بد ترین مہنگائی اور آئی ایم ایف کی غلامی کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز…..تحریر محمد اصغر


عالمی مالیاتی فنڈ کے دباؤ پر مہنگائی ، اضافی مِنی بجٹ اور سٹیٹ بنک کی خودمختاری کے خلاف امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق  کی اپیل پر 6 فروری 2022ء سے ملک گیر احتجاج اور دھرنوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس سے قبل امیر جماعت اسلامی پاکستان کی صدارت میں مرکزی نظم کے اجلاس (منعقدہ 15 جنوری 2022ء)میں ملکی کی مجموعی سیاسی اور معاشی صورتحال کے علاوہ حکومت اور اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیا گیا اور ہوش رُبامہنگائی ، منی بجٹ کے ذریعے عوام پر 343 ارب روپے کے ٹیکس عائد کئے جانے اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط اور دباؤ پر خودمختاری دینے کے لئے کئی گئی قانون سازی پر تشویش کا اظہار کیاگیااور فیصلہ کیا گیا کہ جماعت اسلامی ملک کے معاشی سقوط اور آئی ایم ایف کی غلامی قبول نہیں کرے گی اور اس کے خلاف بھرپور عوامی تحریک چلائے گی۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیاکہ ملک بھر میں ضلعی ہیڈ کوارٹر پر 101 احتجاجی دھرنے دیئے جائیں گے اور حکومت سے مطالبہ کیا جائے گا کہ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کی جائے، ضمنی بجٹ واپس لیا جائے، گورنر سٹیٹ بنک کو برطرف کیا جائے ،سٹیٹ بنک کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دنیے کا ایکٹ واپس لیا جائےاور سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ اگر حکومت یہ مطالبات پورے نہیں کرتی تو جماعت اسلامی اسلام آباد میں بھرپور دھرنا دے گی اور حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرے گی۔

اجلاس میں درج ذیل حقائق کی بنیاد ہر احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا:

(i)      اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ:ادارہ شماریات پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق کے مطابق جنوری 2022ء کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی بدولت ملک میں مہنگائی کی شرح 12.96 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے  جو گزشتہ 2 سال میں بلند ترین ہے۔کچھ اشیاءخوردونوش کی گزشتہ ایک سال کی قیمتوں کا موازنہ حسب ذیل ہے:

(ii)    بجلی کی قیمتوں میں اضافہ:13 جنوری 2021ء کو حکومت نے عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گراتے ہوئے ظالمانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 4.30 روپے فی یونٹ مہنگی کر دی جس کی وصولی جنوری 2022ء کے بلوں میں کی جائے گی۔ اس سے قبل دسمبر 2021ء میں وصول کیے گئے بِلوں میں اکتوبر 2021ء میں استعمال کی گئی بجلی پر فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 4.74 روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔ بعد ازاں 17 جنوری 2022ء کو حکومت نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے یکم فروری 2022ء سے بجلی کے فی یونٹ بنیادی ریٹس میں 95 پیسے تک اضافے کا فیصلہ کرلیا۔ اس سے پاور سیکٹر کو دی جانے والی سبسڈی 20 ارب روپے تک کم ہوجائے گی اور کےالیکٹرک سمیت تمام تقسیم کار کمپنیوں کے لیے فی یونٹ بجلی کا بنیادی ٹیرف 18.75روپے تک بڑھ جائےگاجبکہ فی یونٹ بجلی میں اوسطاً 53 پیسے کا اضافہ ہوگا۔جبکہ ایک سے 100 یونٹ استعمال کرنے والے غیر محفوظ صارفین کے لیے بیس ٹیرف 8 پیسے اضافے سے فی یونٹ 9.50روپے، 101 سے 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے 18 پیسے فی یونٹ اضافے سے 10.36روپے، 201 سے 300 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے 48 پیسے فی یونٹ اضافے سے 12.62روپے، 301 سے 400 یونٹ استعمال کرنے والی تمام کیٹیگریز کے لیے ٹیرف 95 پیسے فی یونٹ اضافے کے بعد 15.75 فی یونٹ ہو جائے گا۔

