اکنامک سروے ،بجٹ 2024 : تحریر نعیم قاسم


رجیم جینج آپریشن کے بعد شہباز شریف اور ان کے حواریوں نے ہابرڈ حکومت کا تیسرا عوام کش بجٹ دیا ہے جس پر ہر شعبہ زندگی کے لوگوں آہ و پکار آسمان کو چھو رہی ہے دو سال کرونا کا مقابلہ کرنے کے باوجود تحریک انصاف کے مالی سال کی اکنامک سروے رپورٹ جو 2022 جون میں پی ڈی ایم کی حکومت نے پیش کی
تھی، اس کے مطابق معاشی ترقی کی شرح نمو 5.8 فیصد تھی اور میکرو اکنامک انڈیکٹرز اطمینان بخش تھے 16 ارب ڈالرز کے زرمبادلہ کے ذخائر اور شرخ سود سنگل ڈیجیٹ پر تھی مگر پھر ملک کو ڈیفالٹ سے بچا نے کےنام پر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر حکومت ختم کر دی گئی منفی معاشی ترقی کی شرح نمو اور 38 فیصد مہنگائی، کرنسی کی ڈیڑھ سو فیصد استحقار کے بعد اب رواں مالی سال کے اکنامک سروے میں جی ڈی پی گروتھ 2.38 فیصد ہوئی ہے مگر یہ آبادی کی شرح افزائش جو کے 2.55 فیصد ہے اس سے بھی کم ہے پاکستان میں ہر سال 25 لاکھ نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں ان میں سے آدھی تعداد بھی تب روز گار حاصل کر سکتی ہے کہ جب معاشی ترقی کی شرح نمو 6 فیصد سے زیادہ شرح پر برقرار رہے گزشتہ چار سالوں میں عام پاکستانی سوائے افغانستان کے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک خصوصاً بنگلہ دیش اور ہندوستان کے شہر ی سے حقیقی آمدنی اور قوت خرید کے لحاظ سے 164 فیصد تنزلی کا شکار ہوا ہے پاکستان کی رواں سال جو دو ڈھائی فیصد جی ڈی پی گروتھ ہوئی ہے اس میں زراعت کے شعبے کی 6.25 فیصد غیر معمولی کارکردگی ہے مگر اس سال گندم اگانے والے کسانوں کے ساتھ کاکڑ اور شہباز حکومت نے جو ناانصافی اور ظلم کیا ہے اگلے سال ذراعت کی گروتھ کا اندازہ بمشکل 2.5 فیصد متوقع ہے رواں سال کے اکنامک سروے کے مطابق اس پاکستان پر کل قرضوں کا بوجھ 67000 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جو ہماری جی ڈی پی کا 74 فیصد ہے ہر پیدا ہونے والا بچہ 2 لاکھ 80 ہزار کا مقروض ہے جبکہ فی کس آمدنی 1680 ڈالرز پر برقرار ہے اب بھی مہنگائی کی شرح تقریباً 22 فیصد ہے مگر حکومت افراط زر کی شرح کو 12 فیصد پر پروجیکٹ کر رہی ہے جو کہ درست نہیں ہے ادارہ شماریات نے مئی کے مہینے میں 55 اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ 40 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور 14 اشیاء کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے تاہم پچھلے سال ان اشیاء میں اضافے کی شرح 28 فیصد تھی مگر اب اضافے کی شرح 12 فیصد ہے لوگوں کی حقیقی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا تو کیا مہنگائی بڑھنے کی رفتار میں کمی سے ہم کہیں کہ حکومت نے عام لوگوں کی معاشی زندگیوں کو بہتر کر دیا ہے یعنی پہلے کسی قیدی کو صبح، دوپہر، شام بھوکا رکھا جاتا تھا اور تشدد کیا جاتا تھا مگر اب ایک وقت کا کھانا دیا جاتا ہے اور ایک وقت تشدد کیا جاتا ہے اس لیے وہ عیاشی کر رہا ہے اعدادوشمار کے اس ہیر پھیر سے حکومت عام آدمی کو اپنی بنکوں اور قومی بچت کے اداروں میں جو تھوڑا بہت منافع مل رہا ہے اس