حکومتِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف سے حالیہ دنوں میں قومی سلامتی پالیسی منظر عام پر لائی گئی۔ پہلی بار ایک جامع قومی سلامتی پالیسی، ایک واحد دستاویز کی صورت میں لکھی گئی اور اس کا ایک مختصر نسخہ عوامی سطح پر بھی جاری کیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ مجموعہ اہداف کو حاصل کرنے اور اجتماعی قومی کوششوں اور محنتوں میں ہم آہنگی و مطابقت پیدا کرنے کے لیے یہ ایک ہدایت نامہ کا کام انجام دے گی۔ اس دستاویز کو منظر عام پر لانے کی بنا٫ پر عوام کو قومی سلامتی کے معاملات پر سوچنے، سمجھنے اور اس بات کرنے کا ایک غیر معمولی موقع فراہم ہوا ہے۔ عوام بہرحال اس دستاویز میں کسی سہو و خطا٫ کی نشان دہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ازالہ کا مطالبہ کرنے کے بھی حق دار ہیں۔قومی سلامتی پالیسی کی دستاویز نے ان تمام فریقوں کی کوششوں کو تسلیم کیا ہے جن کی رائے نے پالیسی کے بنانے میں کردار ادا کیا۔ تاہم یہ اس بات پر خاموش ہے کہ کیا مقبوضہ کشمیر کی حریت پسند قیادت یا مظلوم عوام سے قومی سلامتی پالیسی کے متعلق رائے طلب کی گئی ہے کہ نہیں۔ یوں اس بات پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ آیا ملک کے مقتدر حلقے کشمیر اور اس کے مظلوم عوام کو مملکت خداداد کی تکمیل، ، سالمیت اور بقا٫ کے حوالہ حصہ دار سمجھتے ہے بھی کہ نہیں۔
قومی سلامتی پالیسی میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کا اعادہ کیا گیا ہے، مگراس کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے کوئی دھندلا سا تصور بھی پیش نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عمل درآمد کے مطالبہ پر بھارت مسئلہ کشمیر کو شملہ معاہدہ کی رو سے حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ شملہ معاہدہ کی بنیادی شقوں میں ایک شق یہ ہے کہ فریقیں میں سے کوئی فریق متنازعہ علاقہ کی قانونی حیثیت تبدیل نہیں کرے گا۔مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کر نے کی یک طرفہ کاروائی شملہ معاہدہ کی سنگین خلاف ورزی ہے مگر اب تک حکومت پاکستان کا شملہ معاہدہ پر تازہ موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ کیا حکومت پاکستان اس معاہدہ کے قانونی وجود کو بدستور تسلیم کرتی ہے۔ دوسری طرف حکومت پاکستان نہایت سادہ دلی سے بھارت کی مکارنہ جال میں پھنستی نظر آرہی ہے۔جس کا سب سے بڑا ثبوت سفارتی اور غیر سفارتی سظح پر حکومت پاکستاں کا سارا زوردفعہ ۳۷۰ کی واپسی پر ہونا ہے۔ اس طرح بھارت نے عملاًمسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی سرحد پہلے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے شملہ معاہدہ اور اب شملہ معاہدہ سے آئین ہند کی ۳۷۰ ویں شق پر منتقل کر لی ہے۔ جو یقیناً بھارت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔
