چین ،پاکستان کو سائبر حملوں ،ہیکنگ کو روکنے کیلئے فائر وال قائم کرنے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر عارف علوی


اسلام آباد (صباح نیوز)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ پاکستان اورچین کے درمیان مثالی اور پائیدار دوستانہ وتزویراتی تعلقات قائم ہیں، ون بیلٹ ون روڈ اقدام کے بعد چین اور پاکستان کے پائیدار اورہمہ وقتی تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری سی پیک کے ذریعے اقتصادی اور تجارتی روابط کے قیام کے ساتھ ایک خوشحال خطہ کا احاطہ کررہی ہے، پاکستان اورچین دنیا میں امن، استحکام اورترقی چاہتے ہیں، چین سے گوادر اور گوادر سے چین تک سامان کی نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کو مزید کوششں کرنا ہوگی، ، چین اور پاکستان کو غیر ریاستی عناصر کے سائبر حملوں اورہیکنگ کو روکنے کیلئے فائر وال قائم کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان اور چین کو دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کوسمجھنا ہوگا، او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس نے افغانستان کے عوام کے مصائب کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ ہفتہ کوچینی زرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے صدرمملکت نے کہاکہ پاکستان اور چین ن بہترین تعلقات کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں جن کی بنیاد پائیدار تزویراتی تعاون اورشراکت داری پر مبنی ہیں۔

دونوں ممالک کے کے درمیان تعلقات کی طویل تاریخ کاحوالہ دیتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ دونوں ممالک اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے مختلف شعبوں میں تعاون کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی قیادت تاریخی تعلقات میں مسلسل بہتری لا رہی ہے، یہ تعلقات عوامی روابط پر مبنی ہیں۔ دونوں ممالک کو آزمائش کی گھڑیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا میں جموں وکشمیر پربھارت کے غیرقانوی تسلط جیسے مختلف مسائل اورچیلنجوں کا سامنا ہے ۔ پاکستان اور چین مسلسل دنیا میں امن کی بات کر رہے ہیں اور پائیدار امن کے لیے زور دے رہے ہیں۔ صدر نے اس ضمن میں افغانستان میں امن و استحکام کے لیے دونوں ممالک کی کوششوں کا حوالہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ پاک چین دوستی کی ایک طویل تاریخ ہے اور دونوں ممالک ان تعلقات کو مسلسل بہتر کر رہے ہیں جو 50 کی دہائی میں شروع ہوئے اور 60 کی دہائی میں زبردست طریقے سے پروان چڑھے، چین کا دنیا کے ساتھ رابطہ پاکستان کے ذریعے قائم ہوا۔ایک سوال کے جواب میں صدر مملکت نے کہاکہ نیا عالمی نظام ابھر رہا ہے، مختلف امور پر پاکستان اور چین کی سوچ مشترک ہے ۔

صدر نے زور دیا کہ کوئی بھی عالمی تبدیلی بالادستی کے تصورکی بجائے اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے، یہ تبدیلیاں ایک دوسرے کے معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئیں۔صدر نے کہاکہ پاکستان اور چین کے درمیان گزشتہ 70 سال کے تعلقات دنیا کے لیے ایک اچھی مثال ہیں کہ کیسے ممالک دوستی، اصولوں اور باہمی افہام و تفہیم کی بنیاد پر تعلقات استوار کر سکتے ہیں۔پاک چین اقتصادی راہداری کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ تعاون کی منفرد شکل ہے۔سی پیک کے تحت تقریبا 28 ارب ڈالر کے منصوبے مکمل ہوگئے ہیں جبکہ مزید 24 ارب ڈالر کے منصوبے زیر تکمیل ہیں،سی پیک منصوبوں کا پورا پورٹ فولیو مختصر مدت میں 62 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

