خیبرپختونخوا ایچ ای سی میں ڈائریکٹر کی تعیناتی کا معاملہ ، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری ایچ ای سی سے پالیسی طلب


 اسلام آباد(صباح نیوز) سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)میں ڈائریکٹر کی تعیناتی اور ٹرانسفرکے معاملہ پر چیف سیکرٹری اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کمیشن سے دو ہفتوں میں پالیسی طلب کرلی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ڈائریکٹرہائر ایجوکیشن کمیشن( ایچ ای سی) خیبرپختونخواکے عہدے میں کیا کشش ہے کہ درخواست گزاراورمدعا علیہ سب آنا چاہتے ہیں، بڑے ، بڑے وکیل بھی آرہے ہیں ،ڈائریکٹرشپ کا چارم کیا ہے ، جب نگران حکومت تھی تو الیکشن کمیشن بینچ میں پڑرہاہے ، الیکشن کمیشن کے پاس اورکوئی کام نہیں تھا، الیکشن کمیشن کو جواب دینا چاہیے تھا کہ منتخب حکومت آکرمعاملہ دیکھ لے گی۔ جب جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آیا توبہت سے افسران فائلوں پر دستخط نہیں کرنا چاہتے تھے ،اس لئے کپیٹنٹ اتھارٹی کے لفظ کا استعمال شروع ہوا ۔انگریزی بڑی اچھی لکھتے ہیں یہ نہیں بتاتے کہ کس کاحکم آیا ہے، وزیر کاحکم آیا ہے یا وزیر اعلیٰ کا حکم آیا ہے، کمپیٹنٹ اتھارٹی کون ہے،کمپیٹنٹ اتھارٹی کا عہدہ اورنام بتائیں۔ سیکرٹری سفارش کرے ، وزیر اعلیٰ اوپر سے حکم کرتا ہے، سمری لادواورتعینات کردو، سمری منگوانے کی کیوں زحمت کرتے ہیں، براہ راست ہی تعیناتی کردیں اس سے افسرن کاوقت بھی بچے گا، ایسے گورننس تونہیں ہوگی۔ حکومت بیوروکریٹس کو شٹل کاک کی طرح ٹریٹ کرتی ہے، سنبھل نہیں پاتاتواس کاتبادلہ کردیتے ہیں۔ اوپر سے حکم آجاتا ہے، ایسے اقدام بیوروکریسی کوتباہ کردیں گے، کبھی نیچے سے حکم آجاتا ہے اورکبھی اوپر سے حکم آجاتا ہے۔ میں اگر پروفیسر ہوتاتو پڑھانے کو ترجیح دیتا،حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم نے غلطی کی ہے، یہ بڑی بات ہے کہ سرکار نے غلطی تسلیم کی ہے، سرکاری بدلی بھی نہیں وہی سرکار ہے جبکہ عدالت نے خیبرپختونخوا ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)میں ڈائریکٹر کی تعیناتی اور ٹرانسفرکے معاملہ پر چیف سیکرٹری اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کمیشن  سے دو ہفتوں میں پالیسی طلب کرلی۔

عدالت نے قراردیا ہے کہ بتایا جائے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں ڈائریکٹر کی تعیناتی کی سمری کے لئے نام دینا وزیر اعلیٰ کا اختیار ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ڈائر یکٹر ایچ ای سی خیبرپختواکی تعیناتی کے معاملہ پر حکومت خیبرپختونخوا کی جانب سے چیف سیکرٹری اوردیگر کے توسط سے پروفیسر خورشید احمد اوردیگر جبکہ پروفیسر ڈاکٹر فرید اللہ شاہ کی جانب سے چیف سیکرٹری کے پی کے توسط سے خیبرپختونخواحکومت ، پشاوراوردیگر کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ کے پی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس ، پروفیسر فرید اللہ شاہ کی جانب سے سینئر وکیل سید قلب حسن اور پروفیسر خورشید احمد کی طرف سے شمائل احمد بٹ بطور وکیل پیش ہوئے۔ جبکہ پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیع نے ذاتی طور پر پیش ہوکر فریق بننے کی درخواست کی جوبینچ نے منظور کر لی اورانہیں فریق بننے کی اجازت دے دی۔

