9 مئی واقعہ ،سپریم کورٹ نے 5 ملزمان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستیں منظور کر لیں

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے راولپنڈی سے گرفتار سانحہ 9مئی 2203کے 5ملزمان کی ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے انہیں، 50،50ہزارروپے کے مچلکوں کے عیوض رہا کرنے کرنے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے قراردیا ہے کہ یہ مزید انکوائری کا کیس ہے۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیںکہ کہ حکومت اور ریاست ماں، باپ ہوتی ہے،ماں باپ ناراض ہوں تو بچوں کو ایک دو تھپڑ لگا کرپھر منالیتے ہیں،ایک سال سے ملزمان گرفتار ہیں، ایک سال اورگزارلیں گے توکیا ہوگا۔ اصل دہشت گردوں کو پکڑتے نہیں ریلیوں والوں کے پیچھے لگے ہوئے۔

کیاہم ہیڈ کانسٹیبل کی بات پر سابق وزیر اعظم کے بارے میں مانیں کہ وہ غدارہے، اسپیشل برانچ کے لاہور میں تعینات ملازم کا بیان کیا آسمانی صحیفہ ہے۔ کیا سیاسی کارکن ہونا جرم ہے، ہماری بربادی یہی ہے کہ ہم نے طلباء یونینز پر پابندی لگائی اورسیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی۔اب تک تمام ملزمان گرفتار نہیں کرسکے،150ملزمان کانام ایف آئی آرمیںدیں اورانہیں10سال گرفتارنہ کریں توپھر گرفتار5ملزمان کا کیا قصور ہے۔پولیس کو گرفتار ملزمان کے نام کیسے پتا لگے، کیا پہلے سے نام دیئے گئے تھے کہ ان کو گرفتار کریں، پولیس والے کیس کاستیاناس کردیتے ہیں۔ کیا ریلی نکالنا جرم ہے۔گرفتارلوگوں کو دہشت گرد بنانے کی پوری کوشش کی۔ سسٹم چلنے دیں، سسٹم کی جنگ ہے۔ کیس میں دی گئی آبزرویشنز کا ٹرائل کورٹ میں جاری کیس پر کوئی اثر نہیں ہوگا، ہم کیس کے میرٹس پر کوئی بات نہیں کررہے۔ اپنا سیاسی کھیل سیاسی میدانوں اور پارلیمنٹ میں لڑیں، عدالت میں نہ لڑیں، آپ ہر چیز پر دہشت گردی ایکٹ لگادیتے ہیں۔

جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے کہا ہے کہ کیا حمزہ کیمپ کے سارے کیمرے تباہ ہو گئے تھے، آج توہرکسی کے موبائل ہے اس سے ویڈیوبنالیتے ہیں۔اتنے بڑے دہشت گرد پکڑ لئے کہ ان سے پیٹرول بم ملے، اتنی بڑی فورس لگی ہوئی تھی اورانہوں نے تباہی مچادی ۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ ایف آئی آر میں تو آئی ایس آئی کے آفس پر حملے کا لکھا ہی نہیں ہے، حساس تنصیباب تو بہت سی ہوتی ہیں۔ملزمان کو10مئی کو گرفتار کیا گیا اوروہ 10ماہ سے گرفتار ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس سید حسن اظہر رضوی اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے راولپنڈی سے گرفتار سانحہ 9مئی 2023کے ملزمان سیف اللہ، وقاص، کامران، نصراللہ اور اویس ایاز عباسی کی جانب سے دائرضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں ریاست پاکستان کو پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے توسط سے فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست گزاروں کی جانب سے عنصر نواز مرزااورسردارعبدالررازق خان بطور وکیل پیش ہوئے۔جبکہ ایڈیشل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب خرم خان پیش ہوئے۔

دوران سپریم کورٹ نے پولیس اور پراسیکیوشن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ملزمان اویس، سیف اللہ، نصراللہ، کامران اور وقاص پر 9 اور 10 مئی کی درمیانی شب حمزہ کیمپ راولپنڈی حملے سمیت توڑپھوڑ کا الزام ہے، ان کے خلاف راولپنڈی کے تھانہ نیوٹائون میں درج مقدمہ درج تھا۔ایڈیشل پراسیکیوٹرجنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں 41معلوم اور100سے150افراد نامعلوم تھے، ملزمان کو شناخت پریڈ کے زریعہ گرفتار کیاگیا اوران سے ریکوری بھی ہوئی، مظاہرین نے اپنی قیادت کی ایما پر پولیس افسران اورجوانوں پر آتشیں اسلحہ ، ڈنڈوں، سوٹوں ، غلیلوں سے حملہ کیا اورٹائر جلا کرروڈ بلاک کی، پولیس افسران اوراہلکاروں نے مشکل سے جانیں بچائیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ٹائر جلائے ہوئے تھے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل پنجاب کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا کیس بتادیں ہم نے فائل پڑھی ہوئی ہے۔

