گزشتہ سال میڈیا پر پابندیوں کے حوالے سے بدترین سال ثابت ہوا

کراچی( صباح نیوز)کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)کی پریس فریڈم اینڈ مانیٹرنگ کمیٹی کی مرتب کردہ میڈیا فریڈم رپورٹ برائے سال 2023 اور 2024 جاری کردی گئی، جس کے مطابق گزشتہ سال میڈیا پر پابندیوں کے حوالے سے بدترین سال ثابت ہوا ،چار صحافیوں کے قتل سمیت میڈیا کارکنوں پر ہونے والے تشدد، جبر اور جان لیوا حملوں کے گھنائونے واقعات پیش آئے۔ صحافیوں کے خلاف مقدمات اور گرفتاریاں ، صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں انہیں اغوا کیا گیا ، خواتین صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی گئی ،

میڈیا کے اداروں اور اینکرز پر سنسر شپ اور مختلف پابندیاں لگائی گئیں ، X کو پاکستان میں بند کر دیا گیا۔ 8فروری کو ہونے والے جنرل الیکشن میں انٹرنیٹ اور فون کی بندش سے عوام تک حقائق پہنچانے میں رکاوٹ ڈالی گئی ۔پاکستان میں میڈیا انتہائی خوف اور گھٹن کے ماحول میں کام کر رہا ہے ، آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ہر شہری کو آزادی اظہار اور رائے کے اظہار کا حق ہے لیکن کب کوئی صحافی اظہار آزادی رائے یا خبر کی بنیاد پر اغوا ء یا گرفتار کر لیاجائے تو کوئی نہیں جانتا۔حکومت صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔پاکستان آزادی اظہار کی عالمی درجہ بندی میں 150ویں نمبر پر قرار دیا گیا ہے مگر میڈیا کارکنوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ تاحال رک نہیں سکا ہے۔یہ رپورٹ سی پی این ای میں قائم میڈیا مانیٹرنگ ڈیسک نے براہ راست موصول شدہ اطلاعات نیز مختلف ذرائع ابلاغ، اخبارات اور نیوز ویب سائٹس سے حاصل شدہ معلومات اور اعداد وشمار کی بنیاد پر جانچ پڑتال کے بعد مرتب کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق یکم جنوری 2023 سے 30اپریل 2024 کے دوران 28سے زائد واقعات میں 13صحافیوں پر تشدد، 02صحافیوں پر حملے اور 10صحافیوں کی گرفتاریاں اور ان پر مقدمات قائم کیئے گئے۔ 04صحافی قتل ہوئے جن کے مقدمات تاحال عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، جبکہ عدم تحفظ، جان لیوا دھمکیوں اور طاقتور حلقوں کا دبا ئوبرداشت نہ کرنے کے باعث کئی صحافی بیرون ملک منتقل ہوئے اور نہ صرف بیرون ملک منتقل ہوئے بلکہ ان ممالک میں بھی اپنی پہچان مخفی رکھنے اور دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔مقتول صحافیوں میں کے ٹی این کے رپورٹر جان محمد مہر کے قتل میں قاتل باقاعدہ ریاست کی رٹ کو للکار کر چیلنج کررہے ہیں اور پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ اسی طرح سماء کے رپورٹر امتیاز بیگ کا پراسرار قتل بھی اہل خانہ کی مدعیت میں محض حادثہ قرار دے دیا گیا۔ غلام اصغر کھنڈ کے ایک قاتل کوگرفتار کرنے باوجود خیر پور پولیس واقعہ کی اصل وجوہات معلوم کرنے میں تاحال ناکام ہے اور خان پور، پنجاب میں قتل ہونے والے صغیر احمد لاڑ کے قتل کے محرکات بھی تاحال سامنے نہ آسکے ہیں۔

اس صورتحال کے باوجود حکومت، جس کی ذمہ داری تھی کہ میڈیا کو کام کرنے کے لئے آزاد، پابندی سے محفوظ ماحول فراہم کرے مگر اس کے برعکس ریاست کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں اور آزادی اظہار رائے کو محدود کرنے کے لئے غیر قانونی اقدامات کا سہارا لیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صحافیوں کے لئے فرائض کی انجام دہی کو مشکل ترین بنا دیا۔یکم جنوری 2023 تا 30 اپریل2024 کے دوران آزادی اظہار کی پاداش میں صحافیوں پر دھمکیوں اور حملوں کے واقعات سے پاکستان میں رائج جمہوریت کے دعوے غلط ثابت ہوئے اور یہ واقعات ملک میں صریحا آمرانہ روش کے عکاس ہیں۔ نگران حکومت کے دور میں کراچی میں صحافیوں کو اغوا کرکے من پسند رپورٹنگ کے لیے دبائو ڈالا جانا اور انہیں ہراساں کیا جانا آزادی اظہار رائے اور عوام تک اطلاعات کی شفاف رسائی کے آئینی حق کی صریحا خلاف ورزی ہے۔