سید قلب حسن نے کہا کہ میری ڈائریکٹر ایچ ای سی کے طور پر تعیناتی ہوئی ہے اوراسے سروسز ٹربیونل میں چیلنج کیا گیا اورٹریبونل نے کہا ہے کہ غلط تعیناتی ہوئی ہے، میرے مئوکل چھ سال پشاور کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر رہے اور چارماہ حیات آباد کالج میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیں۔ چیف جسٹس نے کہا  کہ اتنے پروفیسر ہیں توبچوں کو تعلیم کیوں نہیں دینا چاہتے، کیوں بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا چاہتے ہیں، موقع ہی نہیں دیا کہ بچے آپ کے علم سے مستفید ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایچ ای سی کام توایک بابو کاکام ہے، درخواست گزار کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی کہ صرف چار ماہ پروفیسر رہے، میں اگر پروفیسر ہوتاتو پڑھانے کو ترجیح دیتا، ہم آپ کا نقصان نہیں ہونے دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت بیوروکریٹس کو شٹل کاک کی طرح ٹریٹ کرتی ہے، سنبھل نہیں پاتاتواس کاتبادلہ کردیتے ہیں، تین سال بعد آپ کاتبادلہ کردیں، کوئی بدنیتی دکھائیں، حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم نے غلطی کی ہے، یہ بڑی بات ہے کہ سرکار نے غلطی تسلیم کی ہے، سرکاری بدلی بھی نہیں وہی سرکار ہے۔ سید قلب حسن نے کہا کہ ملزمان نے توپہلے لکھ کردیا ہوتا ہے کہ جہاں تبادلہ کریں گے وہ جائیں گے،مدعا علیہ 6سال سے ایچ ای سی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس  نے کہا کہ ایچ ای سی خیبرپختونخوا میں کیا کشش ہے کہ درخواست گزاراورمدعا علیہ سب آنا چاہتے ہیں۔

شمائل احمد بٹ نے کہا کہ مرحوم نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے لکھا کہ مجھے تومدت کا پتا ہی نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈائریکٹرشپ کا چارم کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن بیچ میں آگیا۔ اس پر وکیل  نے کہا کہ نگران حکومت تبادلہ نہیں کرسکتی تھی اس لئے الیکشن کمیشن بیچ میں آیا ۔ سید قلب حسن نے کہا کہ میرے مو کل کے تبادلہ کی الیکشن کمیشن نے منظوری دی۔ چیف جسٹس نے کہا  کہ جب نگران حکومت تھی تو الیکشن کمیشن بینچ میں پڑرہاہے ، الیکشن کمیشن کے پاس اورکوئی کام نہیں تھا، الیکشن کمیشن کو جواب دینا چاہیے تھا کہ منتخب حکومت آکرمعاملہ دیکھ لے گی۔ شمائل بٹ نے کہا کہ ہم سارے ایک ہی محکمہ میں ہیں۔ سید قلب حسن  نے کہا کہ مدعا علیہ حکومت کے بڑے لاڈلے ہیں، ایک ہی جگہ اگلا چارج لے رہے ہیں، عہدے کی مدت چارماہ تھی اورایک سال بیٹھے رہے اورپھر ترقی لے لی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کمپیٹنٹ اتھارٹی کا لفظ استعمال ہونا کب شروع ہوا، پہلے تو افسر اپنا نام لکھتے تھے،میں نے ایک سینئر بیوروکریٹ سے اس حوالہ سے پوچھا توانہوں نے بتایا کہ جب جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آیا توبہت سے افسران فائلوں پر دستخط نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے کپیٹنٹ اتھارٹی کا لفظ استعمال کرنا شروع کردیا۔ سید قلب حسن نے کہا کہ مدعا علیہ ایڈیشنل ڈائریکٹر بنے اور چار ماہ سے زائد عہدے پر نہیں رہ سکتے تھے، ایک سال وہاں بیٹھے رہتے ہیں اورایک سال پڑھانے نہیں جاتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انگریزی بڑی اچھی لکھتے ہیں یہ نہیں بتاتے کہ کس کاحکم آیا ہے، وزیر کاحکم آیا ہے یا وزیر اعلیٰ کا حکم آیا ہے، کمپیٹنٹ اتھارٹی کون ہے،کمپیٹنٹ اتھارٹی کا عہدہ اورنام بتائیں۔ سید قلب حسن نے کہا کہ چیف سیکرٹری اجازت دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نام بتائیں چھپاتے کیوں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جونیئر یا سینئر کی پالیسی ہے یا صوابدیدہے ۔ اس پر سیکرٹری ہائرایجوکیشن کمیشن ارشد خان نے بتایا کہ حکومت کی صوابدیدہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیسے چنتے ہیں، کیا طریقہ کار ہے۔ اس پر سیکرٹری ایچ ای سی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ، چیف سیکرٹری کو ہدایت دیتا ہے ۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ توسی سی آفس کی حکومتی آفس میں مداخلت ہے، بڑاخطرناک بیان ہے کہ وزیر اعلیٰ ہدایت دیتا ہے اورحکومت کوتباہ کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری سفارش کرے ، وزیر اعلیٰ اوپر سے حکم کرتا ہے، سمری لادواورتعینات کردو، سمری منگوانے کی کیوں زحمت کرتے ہیں، براہ راست ہی تعیناتی کردیں اس سے افسرن کاوقت بھی بچے گا، ایسے گورننس تونہیں ہوگی۔ جسٹس عرفان سعادت خان  نے کہا کہ یہ تو100فیصد سیاسی موو ہے، عدالتوں کا کام کرائیٹریابنا نا نہیں بلکہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اوپر سے حکم آجاتا ہے، ایسے اقدام بیوروکریسی کوتباہ کردیں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم فیصلہ محفوظ کرلیتے ہیں۔ اس دوران سینئرپروفیسر ڈاکٹر محمد شفیع نے چیف جسٹس سے بولنے کی اجازت مانگی۔ چیف جسٹس کی اجازت کے بعد پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیع نے بتایا میں پوسٹ گریجوایٹ کالج میں پروفیسر ہوں۔چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا کیس سے تعلق کیا ہے، آپ  کیا چاہتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیع کا کہنا تھا کہ دونوں فیصلے صحیح نہیں تھے۔ڈائریکٹر ایچ ای سی پورے صوبے کے کالجوں کے پرنسپلز کو ہدایات جاری کرتا ہے، میں صوبے میں سنیارٹی میں 13ویں نمبر پر ہوں اور درخواست گزار اورمدعا علیہ دونوں مجھ سے جونیئر ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا یہ بہتر پوسٹ ہے، لوگ کیوں بننا چاہتے ہیں، کیا زیادہ پیسے ملتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیع نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں جونیئر موسٹ پروفیسر کو ڈائریکٹر ایچ ای سی لگایا گیا۔ چیف جسٹس نے  پروفیسرڈاکٹر محمد شفیع  سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں سیاسی باتیں نہ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کیوں جونیئر لوگوں کو لگارہی ہے۔ سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پی ارشد خان کا کہناتھا کہ عدالت کوئی طریقہ کار وضع کردے ہم عملدرآمد کریں گے۔اس پر جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ طریقہ کار واضع کرناحکومت کا کام ہے عدالت کا نہیں۔چیف جسٹس نے حکم میں کہا کہ وزیر اعلیٰ نام دیتا ہے اورمحکمہ سمری بناتا ہے، کمپیٹنٹ اتھارٹی کانام اورعہدہ نہیں لکھا جو کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ ہم یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ محکمہ تعلیم بہترانداز میںکام کرے ،اس لئے پروفیسرڈاکٹر محمد شفیع کی فریق بننے کی درخواست منظور کرنا ضروری ہے۔ حکومت کی کچھ پالیسی اور کرائیٹریاتوہونا چاہیے  اورمحکمہ تعلیم کے بہتر مفاد میں ہونا چاہیے ۔ چیف سیکرٹری اور متعلقہ محکمہ کے سیکرٹری بتائیں کہ کیا کوئی تعیناتیوں کے حوالہ سے پالیسی ہے یا ساری وزیر اعلیٰ کی صوابدیدہے۔کیا ٹرانسفر پوسٹنگ کے حوالہ سے کوئی پالیسی ہونی چاہیے، کیا یہ بیوروکریٹک ایکٹ ہے یاس سمری دینا وزیر اوروزیر اعلیٰ کااختیار ہے، یہ بھی بتایا جائے۔ عدالت نے فریقین سے دوہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت عیدالفطر کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