ایف آئی آر میں دہشتگردی کی دفعات لگانے پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو پتہ ہے انسداد دہشتگردی کی دفعات کن حالات میں لگائی جاتی ہیں؟ حال ہی میں وزیریستان میں دہشت گردی کے واقعہ میںافسران اورجوانوں کی شہادت ہوئی، وہ دہشت گردی کا واقعہ ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پشاور میں سانحہ آرمی پبلک سکول دہشتگردی کا واقعہ تھا، کوئٹہ میں57 وکلا پر خودکش حملہ کرکے انہیں شہید کیا گیا وہ دہشت گردی تھی، اپنا سیاسی کھیل سیاسی میدانوں اور پارلیمنٹ میں لڑیں، عدالت میں نہ لڑیں، آپ ہر چیز پر دہشت گردی ایکٹ لگادیتے ہیں۔جسٹس مندوخیل نے کہا کہ جب اسلحہ برآمد نہیں ہوا تو متعلقہ شق کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ 9مئی کاواقعہ ہے اور10مئی کوایف آئی آردرج ہوئی ہے، کیا نقصانات ہوئے پراسیکیوٹر کواس حوالہ سے پتاہونا چاہیئے۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ انٹیلیجنس ایجنسی کے دفتر پر حملہ ہوا۔

جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی کیمروں میں ریکارڈنگ ہوتی ہے، کیا ہائی کورٹ کے سامنے ویڈیو چلائی۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ حساس تنصیبات اور ٹول پلازے پر ایک ساتھ حملہ ہوا،یہ کون سی تنصیب تھی جس پر حملہ ہوا۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ حمزہ کیمپ پر حملہ کیا گیا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ مجمع نے حرکت کی، ایک جگہ کھڑا نہیں رہا، حساس تنصیبات اور میٹرواسٹیشن پر بھی کیمرے لگے ہیں، کیا دستاویزات ہیں یاگواہوں نے بیان دیا، سی سی ٹی وی لازم چیز ہے جس کو وجود نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے سرکاری وکیل نے بتانا ہے کہ دہشت گردی بنتی ہے کہ نہیں، یا تعزیرات پاکستان لگے گی۔

جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا سرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزارملزمان کا کردار بیان کریں،15لائنوںکی ایف آئی آر ہے اس کو پڑھ لیں، آدھے تواس میں نام لکھے ہیں، 6لائنیں ملزمان کے کردار کے حوالہ سے ہیں، واقعہ کے حوالہ سے بتائیں۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ مظاہرین عمران خان کی گرفتاری کے خلاف حکومت پاکستان کے خلاف پرتشدد مظاہرہ کررہے تھے، مظاہرین آتشیں اسلحہ ، پیٹرول بمبوں، ڈنڈوں ، سوٹوں ست مسلح تھے اورفائرنگ کرتے ہوئے اور پولیس پر چڑھ دوڑے اور میٹرواسٹیشن کو شدید نقصان پہنچایا اورکارسرکار میں مداخلت کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ دفعہ 353کیا ہے یہ پڑھیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی ملزمان سے ریکوری کی، ان چار آدمیوں سے کیا برآمد ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ اگرآتشیں اسلحہ نہیں توپھر دفعہ 334نہیں لگتی۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ چارآدمیوں کے خلاف کیا چیز ہے وہ بتائیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کس چیز کی توڑ پھوڑ ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پڑھ کرسنائیں، ہم زبانی نہیں سنیں گے۔

جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ سارے پولیس والے گواہ ہیں کوئی غیر جانبدارآدمی گواہ نہیں، ایک ملزم نے میٹرواسٹیشن پر پیٹرول بم مارااوردوسروں نے کیا گیا، ملزمان کے حلف نامے لگے ہیں کہ ہم ڈیوٹی کر کے گھروں کوواپس جارہے تھے راستہ نہیں مل رہا تھا، کیا ملزمان سے تفتیش کی، ان کی رہائش کہاں تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ تفتیش کا مقصد دونوں پارٹیوں کا مئوقف لینا ہوتا ہے۔ تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزمان کی رہائش قریب نہیں تھی۔ ملزمان کے وکیل سردار عبدالرازق خان کا کہنا تھاکہ درخواست گزار ملزمان دوکاندار ہیں اوران کا سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا سیاسی کارکن ہونا جرم ہے، ہماری بربادی یہی ہے کہ ہم نے طلباء یونینز پر پابندی لگائی اورسیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی،7-ATAپڑھیں، دہشت گردی کی تعریف پڑھیں۔

سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ یہ پورے پاکستان میں واقعات ہوئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ حکومت اور ریاست ماں، باپ ہوتی ہے،ماں باپ ناراض ہوں تو بچوں کو ایک دو تھپڑ لگا کرپھر منالیتے ہیں،ایک سال سے ملزمان گرفتار ہیں، ایک سال اورگزارلیں گے توکیا ہوگا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ صرف پولیس والوں کی شہادتیں ہیںوہ بھی مخصوص نہیں کہ یہ بندہ میٹرواسٹیشن پر حملہ کررہا تھا حمزہ کیمپ پر حملہ کررہا تھا، کیا یہ مزید انکوائری کاکیس نہیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کیا بم دھماکوں والوں کی سازش کبھی پکڑی گئی ہے، اصل دہشت گردوں کی سازش پکڑیں تو کوئی شہید نہ ہو، سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکار ڈنگ محفوظ ہوتی ہے، لوگ موبائل سے بھی ویڈیو بناتے ہیں۔وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ملزمان سے پیٹرول بم برآمد ہوئے ہیں، فائرنگ کا بھی الزام ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے کہ پیٹرول بم کہاں پر تھا،کون کہاں سے لایا، گھرسے تو کوئی لا نہیں سکتا،کس پیٹرول پمپ کو لوٹا اورپیٹرول چھینا، تفتیش کیا کہتی ہے۔ اس پر وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ تفتیش میں یہ پہلو سامنے نہیں آیا، اسپیشل برانچ لاہور کا ایک ہیڈ کانسٹیبل بھی گواہ ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ سرکاری افسر کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی دفعہ بھی لگائی گئی، اس جرم کی سزا تو 2 سال ہے، سارے گواہ پولیس والے ہیں، کوئی آزاد گواہ نہیں۔عدالت میں جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ گواہ پولیس والے بھی ہوسکتے ہیں لیکن شواہد تو دکھا دیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ منشی تھانے میں بیٹھاہوتا ہے اوروہ فردیں بناتا ہے۔، آپ کو ان ملزمان کے نام کیسے پتالگے، کیا پہلے سے نام دیئے گئے تھے کہ ان کو کوگرفتارکریں، آپ لوگ کیس کاستیاناس کردیتے ہیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ ملزم سے بیان لیاہوگا، انہوں نے کیا کہا، کمرشل ایریا ہے، دوکانیں ہیں اور ہوٹل ہیں، لوگ پھنس جاتے ہیں اورانکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا ریلی نکالنا جرم ہے، جب ریلی نکالی پولیس کہاں تھی۔ جسٹس سیدحسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ ایس ایس پی یا ایس ایچ اوکون اس کو لیڈ کررہا تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہ بتاتے کہ ہم نے روکنے کی کوشش کی اورانہوں نے ہمارے اوپر پیٹرول بم پھینکے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاسرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جس گواہ کاسب سے اچھا بیان ہے وہ پڑھیں، اتنی بڑی فورس لگی ہوئی تھی اورانہوں نے تباہی مچادی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپنی قیادت کی ایما پر کیااس حوالہ سے ثبوت دیں، سازش کی دفعہ کیا ہے، اسپیشل برانچ کے لاہور میں تعینات ملازم کا بیان کیا آسمانی صحیفہ ہے۔

اس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے بتایا کہ 7مئی 2023کو عمران خان نے زمان پارک میں اجلاس بلایا اور بتایا کہ ان کی 9مئی کو پیشی ہے اورانہیں اپنی گرفتاری کاخدشہ ہے، اگر انہیں گرفتارکیا گیا توپولیس اورفوج پر حملے کرنے ہیں تاکہ ان پر دبائو ڈالا جاسکے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھاکہ کیا ہم ہیڈکانسٹیبل کی بات پر سابق وزیر اعظم کے بارے میں مانیں کہ وہ غدار ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اہلکاروں کی قربانیوں کی قدر کرتھے ہیں،ملک میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھاکہ اتنے بڑے دہشت گرد پکڑے گئے کہ ان سے پیٹرول بم ملے۔، ملزمان پر فائرنگ کا بھی الزام ہے، کوئی اسلحہ برآمد ہوا نہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ تفتیشی افسر کسی سمارٹ آدمی کو بنائیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ پولیس نے پوری کوشش کی لوگوں کو دہشت گرد بنانے کی،تفتیشی افسر اپنی طرف سے کہانیاں بنا رہا ہے۔سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ موقع سے گولیوں کے 26خالی خول ملے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلہ لکھواتے ہوئے قراردیا کہ ملزمان کے خلاف انسداد ہشت گردی عدالت راولپنڈی میں زیر سماعت ہے، 41نامزاور100سے150ملزمان نامعلوم ہیں، یہ مزید انکوائری کاکیس ہے، ہم کیس کے میرٹس پر کوئی بات نہیں کررہے، عدالت کی جانب سے دی گئی آبزرویشنز کا ٹرائل کورٹ میںجاری کاروائی پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔عدالت نے پانچوں ملزمان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستیں منظور کر تے ہوئے 50،50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے انہیں رہاکرنے کا حکم دیا ہے۔