چیف جسٹس پاکستان، قادیانی مبارک ثانی کیس میں قرآن و سنت سے متصادم فیصلہ کیخلاف اپیل کا بلاتاخیر فیصلہ کریں،لیاقت بلوچ


لاہور(صباح نیوز) نائب امیر جماعتِ اسلامی، ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ قادیانی مبارک ثانی کیس میں قرآن و سنت سے متصادم، غیرآئینی، غیرقانونی فیصلہ کے خلاف نظرثانی اپیل کا بلاتاخیر فیصلہ کریں، غیرشرعی فیصلہ کو واپس لینے میں مسلسل تاخیر سے مسلمانوں میں بڑا اضطراب پیدا ہورہا ہے۔

ملی یکجہتی کونسل کی مرکزی مجلسِ عاملہ کا اجلاس 11 مئی 2024 کو اسلام آباد میں طلب کرلیا گیا ہے۔ عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے وفد نے لیاقت بلوچ سے ملاقات کی اور 8 مئی کو لاہور میں آل پارٹیر اجلاس کا دعوت نامہ دیا۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ قادیانی مبارک ثانی کیس پر تمام مسالک کی دینی جماعتیں عقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ اور اسلامی قوانین کے خلاف کسی بھی اقدام کے سدِباب کے لیے متحد اور یک آواز ہیں۔

لیاقت بلوچ نے کِسان بورڈ کے مرکزی قائدین کے وفد اور کِسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر کے کِسانوں،ہاریوں، زمینداروں نے بھرپور محنت کی۔ اللہ کی تائید کے ساتھ تقریبا 3 کروڑ ٹن کی بمپر فصل تیار ہوئی لیکن حکومت، کاروباری مافیاز اور بیوروکریسی کے شیطانی گٹھ جوڑ نے کِسان اور زراعت کو تباہ کردیا ہے۔ سندھ حکومت نے سرکاری ریٹ پر گندم خریداری 4000 روپے پنجاب، خیبرپختونخوا حکومت نے 3900 روپے اور بلوچستان حکومت نے 4300 روپے فی من مقرر کیا لیکن گندم امپورٹ کرنے کے ہولناک، زراعت کِسان دشمن اقدام کے ساتھ سرکاری ریٹ پر گندم خرید نہیں کی جارہی۔ باردانہ فراہم نہیں ہورہا اور مفاد پرست مافیاز اونے پونے داموں گندم خرید رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مجرمانہ روِش کے ساتھ جان بوجھ کر گندم خریداری کے فیصلہ میں تاخیر کررہی ہیں، حکومتیں بِلاتاخیر کِسانوں سے سرکاری ریٹ پر گندم خریداری کریں۔ کِسانوں کو ریلیف صرف اِسی میں ہے کہ ان کی محنت ضائع نہ ہونے دی جائے اور وفاقی اور پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا حکومتیں اپنا مجموعی ہدف 78 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کا پورا کریں۔ وگرنہ زراعت اور کِسان تو تباہ ہوگا ہی لیکن حکومت کو بھی بڑی عوامی مزاحمت کا سامنا دکرنا ہوگا۔ نائب امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ریاستی طاقت سے کِسان احتجاج کا خاتمہ اور تباہی لائے گا، حکمران ہوش کے  ناخن لیں،بیرونی سرمایہ کاری لانے کی کوششیں اندرونی عدم استحکام، حکومتوں کے غیرحکیمانہ روِش کی موجودگی میں شرمندہ تعبیر نہیں ہونگی۔