اسلام آباد (صباح نیوز)وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات فوادچوہدری نے کہا ہے کہ آج وزیر اعظم عمران خان جس پاکستان کو واپس لینا چاہتے ہیں وہ قائد اعظم محمد علی جناح کا وہ پاکستان ہے جو انہوں نے سوچا تھا۔سب سے پہلے تو یہ ابہام بالکل دورکرلیں کہ قائد اعظم کوئی مذہبی ریاست چاہتے تھے ، قائدا عظم پاکستان کو ہرگزایک مذہبی ملک کے طور پر نہیں دیکھتے تھے۔ یہ جو سارے لوگ آج قائد اعظم کے نام کے اوپر پاکستان کے لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیںکہ اسلامی ملک کا مطلب شاید مذہبی ملک تھا ، یہ قطعی طور پر ایسا نہیں تھا کہ آج کل دو انتہا پسند حکومتیں پاکستان کے دائیں اوربائیں جانب ابھری ہیں۔ اگر پاکستان نے ایک مذہبی ریاست بننا ہوتا تو پھر پاکستان کی تحریک ابوالکلام آزاد یا مولانا بوالاعلیٰ مودودی چلاتے۔
ان خیالات کااظہار فواد چوہدری نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ میرا یہ ماننا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج پاکستان کو جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ یہ کہ ہم نے قائد اعظم محمد علی جناح کا جو پاکستان ہے اس کو واپس کیسے لینا ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کس طرح کا پاکستان چاہتے تھے اس کی انہوں نے اپنی تین بڑی تقاریر میں تشریح کردی تھی، سب سے پہلے تقریر انہوں نے11اگست1947کو کی تھی جو کانسٹیٹیواینٹ اسمبلی سے کی تھی ، اس کے بعد انہوں نے پاکستان کی فوج سے خطاب کیا تھااورپھر انہوںنے بیوروکریسی سے بات کی تھی۔ تین بڑے اداروں کے ساتھ قائداعظم محمد علی جناح نے جو گفتگو کی تھی وہ جو نیا پاکستان انہوں نے بنایا تھااس کو سمجھنے کے لئے بنیادہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہاکہ آج وزیر اعظم عمران خان جس پاکستان کو واپس لینا چاہتے ہیں وہ قائد اعظم محمد علی جناح کا وہ پاکستان ہے جو انہوں نے سوچا تھا۔ سب سے پہلے تو یہ ابہام بالکل دورکرلیں کہ قائد اعظم کوئی مذہبی ریاست چاہتے تھے ، قائدا عظم پاکستان کو ہرگزایک مذہبی ملک کے طور پر نہیں دیکھتے تھے۔ یہ جو سارے لوگ جوآج قائد اعظم کے نام کے اوپر پاکستان کے لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیںکہ اسلامی ملک کا مطلب شاید مذہبی ملک تھا ، یہ قطعی طور پر ایسا نہیں تھا۔ جس طرح کے قائد اعظم سٹائلش آدمی تھے ، ان کا لائف سٹائل تھا اورجو علامہ محمد اقبال کا لائف سٹائل تھا، وہ تو بالکل بھی جو لوگ آج قائد اعظم کی باتیں کرکے پاکستان کو ایک پسماندہ ملک بنانا چاہتے ہیں اس سے ملتاجلتا نہیں تھا، قائد اعظم اپنے دور کے بڑے ماڈرن، پراگریسو اور فارورڈ لکنگ آدمی تھے ،جس طرح سے علامہ اقبال بھی تھے۔ ان قائدین نے کیوں فیصلہ کیا کہ پاکستان ہونا چاہئے اور مسلمان کا ایک ملک ہونا چاہئے ، وہ اس لئے فیصلہ کیا کہ جو ہندوستان کی سیاست تھی اس کو وہ دیکھ رہے تھے اور ان کو لگ رہا تھا جب بھی یہاںجمہوریت آئے گی تویہاں پر ہندو اکثریت ہے اوراس کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی جو اقلیتوںکاجینا دوبھرکردیںگے۔ ہم آج بھارت میں دیکھ رہے کہ نریندرمودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا۔
انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ میں ایک واقعہ ہوا اور ایک معصوم شہری کی جان گئی اور پوراپاکستان اکٹھا ہو گیا اور پورے پاکستان نے اس اقدام کی مذمت کی جبکہ بھارت میں مسلمانوںکے ساتھ یہ روز ہورہا ہے اورکسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔پاکستان کے قیام کا مقصد اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ دینا تھا ۔
انہوں نے کہا کہ آج کل دو انتہا پسند حکومتیں پاکستان کے دائیں اوربائیں جانب ابھری ہیں، ایک طرف افغانستان ہے جہاں پر طالبان آگئے ہیں، ہم افغانستان کے عوام کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن جس طرح کہیں کہ عورتیں اکیلے سفر نہیں کرسکتیں ، سکول ، کالج نہیں جاسکتیں، اس طرح کی سوچ پاکستان کے لئے توخطرہ ہے، اسی طریقہ سے ادھر ایک ہندو انتہاپسندی کھڑی ہورہی ہے ، پاکستان کی ریاست کی جو سب سے بڑی لڑائی ہے وہ دو متشدد اور انتہاپسندانہ سوچوں کے خلاف لڑائی پاکستان کی سب سے اہم لڑائی ہے جو کہ ہمیں لڑنی ہو گی۔ ہمیں کامیابیاں بھی ہوئی ہیں اور ناکامیاں بھی ہوئی ہیں تاہم ابھی تک پاکستان ہی خطہ میں وہ روشن امید ہے کہ ان انتہاؤں کے درمیان رہ کر ان انتہاؤں سے باہر آسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان نے ایک مذہبی ریاست بننا ہوتا تو پھر پاکستان کی تحریک ابوالکلام آزاد یا مولانا بوالاعلیٰ مودودی چلاتے، چونکہ جو علم تھا یا مذہبی علم تھا توابوالکلام آزادکا توکسی سے کوئی مقابلہ نہیں تھا، وہ بہت بڑے عالم تھے، انہوں نے قرآن پاک کی تفسیر لکھی اور ابوالکلام آزاد کا جو حدیت کا علم تھا اس کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا، پھر اس کے بعد مولانا مودودی اورپھر اس کے بعد ہمارے جمیعت علماء اسلام کے جو اکابرین تھے یہ تمام لوگ مذہبی حوالوں سے بڑے جانے پہچانے لوگ تھے اوران کی بڑی قدرسمجھی جاتی تھی اور مذہب کے اوپر ان کا بڑا عبور تھا لیکن ان لوگوں نے پاکستان کی تحریک کی قیادت نہیں کی۔ یہ کہہ رہے تھے کہ ریاست کی اسلام میں گنجائش نہیں اورریاست کی سرحد نہیں ہوسکتی۔ لیکن جو قائداعظم اور علامہ اقبال تھے ایک سیاسی نظریے کی بات کی اورانہوں نے سیاسی تحریک کی قیادت لی اور اسلام کی سیاسی طور پرتشریح کی اور مذہبی تشریح نہیں کی اور کہا کہ ایک ایسا ملک ہونا چاہئے جہاں پر اسلام کو جو ماننے والے ہیں اورجو اقلیتیں ہیں وہ ایک ایسی جگہ پر رہ سکیں جہاں پر ان کو متشدد اکثریت انہیں اپنا نشانہ نہ بناسکے۔ یہ لڑائی پاکستان کی بقاء کے لئے بہت ہی اہم ہے کہ ہم یہ لڑائی جیتیں۔
انہوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح اپنے پیغام میں بڑے واضح تھے اگر انہیںکوئی نہیں سمجھنا چاہ رہا تو وہ ہماری غلطی ہے۔ قائد اعظم کے پیغام پر دوبارہ عمل کرنا ہی سب سے بڑی جنگ ہے اور یہ پاکستان کے لئے سب سے اہم ہوگا۔