کو بھی نہ صرف کم کرنا چا رہی ہے بلکہ اس پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرکے ان کے لیے جینا مشکل بنانے پر عمل پیرا ہے یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ عام لوگوں کی بچتوں پر شرح منافع کم کرنے کے لیے مہنگائی اور افراط زر کے فیک اعدادوشمار گھڑتی ہے 18877 ارب کے حالیہ بجٹ میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ 3800 ارب روپے اضافی ٹیکسوں کا بوجھ مڈل کلاس طبقے پر ڈال دیا گیا ہے اور 3900 ارب کی طاقت ور طبقے کی مراعات میں ایک روپے کی بھی کمی نہیں کی گئی ہے ان سخت معاشی بحران میں ترقیاتی بجٹ ہزار ارب سے 1500 ارب اور دفاعی بجٹ 1804 ارب سے بڑھا کر 2122 ارب کرنے سے ساڑھے آٹھ ہزار ارب خسارے کو پورا کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقہ جو پہلے ہی 360 ارب روپے کے ٹیکس دے رہا ہے اس پر 75 ارب کا مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے ترقیاتی بجٹ میں 500 ارب کا اضافہ کرنے کی وجہ سیاسی تو ہو سکتی ہے مگر اس وقت ملک کے مفاد میں نہیں ہے 75 ارب کے ترقیاتی فنڈز پارلیمنٹ کے اراکین کو دیئے جا رہے ہیں سینٹ، ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، سپریم کورٹ سب کے اخراجات میں اضافہ کیا گیا ہے شہباز شریف کب کے کفایت شعاری کے نام پر کمیٹی کمیٹی کھیل رہے ہیں اب ناصر محمود کھوسہ کی سربراہی میں کمیٹی نے 1000 ارب روپے کی کفایت شعار ی کی رپورٹ پیش کی ہے مگر غیر ضروری وزارتوں اور ڈویژنز کو ختم کرنا تو دور کی بات ان کے بجٹس میں اضافہ کیا جا رہا ہے پنشن کے لیے مختص 1014 ارب روپے 662 ارب ریٹائرڈ فوجیوں پر خرچ ہو نگے اگر دفاعی امور کے جنگی اور نان جنگی اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ 4 ہزار ارب تک جا پہنچتے ہیں ایف بی آر نے 12970 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کر نے کا ہدف قائم کیا ہے جو نا ممکن ہے اس کے لیے مزید منی بجٹ آئیں گے تو سمجھ نہیں آرہی ہے کہ 3800 ارب روپے کے ٹیکسوں کے نتیجے میں دودھ، چینی، سیمنٹ، پھل، سبزیاں، ادویات، موبائل فونز، گاڑیاں پٹرولیم پر لیویز بڑھانے کے بعد حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ مہنگائی نہیں ہو گی پہلے ہی لوگوں کی آمدنی اور ضروریات کے مقابلے میں اشیائے ضروریات اور تعلیم، علاج معالجے، کرایہ اور سفر کے آخراجات زیادہ ہیں مگر مسلم لیگ ن کے لوگوں کو یہ بجٹ عوام دوست دکھائی دے رہا ہے تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ساون کے اندھے کو ہر طرف ہرا ہی دکھائی دیتا ہے اس بجٹ میں پنشن میں 15 فیصد اضافے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 27 فیصد اضافے کے علاوہ کچھ بھی قابل تعریف نہیں ہے پنشن لینے والے خوش نصیب ہیں کہ ان پر ٹیکس نہیں لگا ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بیسک پر اضافہ کرکے گراس پر ٹیکس لگا کر اکثر سرکاری ملازمین نے تنخواہوں کا حساب کیا ہے تو پتہ چلا ہے کہ 15000 روپے آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور 22000 ہزار ٹیکس میں