صدرنے کہاکہ ان کے خیال میں سی پیک کے پاکستان کی معیشت پر زبردست اثرات مرتب ہوں گے۔سی پیک کے خلاف پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے صدرمملکت نے کہاکہ چین اور پاکستان کے درمیان بہت بڑا تعاون اوراشتراکار جاری ہے،منصوبہ کی مخالفت کرنے والوں کی پیشنگوئیوں کے برعکس اس سرمایہ کاری پر بہت کم شرح سود استحصال کی بجائے باہمی تعاون کی عکاسی کررہاہے۔صدر نے مزید کہا کہ سی پیک کے تحت ابتدائی منصوبے توانائی پر مبنی تھے کیونکہ پاکستان کو توانائی کی شدید قلت کا سامنا تھا، دوسرے مرحلے میں خوراک، صحت زراعت اور غربت کے خاتمے میں تعاون ایسے بڑے شعبے تھے جس میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔صدر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کثیر جہتی منصوبوں کے ذریعے پاکستان میں لوگوں کو روزگار کے مزید مواقع میسر آئیں گے اور وہ غربت سے باہر آئیں گے۔صدرنے کہاکہ صحت اور تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بناکر غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، پاکستان کی حکومت اس پرتوجہ دے رہی ہے اور احساس پروگرام جیسے مختلف اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔ایک اور سوال کے جواب میں صدرمملکت نے کہاکہ چین نے زیرو کوویڈ پالیسی اپنائی تھی لیکن پاکستان نے عالمگیروبا سے نمٹنے کیلئے مختلف طریقہ کاراختیارکیا، پاکستان کی حکومت نے جزوی لاک ڈاون کا انتخاب کیا کیونکہ ہماری معیشت مکمل لاک ڈاون کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی ۔

انہوں نے کہا کہ جون اور جولائی کے مہینوں میں پاکستان میں سب سے زیادہ 6,800 کوویڈ کیسز رجسٹرڈ ہوئے تھے ۔گوادر بندرگاہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہاکہ اس منصوبہ پر تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ یہ خلیج کے قریب خطے کی سب سے بڑی بندرگاہوں میں سے ایک ہے اور یہ بڑی گہرے سمندری بندرگاہ کے طور پر کام کرے گی۔صدر نے کہا کہ یہ بندرگاہ چین کے مغربی علاقوں کو آپس میں جوڑ دے گا جو اس کے لیے ایک بڑا فائدہ ہوگا۔، گوادر بندرگاہ ماہی گیری سمیت دیگر پہلوں سے بھی تزویراتی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہے ۔

صدر نے چین سے گوادر اور گوادر سے چین تک سامان کی نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کی مزید کوشش کی ضرورت پرزوردیا۔انہوں نے کہا کہ گوادر افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے لیے سب سے مختصر تجارتی راستہ ہو گا، جتنے زیادہ رابطے قائم ہوں گے، اتنی ہی خطے اور اس سے باہر زیادہ ترقی ہو گی۔انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ گوادر کی بندرگاہ پورے خطے میں امن اور ترقی کو یقینی بنائے گی۔آئی ٹی کے شعبے میں تعاون کا ذکرکرتے ہوئے صدر نے اس بات پر زور دیا کہ سائبر سیکیورٹی اور انسانی وسائل کو ترقی دینے کی ضرورت ہے، چین اور پاکستان کو غیر ریاستی عناصر کی سائبر حملوں اورہیکنگ مثال کے طورپر بینکنگ، مالیاتی اداروں اور خدمات فراہم کرنے والے اداروں پرحملوں کو روکنے کیلئے فائر وال قائم کرنے کی ضرورت ہے۔صدرمملکت نے دونوں ممالک کے درمیان تعاون اوراشتراک کا ر کے بہتریں مثال جے ایف 17 تھنڈر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا وہ کمپوٹر چپس کی تیاری میں بھی چین کے تعاون کے منتظر رہیں گے۔صدر نے کہا کہ دنیا بھر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے جس کے لیے دنیا کو تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہے،دونوں ممالک معاشی خوشحالی کے لیے اپنے عوام کو اس شعبے میں لا سکتے ہیں۔

