اسلام آباد(صباح نیوز) وفاقی حکومت کی سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نئے تحقیقاتی ادارے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی’ کے سربراہ ڈائریکٹر جنرل کوانسپکٹر جنرل پولیس کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نئی ایجنسی وفاقی وزارتِ داخلہ ماتحت ہوگی نئی ایجنسی فوری طور پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے وسائل، انفراسٹرکچر اور ملازمین کے ساتھ کام کرے گی۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی سائبر کرائم کے مقدمات کی تحقیقات کرے گی اور ایف آئی اے سائبر ونگ کے پاس سائبر کرائم کی تمام انکوائریاں، تحقیقات، اثاثہ جات، رائیٹس، پرولیجز نئی قائم کی گئی ایجنسی کو منتقل ہوں گے۔نئی ایجنسی ڈائریکٹر جنرل، ایڈیشنل ڈائریکٹرز جنرل، ڈائریکٹرز، ایڈیشنل ڈائریکٹرز، ڈپٹی ڈائریکٹرز، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز، اور ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے متعین کردہ افسران پر مشتمل ہو گی۔ ایجنسی کے سربراہ یعنی ڈائریکٹر جنرل کو دو سال کی مدت کے لیے مقرر کیا جائے گا جب کہ کارکردگی کی بنیاد پر ڈائریکٹر جنرل کی مدتِ ملازمت میں مزید دو سال کی توسیع کی جاسکے گی۔وفاقی حکومت ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر ایسا افسر تعینات کرے گی جو کم سے کم 21 گریڈ کا افسر یا 63 برس سے کم عمر ہو۔
نئی ایجنسی کے سربراہ کے لیے کم سے کم 15 برس کا کمپیوٹر سائنس، ڈیجیٹل فرانزک، سائبر ٹیکنالوجی، قانون، پبلک ایڈمنسٹریشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تجربے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل 65 برس کی عمر تک پہنچنے پر یا تقرری کی مدت مکمل ہونے تک عہدے پر فائز رہ پائیں گے جب کہ انہیں پولیس آرڈر 2002 کے تحت صوبے کے آئی جی کو حاصل اختیارات کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے۔تفتیشی افسر اور اس کے ماتحت دیگر افسران پولیس آرڈر 2002 کے تحت ادارے میں خدمات انجام دیں گے۔
نوٹی فکیشن کے مطابق ایف آئی اے کے سائبر ونگ کے ملازمین ڈپوٹیشن پر نیشنل سائبر کرائم ایجنسی میں کام کریں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کا نوٹی فکیشن 24 اپریل کو جاری ہوا تھا لیکن 29 اپریل کو گزٹ آف پاکستان میں شائع ہوا تھا۔یاد رہے سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نئی ایجنسی کا قیام پریونشن آف الیکٹرانک کرائم (پیکا) ایکٹ 2016 کے تحت عمل میں لایا گیا ہے ۔ اسی ایکٹ کے تحت ماضی میں سائبر کرائم کی تحقیقات کے اختیارات ایف آئی اے کو دیے گئے تھے۔