قومی سلامتی پالیسی کا مرکزی نکتہ جغرافیائی سیاست سے اقتصادی سیاست کی طرف پیش رفت ہے۔ اس پیش رفت کی پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے مضمرات واضح نہیں تھے کہ اس دوراں سرکردہ تاجرمیاں منشا ٫صاحب نے ایک بیان میں پاک و ہند کے مابین پس پردہ بات چیت، کاروبار کی بحالی اور نریندر مودی کے پاکستان دورہ کا عندیہ دیا۔ ارباب اقتدار کی طرف سے اس بیان کی کوئی خواطر خواہ نفی نہ ہونے سے معاملہ باکل واضح ہوگیا ہے۔ اور اس بات نے مقبوضہ کشمیر کےلوگوں کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام ایک صدمہ کی کیفیت میں ہیں ،جو اگست ۲۰۱۹ کے صدمے سے بھی گہرا ہے۔ ۔ واضح بھارت سے تعلق استوار کرنے کی یہ مذموم کوشش ایسے وقت میں ہو رہی ہے،جب بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب تبدیل کرنے کے مکروہ منصوبے پر بڑی تیزی سے کام کر رہا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ حکومت پاکستان کشمیر کو سرد خانہ میں ڈال کر بھارت کے ساتھ تجارت اور دیگر تعلقات بحال کرنے جا رہی ہو ۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جہاں ایک طرف ان کوششوں کا نتیجہ صحرا نوردی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ وہیں دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں تحریک مزاحمت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کی مزاحمت آج جس نازک موڈ پر کھڑی ہے، اس کی براہ راست ذمہ داری جنرل مشرف، صدر زرداری اور میاں نواز شریف کے ادوار میں اختیار شدہ پالیسی پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے پالیسی ساز افراد اور اداروں کو اس پر تحقیق کرنی چاہیے کہ جنرل مشرف کے دور میں شروع کیے گیے امن عمل کے دوراں اور ما بعد سے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں کون سے ایسے منصوبوں پر عمل کرنے کا موقعہ ملا جن کی وجہ سے آج مقبوضہ کشمیر کے کلمہ گو ہلاکت کے دہانے پر کھڑے نظر آرہے ہیں ۔ آج اس نازک مرحلہ پر مقبوضہ جموں و کشمیر اور پاکستان کے عوام ارباب اقتدار سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا حکومت پاکسان نے بھارت سے اقتصادی اور سیاسی عمل بڑھانے کے حوالے سے کوئی حد فاضل مقرر کی ہے کہ نہیں؟
پاکستان کی طرف سے امن کی یک طرف خواہشوں اور کوششوں کو بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا ہے۔ اور دوسری طرف پاکستانی قیادت خود فریبی میں مبتلا ہوکر حکمت عملی میں سنگین غلطیاں بار بار دہراتی رہی ہے۔ بالاکوٹ میں بھارتی مہم جوئی کے بعد حکومت بھارتی فضائیہ کے پائلٹ کو راتوں رات رہا کر کے اپنی دور اندیشی اور بردباری کے زعم میں مبتلا٫ ہو گئی ۔ ہماری سیاسی قیادت نے بھارت کےجنگی جنون کو مودی کی الیکشن جیتنے کی ترکیب پر محمول کیا۔ ہمیں کامل یقین تھا کہ مودی کےالیکشن سے فارغ ہوتے ہی بھارت سرکار ہماری حکومت کی خیر سگالی کے جذبے کا مثبت جواب دے گی۔ مگرمودی نے الیکشن سے بہت پہلے کشمیر ہڑپنے کے لیے پوری بساط بچھا لی تھی۔
