جب قوم کے اندر فرض شناسی اور وَقت کی پابندی کی صفات کمزور پڑ جائیں اور پیسے کا حصول زندگی کا سب سے بڑا مقصد قرار پائے، تو اِجتماعی معاملات میں ہر سُو بگاڑ دکھائی دیتا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی میں ایسے تجزیے پڑھنے اور سننے میں آتے ہیں کہ پورا نظام تلپٹ ہو چکا ہے اور ہر شعبۂ زندگی پوری طرح زوال کی زد میں ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین اور اِقتصادی ماہرین خون منجمد کرنے والی پیشین گوئیاں کرتے رہتے ہیں کہ قرضوں کا جال غلامی کا طوق پہنا دینے والا ہے۔ حالات اگرچہ پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں، مگر کوئی شخص یہ بات مان لینے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ اُس کے ذہن میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ ساری دنیا اُس کی دشمن ہے اور اُس کے اندر معاملات سنبھالنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ ہمیں اِس مایوسی اور دِل شکستگی کی جہنم سے نکلنا اور زِندگی میں اعلیٰ مقاصد کی جوت جگانا ہو گی۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جوت کون جگا سکتا ہے۔ یہ جوت ہماری درخشندہ رِوایات جگا سکتی ہیں۔ اُن عظیم رہنماؤں کے کارناموں کے تذکرے اندھیروں میں اُمید کے چراغ جلا سکتے ہیں جنہوں نے عقلِ سلیم، استقامت اور اِیثار سے کام لیتے ہوئے برِصغیر میں مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کے کلچر میں مدغم ہونے سے محفوظ رکھا اور بےمثال سیاسی اور آئینی جدوجہد کے ذریعے بفضلِ خدا آزادی کی بیش بہا نعمت حاصل کی۔ یہی چراغ جلیں گے، تو دِل اور دِماغ روشن ہونگے اور کم ہمتی اور خودشکستگی کی تمام چٹانیں ریزہ ریزہ ہوتی چلی جائیں گی۔ سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ کی حیاتِ طیبہ اور اَللہ کی آخری کتاب ہمیں ہر آن اللہ کی رحمت پر یقین اور دُنیا اور آخرت میں بھلائی طلب کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ پژمردہ قوم کو ہدایت کے اِنہی سرچشموں کی طرف پوری دلجمعی سے رجوع کرنا ہو گا۔
ہم آج معاشی ابتری کے جس بحران سے دوچار ہیں، اِس کا بڑا سبب چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانا ہے۔ اسلام نے سادگی اور کفایت شعاری کی تعلیم دی ہے اور قناعت کو تقوے کا درجہ عطا فرمایا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑے انقلاب کے عظیم ترین لیڈر حضرت محمد ﷺ کا معیارِ زندگی سادگی اور کفایت شعاری کا اعلیٰ ترین اور بےمثال نمونہ تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اُن کے ہاں فاقے رہتے اور اُن کا رہن سہن حددرجہ سادہ تھا۔ آپؐ نے اپنے پیروکاروں میں اعلیٰ نصب العین کے حصول کا ایک ایسا جذبہ پھونک دیا تھا کہ وہ مادی منفعتوں سے بہت بلند ہو گئے تھے۔ خاکسار نے اِس عظیم جذبے کی کی ایک شعر میں یوں صورت گری کی تھی ؎
اِک جذبِ حصولِ مقصد نے یوں حرص و ہوا سے پاک کیا
ہم وقت کے آگے جھک نہ سکے ، ہم وقت کی رو میں بہہ نہ سکے
