اسلام آباد (صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ وطن واپسی کا فیصلہ نواز شریف خود کریںگے، جب میاں محمد نواز شریف نے سمجھا کہ ملک کو میری ضرورت آج ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنا علاج چھوڑ کر واپس آجائیں گے۔ ملک کو ابھی نواز شریف کی ضرورت ہے کہ نہیں اس کا فیصلہ نواز شریف پر چھوڑ دیں، لوگ عام انتخابات چاہتے ہیں کیونکہ ملک کے مسائل کا حل عام انتخابات کروانے میں ہی ہے، ہم سیاسی لوگ ہیں جو بھی الیکشن ہوں گے ہم ان میں حصہ لیں گے اوران کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔
ان خیالات کااظہار شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی سے انٹریو میں کیا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 18ویں ترمیم کا ملک کے پیسے کی تقسیم سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ، پیسے این ایف سی ایوارڈ میں تقسیم ہوتے ہیں اور18ویں ترمیم نے ایک فلور ڈال دی ہے کہ جو آج این ایف سی ایوارڈ ہے اس میں آپ کمی نہیں کرسکتے ۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے وفاق کے بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل کردیئے گئے اوروفا ق کے کام بہت کم رہ گئے ، وفاقی حکومت اب بنیادی طور پر تین وزارتوں میں آگئی، ایک وزارت خزانہ ، ایک پیٹرولیم اورا یک پاور جبکہ وزارت داخلہ اسلام آباد تک محدود ہو گئی ، وزارت داخلہ کے ماتحت ایف آئی اے کچھ اختیارات رکھتی ہے، جہاں تک وزارت خارجہ کی بات ہے تو روایتی طورپر پاکستان کی خارجہ پالیسی منتخب حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہوتی، جب سے پاکستان بنا ہے، اسٹیبلشمنٹ یا ایک ڈیپ اسٹیٹ کی سوچ کو تقریباً ہر حکومت آگے بڑھاتی رہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ ملکی مسائل کے حل کے لئے انتظامی بنیادوں پر ملک میں 30نئے انتظامی صوبے بنائے جائیں، صوبہ پنجاب میں نو اور دیگر تمام صوبوں میں سات، سات صوبے بنائے جائیں، ترکی نے نئے صوبے بنائے، بھارت نے18نئے صوبے بنائے ہیں ، افغانستان میں آج صوبے کا کنٹرول طالبان نے حاصل کر لیا کل کسی دوسرے نے حاصل کر لیا پھر بھی ملک چلتا رہتا تھا۔ پنجاب کو ہمیشہ شک وشبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ دوسرے صوبوں کے حقوق پر قبضہ کر لے گا یا وفاق پر ہمیشہ اس کا قبضہ رہتا ہے وہ بات بھی ختم ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کارکردگی دکھا رہی ہو تواس کا گراف مثبت ہوتا ہے جیسے ہماری حکومت تھی،پہلے دن سے پورے منظم طریقہ سے ہمارے خلاف ایک بیانیہ بنایا گیا، دھرنا ہوا،وہاں سے پورا ایک بیانیہ شروع ہوا، پھر حکومت توڑی گئی ، پھر اور بیانیے بنائے گئے، پاناما گیٹ،ڈان گیٹ، فلاناں گیٹ اور جو کچھ الیکشن سے پہلے، الیکشن کے دن ہوا اور الیکشن کے دوران ہوا، اس کے باوجود (ن)لیگ84نشستیں لے گئی اور اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو (ن)لیگ اکثریت سے اوپر چلی جاتی۔ اب ایک طبقہ ہے جو حقیقت میں سیاستدان ہے جو زندگی کی ہر چیز کو چھوڑ کر اپنی ذمہ داری کو ترجیح دیتا ہے ، جن کو کوئی جانتا نہیں اور وہ آج بڑے ،بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں وہ نہیں بلکہ جن کی زندگی سیاست میں گزری ہے جنہوں نے اپنی زندگی دی ، ماریں کھائی ہیں اور حالات کا مقابلہ کیا ، اپوزیشن میں رہے ہیں اورعشرے گزار دیئے۔
انہوں نے کہاکہ میاں محمد نواز شریف کا شمار ان لوگوں میں ہے جنہوں نے ہمیشہ اصولوں پر سیاست کی اوراپنے مئوقف پر قائم رہنے کی کوشش کی اورقربانیاں دیں، اگر ملک کو ضرورت ہو تو وہ ان چیزوں کو پیچھے رکھ کرآجاتے اور میاں نواز شریف نے بارہا ان چیزوں کا مظاہرہ کیا ہے۔نوازشریف کے خلاف دونوں کیسز میں مداخلت کے واضح ثبوت آچکے ہیں تاہم دونوں فیصلے برقرارہیں، یہاں انصاف نہیں، اگر کوئی کہتا ہے کہ نواز شریف کو سزاہوئی ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے، سزادلوائی گئی، ججوں کو دبا کر فیصلے لکھے گئے اورفیصلے ایسے ہیں جو ان ججز نے نہیں لکھے، یہ سب حقائق ایک دن آئیںگے۔ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی تو لگ گئے لیکن سپریم کورٹ کے ہر جج نے مرنے سے پہلے کہا کہ ہم نے دبائو کے تحت فیصلہ کیا، یہ کیفیت آج میاں نواز شریف کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ بلدیاتی نظام نہیں چلے گا، آج نہ حکومت اور نہ ہی اپوزیشن بلدیاتی انتخابات چاہتی ہیں بلکہ یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر ہورہے ہیں اوراس وقت ہر شخص عام انتخابات کو دیکھ رہا ہے ،آئندہ عام انتخابات مارچ2022کے وسط سے لے کر اکتوبر2023کے وسط تک ہونے ہیںاس میں کوئی لچک نہیں، اگر حکومت مدت پوری کرتی ہے تو یہ 17اگست کو پوری ہو گی اور17اکتوبر2023سے پہلے عام انتخابات ہونے ہیں۔ کل جو حکومت آئے گی وہ موجودہ بلدیاتی نظام کو ختم کردے گی کیونکہ اس نظام کے اوپر سیاسی طور پر اتفاق رائے نہیں ، یہ سارا نظام غیر مئوثر ہے اور سندھ نے مکمل طور پر نظام ہی بدل دیا۔ حکومت سیاسی جماعتوں اور عوام کے اتفاق رائے سے نیا بلدیاتی قانون بنائے، موجودہ بلدیاتی قانون سیاسی جماعتوں اورعوام کے لئے قابل قبول نہیں ۔