حکومت ہند کا منصوبہ بڑی سطح پر انٹیلی جنس آپریشن، سیاسی اور مذہبی عمل پر پابندی، حریت پسند قیادت کی گرفتاری، میڈیا وارفئیر اور سفارت کاری سمیت بہت سی مکروہ تدابیر پر مشتمل تھا۔ ہندو سیاست کے سارے مہرے بظاہر الگ الگ مگر ایک سمت میں بڑھ رہے تھے۔ اس لیے جب ہمارے دیرینہ حلیف اس مذموم عمل کا خیر مقدم کرنے والے پہلے ممالک بنے، ہمارے لیے دھچکہ لگنے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اور جو کچھ ہوا وہ اپنے آپ میں ۱۹۴۷ سے جاری بھارتی عمل کا تسلسل ہی تو تھا۔ شروع سے بھارت کا طریقہ کار رہا ہے کہ وہ کچھ وقت تک امن کا راگ الاپ کر وقت لیتا ہے اور پھر تازہ دم ہوکر مزید قوت سے وار کرتا ہے۔ اس طرح بتدریج بھارت کشمیر پر اپنا آہنی شکنجہ کسنے میں کامیاب ہوا ہے۔ پاکستان کی بہ نسبت بھارت کے قومی بیانیہ میں ایک طریقہ کی وحدت اور یک رخی ہے۔ طریقہ کار اور رفتار میں افراد اور اوقات کی تبدیلی اثر انداز تو ہوسکتی ہے ، مگرہدف ہمیشہ ایک رہا ہے۔کشمیر کے حوالے سے کوئی بھارتی سیاست دان اپنے کاروباری مفاد، پارٹی مفاد اور عالمی طاقتوں کے سامنے اپنی ساکھ بنانے کے لیے طالع آزمائی نہیں کرتا۔
بھارت کا کشمیر پر قبضہ خالصتاً ایک فوجی نوعیت کا قبضہ ہےجو فوجی طاقت کے بوتے پر قائم ہوا تھا اور اسی زور اب بھی قائم ہے۔ بھارت ہند نواز کشمیری سیاست دانوں اور سول انتظامیہ کا استعمال ایک ریشمی دستانے کے طور کرتا رہا ہے، گو شاید اب اس کو اس کی بھی ضرورت نہیں۔ اس لیے کشمیر کو بھارتی قبضہ سے چھڑانے کی کوئی سبیل غیر فوجی نہیں ہوسکتی۔ اقوام متحدہ سے لیکر متحدہ امارات کی ثالثی سے کی گئی تمام جنگ بندیاں ہمیشہ بھارت کے لیے سودمند ثابت ہوئی ہیں۔ ہر مرتبہ بھارت کو جنگ بندی سے مقبوضہ کشمیر میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔ اور ہر نئے معرکہ پر بھارت مزید طاقت ور اور مستحکم پوزیشن پر ہم سے نبرد آزما ہوتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی آزادی کی جدوجہد کا حق رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ مسلح اور غیر مسلح دونوں طریق ہاے کار استعمال کرسکتے ہیں۔ اور اب تک بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد خاصی موثر ثابت ہوئی ہے اور مگر بدقسمتی سے کشمیری مسلح گروہوں کے لیے بیس کیمپ میں قافیہ ہنوز تنگ ہے۔ حکومت آزاد جموں و کشمیر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے سیاسی ، سفارتی اور جنگی رول ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس طرح کوہالہ پل کے دونوں اطراف کی قیادتوں کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان عائد ہوتا ہے۔ اس لیے تمام متعلقین پر فرض ہے کہ کشمیر کی آزدی کی خاطر خواہ پشت پناہی کےلیے ارباب اقتدار پر دباو بنائیں۔ ایک جامع منصوبہ جو سیاسی، سفارتی اور فوجی حکمت عملی کا بہترین مجموعہ ہو۔ بھارت اپنے مکروہ عزائم پر جس سرعت سے آگے بڑھ رہا ہے اس نے یہ چیز اور بھی لازم کر دی ہے۔ اس منصوبہ عمل کی تشکیل آئندہ آنے والی سیاسی اور فوجی قیادت یا آنے والی نسل پر موخر نہیں کی جاسکتی۔ اس سلسلے میں کسی قسم کا تساہل تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔
کوئی بھی قوم فلک بوس عمارتوں ، دلفریب بازاروں اور بڑی بڑی شاہراوں سے عظیم نہیں بنتی۔ قوموں کی عظمت کا راز اصول پسندی، حق و انصاف کی پاسداری اور مظلوموں کی پشت پناہی میں مضمر ہے۔ نظریہ پاکستان سے انحراف پر مبنی اقتصادیات بنیان پاکستان اور ہزارہا شہدا کے خون سے سوداگری ہے،جنہوں نے درہ خیبر سے لیکر پیر پنچال کی پہاڑیوں تک پاکستان کی بقا٫ اور تکمیل کے لیے اپنی جوانیاں نچاور کر دیں ۔