پشاور(صباح نیوز) امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت سے لگتا ہے کہ پہلے بھی سیکورٹی اداروں کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی ہوتی رہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس وضاحت کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ پہلی نگران حکومت غیر جانبدار نہیں تھی۔ زیادہ تر وزرا جے یو آئی اور باقی پی ڈی ایم کے تھے۔ اس کے خلاف ہائی کورٹ گیا لیکن ریلیف نہیں ملا۔ گورنر ہاؤس خیبر پختونخوا کو عملا جے یو آئی کا دفتر بنا دیا گیا ہے۔ باقی صوبوں میں بھی گورنر ہاؤسز سیاسی جماعتوں کے قبضے میں ہیں۔ اسٹبلشمنٹ گریٹ ڈبل گیم اور ٹریپل گیم کھیل رہی ہے۔ پرویز خٹک ہمارے دوستوں کے خلاف ایف آئی اے اور دیگر ادارے استعمال کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور اداروں کو چاہیے کہ اس پر نوٹس لیں۔ اکرم خان درانی ممند خیل قوم کے لئے نگران وزیر اعلی سے جرگہ کرکے فنڈ مانگ رہے ہیں۔ پرویز خٹک نے نوشہرہ میں جماعت اسلامی کے کارکنوں اور امیدواروں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن اس کا بھی نوٹس لے۔ اپنی سیٹیں کسی کے ہاتھ میں نہیں دیں گے۔ دھاندلی کی گئی تو ہم میدان میں ہر صورت میں مقابلہ کریں گے۔ فوج کو چاہیے کہ اپنی سیاسی ونگ ختم کرے۔ اس عمل سے فوج کا پیشہ ورانہ عمل متاثر ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی کو پذیرائی مل رہی ہے، ہم میدان میں ہیں اور قوم ہمارے ساتھ ہے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے المرکز الاسلامی پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے نائب امیر و امیدوار پی کے 75 صابر حسین اعوان، ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا ہدایت اللہ اور سیکرٹری اطلاعات سید جماعت علی شاہ بھی موجود تھے۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ ہمارے صوبے میں غیر جانبدار حکومت نہیں ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جا رہی ہے۔ پرویز خٹک کے لانچ ہونے کے بعد مولانا فضل الرحمن بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کی باتیں کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی آشیر آباد حاصل نہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی ورکروں کو ہراساں کرنا غیر اخلاقی اور غیر جمہوری ہے۔ الیکشن کمیشن اس ساری صورتحال کا نوٹس لے۔ انھوں نے کہا کہ اکرم درانی نگران حکومت سے فنڈ وصول کرنے کے لیے جرگے کر رہے ہیں۔ یہ بدترین دھاندلی کی ایک شکل ہے۔ ہم قبل از وقت آگاہ کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن اس کا نوٹس لے اور نگران حکومت سے پوچھے۔ الیکشن کمیشن کو اکرم درانی کے حوالے سے خط بھی لکھ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ نوشہرہ میں پرویز خٹک ہمارے امیدواروں کو ہراساں کر رہے ہیں۔ ہم اپنی سیٹیں کسی صورت چھیننے نہیں دیں گے۔ نگران حکومت غیر جانبدار رہے۔ انھوں نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ سیاسی ونگ ختم کرے اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر توجہ دے۔ کسی کو لاڈلہ بنانا اور کسی کو جیل میں ڈالنا لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے۔ 2018 کے انتخابات میں بھی غلط ہوا تھا، اب بھی غلط ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم میدان میں موجود ہیں اور بھر پور طریقے سے مہم چلا رہے ہیں۔ قوم کی نظریں جماعت اسلامی کی طرف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے امید دینا ہوگی۔ ووٹر کو مایوس نہ کیا جائے۔ کسی کا بھی حق نہیں بنتا کہ کسی کو سپیس دے اور کسی کو نہیں۔ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی عوامی رائے سے اقتدار کی حامی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 2018 میں بہت کچھ ہوا، اسٹیبلشمنٹ نے ایک جماعت کو اقتدار دلایا۔ اب دوبارہ وہی حربے کسی دوسری اور تیسری جماعت کے لیے آزمائے جا رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو اپنی ساکھ بچانے کے لیے ان ہتھکنڈوں سے باز آنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ مرکز اور صوبائی سطح پر اتحاد نہیں ہوگا، تاہم ضلعوں میں ایڈجسمنٹ ہوسکتی ہے۔ اضلاع کو پابند بنایا ہے کہ وہ صوبے اور مرکز سے رائے لیکر ایڈجسمنٹ کریں۔