صدر نے کہاکہ دونوں ممالک زراعت میں مزید تعاون کر سکتے ہیں،پاکستان زرعی پیداوارمیں اضافہ کیلئے چینی مہارت اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکتا ہے ۔صدرنے دونوں ممالک کے درمیان صحت کے شعبہ میں تعاون پربھی روشنی ڈالی اور چین کی جانب سے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کیلئے مدد اور رہنمائی فراہم کرنے پر چین کی تعریف کی۔ صدر نے کہا کہ پاکستان میں غربت کے خاتمے کی کوششیں باہمی تعاون سے منسلک ہیں۔چین کی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے اپنی کامیابیوں کے حوالہ سے قرارداد کی منظوری کے سوال پر صدر نے کہا کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں چینی عوام کی ایسی کامیابیوں کو سراہتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ ہر خطے میں جمہوری نظام کے مختلف اصول ہوتے ہیں، بعض ممالک میں صدارتی نظام لاگوہوتے ہیں جب کہ کچھ ممالک کو وزرائے اعظم کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں جمہوریت کے طریقہ کارکاموازنہ دوسرے حصہ سے نہیں کیا جاسکتا۔صدر نے کہا کہ چین میں جمہوریت نے بہت ترقی کی ہے کیونکہ اس نے ملک کی ترقی کے لئے متحدہ نقطہ نظراپنایا ہے۔ چین نے تجارت میں بہتری اور 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے جو کوئی چھوٹی کامیابی نہیں۔ صدرمملکت نے ون بیلٹ اینڈ ون روڈ اقدام کوسراہتے ہوئے کہاکہ یہ دنیا کے لیے ایک بہترین مثال ہے کہ آنے والی دہائیوں میں ترقی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔

صدر نے چینی حکومت کو بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022 کے انعقاد پر مبارکباد دی۔انہوں نے کہا کہ یونان کی تاریخ سے دنیا نے سیکھا ہے کہ کھیل قوموں کو قریب لانے، تعاون بڑھانے اور صحت مند مسابقت کو فروغ دینے کا ذریعہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ عالمگیروبا کے دوران اس طرح کی تقریب کی میزبانی کرنا چینی حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے، پاکستان بھی سرمائی اولمپک میں شرکت کرے گا۔صدر نے کہاکہ کھیلوں کوسیاست کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔صدر نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کے 100 سال مکمل ہونے پرکمیونسٹ پارٹی کومبارکباددی اورکہاکہ کمیونسٹ پارٹی نے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو غربت سے نکالا جو دیگرممالک کیلئے بھی ایک مثال ہے۔

صدرمملکت نے کہاکہ پاکستان اور چین کو دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کوسمجھنا ہوگا ، دونوں ممالک کو اس امرکویقینی بنانا ہوگا کہ سلامتی کے غلط تاثر کی بنیادپر ان کے حکومتی نظام اور اداروں کو دھمکایا نہ جاسکے ۔صدرمملکت نے کہاکہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کے قیام میں پیش پیش رہا ہے، پاکستان اس بات کویقینی بنارہاہے کہ کہ افغانستان دوبارہ تنہائی کا شکار نہ ہو جائے اور اس کا مالیاتی اور بینکاری کا شعبہ تباہ نہ ہو، پاکستان نے عالمی توجہ دوبارہ افغانستان پر مرکوز کر دی ہے، افغان عوام نے گزشتہ تین دہائیوں میں مصائب کا سامنا کیا ہے اورانہیں قومی دھارے میں لانا ضروری ہے ۔صدرمملکت نے کہاکہ افغان حکومت نے یقین دلایا ہے کہ خواتین کی تعلیم کاسلسلہ جاری رہے گا اور افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔صدر نے کہا کہ پاکستان نے چار دہائیوں سے اپنی سرزمین پر تقریبا 40 لاکھ افغانوں کی میزبانی کی ہے، پاکستان میں میں ایسی کوئی سیاسی جماعت نہیں جس نے بحیرہ روم کے ممالک کے برعکس مہاجرین کی مخالفت کی ہو، جہاں تارکین وطن کو ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس کی بھی کامیابی سے میزبانی کی اور ان کوششوں سے افغانستان کے عوام کے مصائب کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرائی گئی۔صدر نے نئے سال کے آغاز پر چینی حکومت اور عوام کی ترقی، خوشحالی اور کامیابی کیلئے اپنے نیک تمناوں کااظہارکیا۔