اضافہ ہو گیا ہے پرائیویٹ سیکٹر کے افراد کی تنخواہ تو نہیں بڑھی مگر ٹیکس میں اضافہ ہو گیا ہم زیادہ محب وطن پاکستانی بن کر ٹیکس ریٹر میں آمدنی ظاہر کر کے پریشان ہیں کہ فارم 47 والے کہہ رہے ہیں کہ پچاس سال کام کر نے کے بعد اگ آپ کی آمدنی تین سے چار لاکھ ماہوار ہے تو ہمیں اس میں سے 35 سے 45 فیصد جگا ٹیکس دو کیا یہ یورپ کی فلاحی ریاست ہے جو 35 فیصد ٹیکس لینے کے بعد تعلیم، صحت، رہائش اور بیروزگاری میں الاؤنس کی پورے خاندان کو مفت سہولیات دیتی ہیں آیندہ مالی سال میں حکومت 666 ارب کے بیرونی قرضے اور 7803 ارب روپے کے مقامی قرضے لے گی کیونکہ 9775 ارب سود کی ادائیگی اور ہزار ارب روپے کے غیر ترقیاتی اخراجات کے بعد بغیر قرضے لیے ہمارا گزارا نا ممکن ہے ہم ٹیکنیکلی مالی طور پر ڈیفالٹ ہو چکے ہیں اس لیے جو آقا یعنی آئی ایم ایف، چین اور گلف ممالک کہیں گے غلاموں کو Neo colonial میں اس پر عمل کرنا امر مجبوری ہے _سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد بڑھا کر اور جہاں کچھ ضروریات زندگی پر اس کی کم شرح تھی وہ ختم کر دی گئی ہے علاج معالجے کی کٹس اور سرجری پر بھی ٹیکس لگا دئیے گئے ہیں جائیداد کی خرید و فروخت پر 3 سے 5 فیصد فائلرز پر ٹیکس لگانے سے رہیل اسٹیٹ اور تعمیرات کا شعبہ کا کباڑا ہو جائے گا مسلم لیگ ن فائلر، نان اور اب لیٹ فائلر کی بھی مضحکہ خیز اصطلاح متعارف کرا رہی ہے تمام شعبوں میں فائلر اور نان فائلرز کا اطلاق کر دیا گیا میری حکومت کو پر زور سفارش ہے کہ پبلک ٹاہلٹس کے باہر بھی فا ہلر اور نان فاہلر کے الگ الگ ریٹس کا اعلان کرے قبرستان بھی فاہلرز اور نان فاہلرز کے الگ الگ کر دیں 3900 ارب روپے مراعات یافتہ طبقے کے حاضر سروس اور ریٹائرمنٹ کے بعد مراعات میں کوئی کمی نہیں ہے جتنی تنخواہ اور سہولیات اتنی ہی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بلکہ مرنے کے بعد بھی بیوہ بچوں کو 10 سے 20 لاکھ کی مکمل پنشن پلاٹس، مفت بجلی، گیس، ڈرائیور، کار اور سیکیورٹی. عثمان بزادا ر اور عارف علوی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پورے پروٹوکول سے موجیں کر رہے ہیں اور جس کی بدولت انہیں یہ سب کچھ حاصل ہوا ہے وہ قید تنہائی اور اس سیل میں پڑا ہے جہاں سورج کی ایک کرن بھی نہیں جاتی ہے جن لوگوں کو یہ فائیو سٹار سہولیات دکھائی دیتی ہیں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو یہ سہولیات اور عیاشی کی زندگی جلد از جلد عطا کرے ویسے میں بھی ایسے پٹواری سیاست دانوں اور لکھاریوں کے لیے اپنی اور اپنے دوستوں کے بیسمنٹس میں رضاکارانہ نظر بندی کی سہولیات کا بندوبست کر سکتا ہوں آخر میں اس ملک میں عمران خان کی بات کہ عوام بھیڑ ہوتی ہے اس لیے اس کی قربانی جائز ہے جبکہ طاقت حکومتی طبقہ اس جانور کی مانند ہے جس کی قربانی حرام ہے لہذا اس ملک میں 24 کڑور عوام رگریسو ٹیکسو ں کے ذریعے اس ملک کی خون آشام ویمپائرز کو پال پوس رہے ہیں تو کیسے عام لوگوں کو زندگی میں خو شحالی نصیب ہو گی _کوئی کیسے امید فزا ہو سکتا ہے!
اب بوئے گل، نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