کمزور عالمی ردعمل اسرائیلی اور بھارتی جارحیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے: آئی پی ایس بین الاقوامی ویبینار

اسلام آباد(صباح نیوز)عالمی سطح پر نظام کی ناکامیاں اسرائیل اور بھارت کو وہ مواقع فراہم کرتی ہیں جن کے باعث وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ارتکاب میں حوصلہ افزائی پاتے ہیں اور یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی چھتری تلے ہو رہا ہے۔ یہی سب مسجد اقصی کے احاطے میں فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے جن پر او آئی سی، عرب لیگ اور چند ممالک کی طرف سے مذمت کے معمول کے بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس ردعمل نظر نہیں آتا۔

ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس)کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی ویبینار کے دوران کیا گیا جس کا عنوان تھامشرقِ وسطی میں اسرائیل کی کاروائیاں: جارحیت کو معمول بنانا اور اس پر کمزور تر ہوتا ردِ عمل’۔  فورم کی صدارت ایمبیسیڈر(ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین، آئی پی ایس نے کی، جبکہ دیگر مقررین میں ڈاکٹر حاتم بازیان، چیئر، اسلامو فوبیا ریسرچ اینڈ ڈاکومینٹیشن پروجیکٹ، یو ایس اے؛ ڈاکٹر زینت آدم، ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ایفرو مڈل ایسٹ سینٹر، جنوبی افریقہ؛ (ڈاکٹر)ر چندرا مظفر، صدر،جسٹ (جے یو ایس ٹی)، ملائیشیا؛ ڈاکٹر علی حسین زادے، المصطفی یونیورسٹی، ایران؛ نذیر حسین، سابق ڈین، فیکلٹی آف سوشل سائنسز، قائد اعظم یونیورسٹی؛ اور ڈاکٹر جنید ایس احمد، پروفیسر کالج آف ولیم اینڈ میری، یو ایس اے؛ شامل تھے۔

مقررین نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل تنازعات اور جنگ کے ماحول میں پروان چڑھتا ہے، جو اس کی تخلیق، استحکام اور توسیع کے بنیادی عناصر رہے ہیں۔ اسرائیل ایک جمہوری ریاست ہونے کا دعوی کرتا ہے لیکن استعماری عزائم کوپروان چڑھاتا ہے اور فلسطین کی باقی سرزمین پر استعماری حربے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل 1967 سے یروشلم کو یہودی ریاست بنانے پر کام کر رہا ہے۔ یہودیت کو پروان چڑھانے کا  اس کامنصوبہ اب بھی جاری ہے جس کے تحت مقبوضہ زمینوں میں یہودیوں کے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے آبادیاتی برتری کا تصور دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اسرائیل میں عربوں کو ان کے مذہب سے قطع نظر دوسرے درجے کے شہری کا درجہ دیا گیا ہے کیونکہ عیسائیوں کو بھی اپنی مذہبی سرگرمیاں انجام دینے پر پابندیوں کا سامنا ہے۔

ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ اسرائیل اوسلو معاہدے سے دور ہو رہا ہے اور وہ فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یہودی ریاست کے صیہونی اقدامات مودی کے ہندوتوا کے شکار ہندوستان میں جھلک رہے ہیں جہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مذہب اور ثقافت کو تیزی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں امریکی دبا کی وجہ سے اسرائیل اور بھارت کے خلاف بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کے مقدمات کی سماعت کا امکان نہیں ہے۔

مقررین نے کہا کہ اگرچہ فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل مقامی یا علاقائی ہیں لیکن ان پر عالمی سطح پر ردعمل کی ضرورت ہے۔ اس لیے بین الاقوامی سول سوسائٹی کو مقبوضہ سرزمینوں پر اسرائیل اور بھارت کی جارحیت اور مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے بامعنی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عالمی برادری اور خاص طور پرمسلم ممالک کی خاموشی کی بھی مذمت کی، جو انصاف اور انسانی وقار کے لیے کوئی موقف اختیار کرنے کی بجائے جغرافیائی و معاشی پہلوں اور قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ مقررین نے تجویز دی کہ پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور ایران جیسے بڑے مسلم ممالک کوچاہیے کہ وہ اس مسئلے کو ہر ممکنہ بین الاقوامی فورم پر اٹھائیں۔