اس کے علاوہ صحافیوں کو میڈیا مالکان، انتظامیہ اور پیمرا کی جانب سے بھی سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔سال 2023اور2024کے ابتدائی چارماہ کے دوران اخبارات و جرائد کو اشتہارات کے حجم میں کمی اور واجبات کی ادائیگیوں میں غیر ضروری تاخیر اور غیر شفافیت پر مبنی حربے استعمال کرکے دبائو میں لیا جاتا رہا۔اگرچہ 2023 میں ختم ہونے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں اخبارات و جرائد کے اشتہارات کے نرخ میں 35 فیصد اضافے کی سمری کی منظوری دی تھی تاہم اس کے بعد آنے والی نگران حکومت نے لیت ولعل سے کام لیتے ہوئے اگلے چھ ماہ گزار دیے اور اپنی پیشرو حکومت کے اقدام کا اطلاق نہیں کیا، جس کی وجہ سے میڈیا اداروںبالخصوص پرنٹ میڈیا کے صحافی اور دیگر عملہ تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں سمیت مختلف پریشانیوں کا شکار رہے،

دنیا اخبار سمیت کئی دیگر اخبارات کو کئی اسٹیشنوں سے بند کردیاگیا اور بہت سے بے روزگار صحافی کسی دوسرے پیشے سے وابستہ ہونے پر مجبور ہوگئے۔خیبر پختونخوا میں سرکاری اشتہارات کے واجبات کی ادائیگیاں دہائیوں سے تعطل کا شکار ہیں، پنجاب میں اخباری اشتہارات کی ادائیگیوں کے لیے تاحال سی پی این کے مجوزہ 85:15کے کلیے کا اطلاق نہیں ہوسکا ہے۔ سندھ میں نگران حکومت نے اشتہارات کے واجبات کی ادائیگیوں کے سلسلے میں 2 ارب روپے جاری کیے جبکہ پرنٹ میڈیا کے حصہ میں صرف 15 سے16کروڑ روپے آئے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق ہیں تاہم بلوچستان میں 2024 میں اخبارات کے اشتہارات کے نرخ میں اضافہ اور واجبات کی ادائیگیاں شروع کردی گئیں جو ایک خوش آئند امرہے اور اس نظیر کو دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی اپنانا چاہئے۔پاکستان میں جنوری 2024 میں عام انتخابات کے موقع پر میڈیا کے لیے کام کرنے کے لیے آزاد ، پابندی سے پاک محفوظ ماحول کی ضرورت تھی۔

پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا کے پیشہ ور افراد کو تشدد، دھمکیوں ، ریاست کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں، یا آزادی اظہار کو محدود کرنے کے لیے قانونی اقدامات کے خوف کے بغیر آئندہ عام انتخابات بشمول انتخابات سے پہلے کی مدت کی کوریج کرنے کے قابل بنانے کی ضرورت تھی لیکن نہ صرف ان تمام اقدامات سے صرف نظر کیا گیا بلکہ عین الیکشن کے دن سیکیورٹی کو وجہ قرار دیتے ہوئے نگران حکومت نے پورے ملک میں انٹرنیٹ بند کردیا۔ماضی میں آزادی صحافت کو سلب کرنے کے نتائج سقوط ڈھاکہ اور اسی نوعیت کے سانحات کی صورت میں برآمد ہوئے تھے لہذا حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ میڈیا کی آواز دبانے کی بجائے میڈیا کی نشاندہی اور تجاویز پر توجہ دی جائے تاکہ جمہوریت کا فروغ اور آزاد رائے عامہ عوامی فلاح کی خاطر بحال ہونے کے ساتھ ملک سلامتی، یکجہتی اور حفاظت کو یقینی بنایا جا  سکے۔

ملک میں رائے کے اظہار کی آزادی اور سیاسی منظر نامے میں موجود حکومت کو جمہوریت اور معیشت کے استحکام کے ساتھ ساتھ ریاست کے اہم ستون میڈیا کی آزادی کا احترام کرتے ہوئے میڈیا اداروں اور صحافیوں کو دبائومیں لانے یا ہراساں کرنے کی بجائے ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس ساری صورت حال میں سی پی این ای میڈیا کارکنان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کی فلاح کے لئے ہر آئینی اقدام کرنے کا اعادہ کرتی ہے۔ آزادی صحافت اور آزادی اظہار پاکستان کے عوام کا آئینی اور جمہوری حق ہے جس پر کوئی دبائو  برداشت کیا جائے گانہ اس کے دفاع اور تحفظ پر کوئی سمجھوتا کیا جائے گا۔