ڈیرہ تھانہ درابن پر خودکش دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریکِ جہاد پاکستان نے قبول کرلی


اسلا م آباد(صباح نیوز)ڈیرہ اسماعیل خان کے تھانہ درابن پر خودکش دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریکِ جہاد پاکستان نے قبول کرلی۔

یاد رہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں منگل کی  الصبح قریب تین بجے علاقہ  درابن میں چھ حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی ایک تھانے کی عمارت سے ٹکرادی جہاں سکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات تھے۔ تھانے کے ساتھ واقع سکول کی عمارت کو بھی دھماکے سے شدید نقصان پہنچا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق  متذکرہ  حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریکِ جہاد پاکستان نے قبول کی ہے اورسوشل میڈیا پر اپنے بیان میں تنظیم کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ حملہ مولوی حسن گنڈا پور نے کیا ہے جہاں ان کے ساتھ حملہ آور تھانے کے اندر داخل ہو گئے تھے۔

تحریک جہاد پاکستان نے ایک طویل وقفے کے بعد کوئی بڑا حملہ کیا ہے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ اس حملے میں تنظیم نے جدید اسلحہ اور بھاری مقدار میں بارود استعمال کیا ہے۔سوشل میڈیا پیج پر ایک ایسی ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں سنائپر گن سے فائرنگ کی جا رہی ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ویڈیو اب کی ہے یا یہ پرانی کسی اور جگہ کی ویڈیو ہے ۔تحریک جہاد پاکستان کے ترجمان ملا محمد قاسم ہیں اور وہ براہ رست صحافیوں کے ساتھ کم ہی  رابطے میں رہتے ہیں۔ ان واقعات کی ذمہ داری انھوں نے ٹیلی گرام پر قبول کی ہے ۔

ٹی جے پی اگرچہ زیادہ معروف شدت پسند تنظیم نہیں ہے اور تجزیہ کاروں کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ یہ شاید کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان ہی ہے اور تنظیم کو دوسرے نام سے کارروائیاں کرنا مقصور ہو سکتا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ نومبر میں میانوالی کی ایئربیس پر شدت پسندوں کے حملے  میں بھی اسی تنظیم کا نام سامنے آیا تھا۔جب کہ بلوچستان کے علاقے مسلم باغ میں ایف سی کیمپ پر حملے کی ذمہ داری اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔

اس حملے کے بارے میں آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق حملہ آور جدید اسلحہ سے لیس تھے اور ڈیرہ حملے کے بعد تنظیم کی جانب سے کارروائی کی جو مبینہ ویڈیو جاری کی گئی اس میں بھی حملہ آوروں کو اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت والی عینکیں اور سنائپر بندوقیں استعمال کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔اکثر تجزیہ کار اسے ایک پراسرار تنظیم قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس تنظیم کے ترجمان ان حملوں کی ذمہ داریاں تو قبول کرتے ہیں لیکن وہ اپنی تنظیم کے خدوخال کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔

پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا میں شدت پسندی اور اس سے جڑے مسائل پر گہری تحقیق کرنے والے ایک تجزیہ کار  نے بی بی سی کو بتایا کہ تحریک جہاد پاکستان اب تک ایک پراسرار تنظیم ہے جس کی قیادت، ارکان اور وجود کے کوئی شواہد نہیں۔بعض صحافیوں کو بھیجے گئے مختصر تحریری پیغامات کے ذریعے اس تنظیم کے قیام کا اعلان کیا گیا اور ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا کچھ صحافیوں کو تحریری پیغامات بھیج کر شدت پسند حملوں کی ذمہ داریاں قبول کی گئی ہیں۔

اب تک اس تنظیم کے سربراہ و ترجمان کے نام متعارف کیے گئے ہیں لیکن ان کے ماضی یا حقیقی کردار ہونے سے متعلق کوئی شواہد نہیں۔اس تنظیم کے ترجمان اپنا نام ملا محمد قاسم لکھتے ہیں، جنھوں نے صحافیوں کی درخواست اور کوشش کے باوجود اب تک کسی سے بات نہیں کی اور فقط تحریری پیغامات بھجوائے ہیں۔

پشاور میں سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اس تنظیم کے بارے میں کوئی واضح معلومات تو نہیں لیکن ان کی معلومات اور ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ تحریک طالبان پاکستان سے ہی جڑے لوگ ہیں اور اسی تنظیم کا دوسرا نام ہو سکتا ہے۔طالبان جن حملوں کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے وہ اس تنظیم کے نام سے قبول کرا لیتے ہیں۔ اس خطے میں کسی دوسری تنظیم کے وجود کے آثار نظر نہیں آتے اور ان علاقوں میں جس طرح کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں وہ طریقہ بھی ٹی ٹی پی سے ہی ملتا جلتا ہے۔تحقیق کار اور صحافی عبدالسید کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کے حملوں کی ذمہ داری سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کا کوئی ہمدرد گروپ ہے یا اس کا کوئی خفیہ منصوبہ ہے۔

احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں اب تک اس تنظیم کے نام سے جو ذمہ داریاں قبول کی گئی ہیں ان میں ابہام پایا جاتا ہے اور اس کے لیے جو پیغامات کی حد تک اس تنظیم سے رابطہ ہوا، اس بارے میں کوئی ٹھوس جواب اب تک نہیں ملا۔

عبدالسید کا ماننا ہے کہ مستبقل قریب میں اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ تحریک جہاد پاکستان کی حقیقت کیا ہے کیونکہ اگریہ تحریک طالبان کی خفیہ تنظیم ہے تو یقینا یہ تعلق زیادہ عرصہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا اور یہ اگر تحریک طالبان کے اندر سے ہی کسی بغاوت یا اس کا مدمقابل کوئی نیا گروپ ہے تو وہ بھی جلد واضح ہو جائے گا۔