پاکستان ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پربین الاقوامی عدالتِ انصاف سے مشاورتی رائے حاصل کرے،آئی پی ایس کشمیر ورکنگ گروپ کی سفارشات


اسلام آباد(صباح نیوز)ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیرمیں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اوربڑھتے  ہوئے ہندوتوا فاشزم  کے ساتھ ساتھ حالیہ ہندو آبادکاری  اور کشمیر کی ثقافت پر حملے، جن کا اظہار انتخابی حلقوں کی حد بندی کمیشن کے قیام جیسے اقدامات سے واضح ہے،کشمیر کی سیاست میں مسلم اثرو رسوخ کو مزید سکیڑنے کے ہتھکنڈے ہیں، اور مذکورہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ پاکستان ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیرکی صورت حال پر مشاورتی رائے کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کرے۔ یہ وہ کلیدی سفارشات تھیں جو  انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز  اسلام آباد(آئی پی ایس )کے ورکنگ گروپ آن کشمیرکے اجلاس میں کی گئی۔

اجلاس میں  شریک ماہرین نے ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیرکی صورت حال پر تبادل خیال کیا، جس میں بھارت کی ہٹ دھرمی ، سید علی گیلانی کے بعد کل جماعتی حریت کانفرنس کے مستقبل اور مسلح جدوجہد کے احیاء سمیت دیگر پہلووں  کا احاطہ کیا گیا۔ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز(کے آئی آئی آر)کے چیئرمین الطاف وانی اجلاس کے مرکزی مقرر تھے  ،

اجلاس کی  صدارت  چیئرمین آئی پی ایس  خالد رحمن نے کی جبکہ فرزانہ یعقوب، سابق وزیرآزاد جموں و کشمیر او رجنرل سیکرٹری آئی پی ایس ورکنگ گروپ آن کشمیرنے  نظامت کے فرائض ادا کیے۔ اجلاس کے دیگر شرکا ء میں ایمبیسیڈر(ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین آئی پی ایس، افتخار گیلانی، انقرہ میں مقیم سینئر کشمیری صحافی، ایمبیسیڈر (ر)سید اشتیاق حسین اندرابی اور ایڈوکیٹ ناصر قادری، بانی لیگل فورم فار دی اوپریسڈ وائسز آف کشمیر(ایل ایف او وی کے)شامل تھے۔

الطاف وانی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بی جے پی حکومت نے ان ہندوستانیوں کو 3.8 ملین نئے ڈومیسائل دیے ہیں جو اس خطے سے تعلق نہیں رکھتیاوریہ موجودہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

انہوں نے بھارتی حکومت پرنئیسفاکانہ قانون کے تحت مقبوضہ علاقے میں آبادکاری کا طریقہ کار متعارف کروانے پر بھی تنقید کی جس کے تحت بھارتی افواج نے سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے نام پر پہلے ہی کئی ہیکٹر اراضی پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیرکے لوگوں کو جس ثقافتی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے الطاف  وانی کا خیال تھا کہ بی جے پی حکومت وادی کے ثقافتی رخ کو تبدیل کرنے کی دانستہ کوشش کر رہی ہے، جس کی حقیقت اس بات سے عیاں ہے کہ اب سرکاری زبان  اردو کی جگہ پر ہندی کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح میڈیا اور پریس کو مسخر کرنا، کشمیریوں کے لیے دستیاب سیاسی جگہ کو چھیننا اور کشمیری سیاسی قیادت کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا کشمیری مسلمانوں کو ان کے روزگار، گھر، زمین اور آزادی سے محروم کرنے کی کارروائیوں کا حصہ  ہے۔ شرکا نے ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیرمیں بھارت کی بڑھتی ہوئی بربریت اور بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کی موت کے بعد وادی میں بڑھتے ہوئے سیاسی خلاء پر تشویش کا اظہار کیا۔

حد بندی کمیشن کے طریقہ کار کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے مقررین نے اس  کے کام کو کشمیری سیاسی قیادت کے لیے اپنے سیاسی حقوق کے استعمال اور بھارت کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے پہلے سے موجود سیاسی جگہ کو مزید کم کرنے کی کوشش قرار دیا۔ مقررین نے خدشہ ظاہر کیا کہ 2022 میں تجویز کردہ حد بندیوں سے ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیرمیں  بی جے پی کے زیر تسلط ہندو راج کی راہ مزید ہموار ہو جائے گی کیونکہ کمیشن کے فیصلے کو بھارت کی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