منشیات برآمدگی کیسز میں پراسیکیوشن جلد چالان جمع کروایا کرے، چھ ماہ لگادیتی ہے، ایسے کیسز میں دو تو گواہ ہوتے ہیں،سپریم کورٹ

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیا ہے کہ کیا یہ عجیب نہیں کہ ایف آئی اے منی لانڈرنگ میں ملوث ملزم ہی سے تفصیلات پوچھ رہی ہے ، اپنی بھی تحقیقات ہوتی ہیں یا سارا کچھ ملزم سے ہی اس کے خلاف مانگ رہے ہیں، پھر آپ کاکیا کام ہے، آپ تونیب والا کام ہی کررہے ہیں، اگر درخواست گزار اپنے خلاف ثبوت فراہم نہیں کرتیں توپھرتووہ بری ہوجائیں گی، کیا ملزم سے کہیں گے کہ اپنے خلاف ساری گواہیاں لائو اورمیں دفتر میں بیٹھ کر تحقیقات کروں گا، یہ سی آرپی سی اور آئین میں دیئے گئے طریقہ کار کے خلاف ہے۔جبکہ عدالت نے قراردیا ہے کہ منشیات برآمدگی کیسز میں پراسیکیوشن جلد چالان جمع کروایا کرے، چھ ماہ لگادیتی ہے، ایسے کیسز میں دوتوگواہ ہوتے ہیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جب ملزم جرم کرے گاتوپانچ ماہ سے زائد بھی جیل میں گزارلے گا۔

سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر میں مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے ڈائریکٹر ٹرانسپورٹ اینڈماس ٹرانزٹ، خیبرپختونخوا، پشاور اوردیگر کی جانب سے سروس ریگولرائزیشن کے معاملہ پر سیف الرحمان کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس عائشہ اے ملک کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل الیاس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب ملازم کنٹریکٹ پر تھا تو ٹھیک تھا اور جب مستقل کرنے کی باری آئی تو اس میں خامیاں نظر آگئیں، اپنا گھر درست کریں ہمارے سامنے اپنی مجبوریاں بیان نہ کریں۔ عدالت نے قراردیا کہ مدعا علیہ ریگولرائزیشن کا حقدار ہے۔

عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے سلطان کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوااوردیگر کے توسط سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کلاشنکوف کے 52خول واقعہ کی جگہ سے برآمد ہوئے، درخواست گزار نے تین برسٹ مارے، کیا درخواست گزار نے اتنی گولیاں نشانہ ٹھیک کرنے کے لئے چلائیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ تین مرتبہ ملزم نے فائر کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ جب ملزم جرم کرے گاتوپانچ ماہ سے زائد بھی جیل میں گزارلے گا۔ عدالت نے وکیل کی جانب سے زورنہ دینے کی بنیاد پر درخواست خارج کردی۔عدالت نے قراردیا کہ ٹرائل کورٹ تیزی سے ٹرائل مکمل کرے اور فریقین میں سے کسی کو بھی غیر ضروری التوانہ دے۔ بینچ نے اینٹی منی لانڈرنگ کیس میں مطلوب طاہرہ صداقت کی جانب سے ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار خاتون خود عدالت میں موجود تھیں جبکہ سرکاری وکیل اور ایف آئی اے حکام بھی عدالت میں موجود تھے۔

درخواست گزار کے وکیل نے التواء کی درخواست دائر کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اینٹی منی لانڈرنگ کا کیس ہے اورساراخاندان ملوث ہے۔ جسٹس عائشہ ملک کا ملزمہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ تفتیش میں شامل ہوئی ہیں کہ نہیں۔ اس پر سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ شامل نہیں ہوئیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ ملزمہ ضمانت کا غلط استعمال کررہی ہیں ، سوالوں کا جواب کیوں نہیں دیا۔ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزمہ نے بیرون ملک اقامہ حاصل کیا ہوا ہے اورجائیدادیں بنائی ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ملزمہ سے سوال کیا کہ وہ پاسپورٹ اوردیگر مطوبہ دستیاویزات کیوں ایف آئی اے کوفراہم نہیں کررہیں۔ ملزمہ کا کہنا تھا کہ اس کا پاسپورٹ دوران سفر ٹرین سے گم ہو گیا۔ اس پر جسٹس عرفان سعادت خان نے ملزمہ سے استفسار کیا کہ آپ نے پاسپورٹ گم ہونے کی ایف آئی آر کٹوائی ، کیا ٹرین میں تھانہ ہوتا ہے، ہم آپ کی ضمانت خارج کریں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا درخواست گزار خاتون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئندہ سماعت پر اپنے وکیل کو بلوالیں۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیا یہ عجیب نہیں کہ ایف آئی اے ملزم ہی سے تفصیلات پوچھ رہی ہے ، اپنی بھی تحقیقات ہوتی ہیں یا سارا کچھ ملزم سے ہی اس کے خلاف مانگ رہے ہیں، پھر آپ کاکیا کام ہے، آپ تونیب والا کام ہی کررہے ہیں، اگر درخواست گزار اپنے خلاف ثبوت فراہم نہیں کرتیں توپھرتووہ بری ہوجائیں گی، کیا ملزم سے کہیں گے کہ اپنے خلاف ساری گواہیاں لائو اورمیں دفتر میں بیٹھ کر تحقیقات کروں گا، یہ سی آرپی سی اور آئین میں دیئے گئے طریقہ کار کے خلاف ہے۔عدالت نے ایف آئی اے حکام کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت رپورٹ جمع کروائیں۔ عدالت نے خاتون ملزمہ کو ہدایت کی کہ وہ تحقیقات میں تعاون کریں اوروکیل پیش ہوکردلائل دیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ خاتون درخواست گزار کراچی سے اسلام آباد آنے کی بجائے ویڈیو لنک کے زریعہ کراچی رجسٹری سے بھی پیش ہوسکتی ہیں۔ عدالت نے بعدازاں ملزمہ کی ضمانت قبل ازگرفتاری میں آئندہ سماعت تک توسیع کرتے ہوئے سماعت 25پریل تک ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ نے منشیات برآمدگی کیس میں گرفتار ملزم قیصر یونس کی ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔ ملزم کی جانب سے محمد سہیل ڈار بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے استفسار کیا کہ 1380گرام منشیات برآمدگی پر کتنی سزاہے، فرد جرم عائد ہوئی کہ نہیں، منشیات کیسز میں توگواہ ہوتے ہیں جلدی ٹرائل ختم ہوجاتاہے،ریکوری ہوئی ہے ٹرائل کورٹ کاآرڈر بھی واضح ہے،ہم کہہ دیتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ جلد فرد جرم عائد کرکے ٹرائل ختم کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن جلد چالان جمع کروایا کرے، چھ ماہ لگادیتی ہے، ایسے کیسز میں دوتوگواہ ہوتے ہیں۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ کو ٹرائل جلد مکمل کرنے اورفریقین کو غیر ضروری التوانہ دینے کی ہدایت کرتے ہوئے ملزم کی درخواست ضمانت خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے انسپیکٹر جنرل پنجاب پولیس کی جانب سے مرحوم اے ایس آئی وارث علی کے خلاف دائر درخواست منظور کرتے ہوئے سروسز ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قراردے دیا۔ عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے قراردیا کہ تفصیلی وجوبات بعد میں جاری کی جائیں گی۔