اسلامی تعلیمات نے اِس ذہن کی آبیاری کی کہ آپ اللہ تعالیٰ کی جو جو نعمتیں استعمال کریں گے، اُن کا حساب لیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میری والدہ محترمہ وضو کرتے ہوئے اِس امر کا خاص خیال رکھتی تھیں کہ پانی ضائع نہ ہونے پائے اور ہر شے کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لیا جائے۔ آج کے اعصاب شکن حالات ہم سے پہلا تقاضا یہی کرتے ہیں کہ ہم آمدنی کے اندر رَہ کر زندگی بسر کرنے کی روش اپنائیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ آمدنی میں سے بھی کچھ پس انداز کر لیا جائے۔ اگر آپ کامل شعور کے ساتھ سادگی اپنانے کا چلن اختیار کر لیتے ہیں، تو آپ کے معاشی مسائل فوری طور پر کم ہونا شروع ہو جائیں گے۔ حکومت کی سطح پر بھی یہی رویہ بڑی بڑی مشکلات پر قابو پانے کی ضمانت ثابت ہو گا۔ دراصل ہماری اشرافیہ نے عوام کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ وَسائل پر شاہ خرچیوں کو اَپنا حق سمجھ لیا ہے، چنانچہ حکومت کے اخراجات پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ احتساب کا نظام خطرناک حد تک غیرمؤثر ہے۔ خدا خوفی رخصت ہوتی جا رہی ہے۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ہمارے حکمران طبقے، جج صاحبان اور اَعلیٰ فوجی افسر ہزاروں اربوں کی مراعات سے فیض یاب ہو رہے ہیں اور کھربوں روپے خسارے میں ڈوب رہے ہیں۔ وسائل کے اِس ہولناک ضیاع کی اگر پوری طرح روک تھام کر لی جائے، تو یقینی طور پر معاشی استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ اِس مقصد کے لیے خوداِحتسابی کے جذبے کو فروغ دینا اور اِسے پوری قومی زندگی میں رائج کرنا ہو گا۔گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کی کوششوں سے ہمارے معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں اور وہ شعبے اُبھر کر سامنے آئے ہیں جہاں سے آمدنی کے ذرائع فوری طور پر بہتر ہو سکتے ہیں۔ قومی اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں نے گزشتہ مالی سال میں 3.2؍ارب ڈالر سے زائد زرِمبادلہ ارسال کیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہماری حکومت اور ہمارے سفارت خانے اوورسیز پاکستانیوں کے معاملات میں پوری طرح دلچسپی لیں، اُن کے جائز مطالبات پورے کیے جائیں اور اُن کی صلاحیتوں کو جِلا دینے کے لیے قابلِ قدر انتظامات بروئےکار لائے جائیں، تو اِن ترسیلات میں تیزی سے اِس قدر اِضافہ ہو سکتا ہے کہ ہماری معیشت کو سنبھالا مل جائے۔ اِسی طرح دوسری حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ اِس سال اقتصادی شرح نمو میں جو اِضافہ ہوا ہے، اُس میں زرعی شعبے کا حصّہ قابلِ ذکر ہے، چنانچہ صوبائی اور وَفاقی حکومتوں پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ زرعی شعبے پر خصوصی توجہ دیں اور کسانوں کے حالات بہتر بنانے کو اَپنی اوّلین ترجیحات میں شامل کریں۔ مسلم لیگ نون کے صدر جناب نوازشریف اور پنجاب کی وزیرِاعلیٰ محترمہ مریم نواز نے اِس ضمن میں سو دنوں کے اندر اَچھے اقدامات کیے ہیں اور کسان کارڈ بھی جاری کیا ہے۔ اِن اقدامات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ زرعی شعبہ سالہاسال سے نظرانداز ہوتا رہا ہے۔ دراصل ہمارے دیہات ابھی تک جدید انفراسٹرکچر سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ وہاں جس قدر زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں گی، اُن سے قومی دولت میں خاطرخواہ اِضافہ ہو گا۔ پس ماندہ طبقات کی زندگی میں بہتری لانے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ سرکاری اسکول اور اَسپتال کم سے کم وقت میں اچھے اداروں میں تبدیل کر دیئے جائیں اور پوری سرکاری مشینری کو تعلیم اور صحت پر مرکوز کر دیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