدیں جگائی ہیں، وہیں اندیشے بھی پیدا کئے ہیں۔اگر وہ ایسی تبدیلی لاسکیں، جہاں صاف و شفاف انتظامیہ کے علاوہ وہ نظریات سے بالاتر سبھی جماعتوں کو ایک متوازن سیاسی اور جمہوری فضا میسر کرواپائیں، توان کا آنا مبارک ہے۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ کشمیر عزت و وقار کا ایک قبرستان بھی ہے۔ شیر کشمیر کہلانے والے قد آور لیڈر کا حال یہ ہے کہ کشمیر یونیورسٹی کے نسیم باغ کیمپس کے بالمقابل انکی آخری آرام گاہ پر سکیورٹی دستوں کا سخت پہرہ لگا ہوا ہے، تاآنکہ کوئی سرپھرا ہجوم اسکو نقصان پہنچا کر بے حرمتی کا مرتکب نہ ہو۔ان حالات میں کیا انجینئر رشید کشمیری قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کی سعی کریں گے یا شیخ عبد اللہ کی طرح اسکو مزید تند لہروں کے حوالے کریں گے؟ عوامی جلسوں میں شیخ عبدللہ لحن داؤدی میں اکثر اقبال کی مشہور نظم کے دو بند۔ اے طائر لا ہوتی، اس رزق سے موت اچھی، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتا ہی، پڑھ کر عوام پر وجد طاری کرتے تھے۔کیا انجینئرا قبال کے اس شعر کی عملی تفسیر بن کر اس خطے کو اس منجھدار سے نکالنے کی کوشش کریں گی جس میں عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔ نہ صرف بدنصیب کشمیری قوم، بلکہ پورا جنوبی ایشیا ان کا ممنون احسان رہیگا۔ کشمیر میں عوام کا پچھلے انتخابات کے برعکس اس وقت بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو ایک تاریخی واقعہ کے بطور پیش کیا جا رہا ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ انتخابات میں ٹرن آوٹ جمہوریت پر اعتماد کا اظہار ہے کیونکہ لوگوں نے بغیر کسی خوف کے اپنے آئینی حق کا استعمال کیا۔سوال ہے کہ کیا جمہوری عمل صرف ووٹنگ میں حصہ لینا ہی ہے۔ ووٹنگ کے بعد اصل جمہوریت کا امتحان ہوتا ہے۔ امید ہے کہ ووٹنگ میں حصہ لینے کے بعد اور جمہوری عمل کا حصہ بننے کے بعد عوام کو اس کے بدلے جمہوری مراعات دیکر قد غنیں اٹھائیں جائینگی اور تھوڑا سا آکسیجن فراہم کرایا جائیگا۔ یہ وقت ہی بتاپائے گا ، کیا واقعی جمہوری عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ ابھی فی الحال انجینیر رشید سمیت قیدیوں کی رہائی کا انتظار ہے۔ (ختم شد)
بشکریہ روزنامہ 92