(iii)   پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ:15 جنوری 2022ء کو حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 3.01روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی فی لیٹر قیمت میں 3،3 روپے اور لائٹ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں 3.33روپے اضافہ کردیا۔ جس کے بعد پیٹرول کی فی لیٹر قیمت  147.83 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 144.62 روپے، مٹی کے تیل کی قیمت 116.48 روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت 114.54 روپے فی لیٹر ہوگئی۔ خیال رہے کہ اس سے قبل یکم جنوری 2022ء کو بھی حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 4 روپے، مٹی کے تیل کی قیمت میں 3.95 روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 4.15روپے فی لیٹر اضافہ کیا تھا۔  روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق حکومت موجودہ ٹیکس شرح، امپورٹ پیرٹی پرائس اور شرح تبادلہ کی بنیاد پر فروری 2022ء کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 5 سے 15 روپے فی لِٹر  تک اضافے کا ارادہ رکھتی ہے۔خیال رہے کہ آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے کے مطابق حکومت ماہانہ بنیادوں پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پیٹرولیم لیوی کی شکل میں ماہانہ  4 روپے کے اضافے  کی پابند ہے۔

(iv)    روپے کی قدر میں مزید کمی کا خدشہ:روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں پر اچانک ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے نتیجے میں روپے کی قدر میں مزید کمی  اور ڈالر کی قیمت 200 روپے تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ذرائع کے مطابق ایکسچینج کمپنیاں 16 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس کا بوجھ صارفین کو منتقل کردیں گی جنہیں ایک ڈالر پر 20 روپے سے زائد کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ایکسچینج کمپنیوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اگر ڈالر 200 تک پہنچتا ہے تو ایکسچینج کمپنیوں کے قانونی کاروبار کی جگہ ڈالر کی بلیک مارکیٹنگشروع ہوجائے گی۔

(v)     مجموعی قومی قرضےاور مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا فرق:اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا مجموعی قرضہ 50.4841کھرب روپے تک پہنچ چکا ہےجبکہپاکستان کا جی ڈی پی کا  حجم 53.876 کھرب روپے ہے۔ قانونی طور پر حکومت پاکستان جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی لیکن  لمحۂ موجود میں کُل قومی قرضہ ملکی جی ڈی پی کے 93 فیصد سے زیادہ ہو گیاہے۔ مجموعی قرضوں  میں اندرونی قرضوں  کا حجم (انویسٹمنٹ بانڈز، ٹریژری بلز اور نیشنل سیونگ اسکیمز ) جی ڈی پی کا51فیصد ہے۔ جبکہ بیرونی قرضوں کا حجم (ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، پیرس کلب، کمرشل بینکوں کے قرضے اور یورو بانڈز )جی ڈی پی کا41فیصد ہے۔ موجودہ حکومت نے اگست 2018ء سے دسمبر 2021ء تک 42.7 ارب ڈالر کے قرضے وصول کیے جبکہ اس دوران  32.7ارب ڈالر بمعہ سُود  کے قرضے ادا کیے۔علاوہ ازیں پی ٹی آئی حکومت نے حکومت نے گزشتہ 40 مہینوں میں 10 ارب ڈالرکے اضافی قرضے حاصل کیے۔

(vi)    قرضوں پر سُود کی ادائیگی:وفاقی بجٹ مالی برائے سال 21-2020ءمیں دفاع کیلئے 1370 ارب روپے، تعلیم کیلئے 28 ارب روپے اور صحت کیلئے 22 ارب روپے مختص کیے گئے(جو مجموعی طور پر 1420 ارب روپے بنتے ہیں)جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے بیرونی قرضوں پر 3052ارب روپے سود ادا کیا۔ قرضوں پر صرف سود کی سالانہ ادائیگیاں دفاع، تعلیم اور صحت کے مجموعی اخراجات سے سے دوگنا زیادہ ہیں۔ رواں مالی سال 22-2021ءمیں پاکستان کو 23 ارب ڈالرکے قرضے واپس اداکرنےہیں۔ اس میں سے آئندہ ششماہی میں 8.6 ارب ڈالرکی ادائیگیاں  کرنی ہوں گی۔ اس ادائیگی میں  7.2 ارب ڈالرکا قرضہ اور 1.4 ارب ڈالر کاسُود شامل ہو گا۔

(vii)  چند معاشی اشاریوں کا ایک سالہ تقابلی جائزہ:

(viii) آئی ایم ایف کی شراط پر مِنی بجٹ:
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرط پر 15 جنوری 2022ء کو صدر مملکت عارف علوی نے مِنی بجٹ (ضمنی مالیاتی بل 2022ء )کی رسمی منظوری دے دی جسے پارلیمنٹ پہلے ہی کثرتِ رائے سے منظور کرچکی تھی۔ مِنی بجٹ میں متعدد اشیا پر 343 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کے علاوہ کئی اہم اشیاء پر سبسڈیز اور ٹیکس چھوٹ واپس لے لی گئی ۔ حیرت انگیز طور پر اپوزیشن کے علاوہ حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق،  ایم کیو ایم اور گرینڈ نیشنل الائنس(جی ڈی اے) کے متعدد اراکین  نے مشاورت میں شامل نہ کرنے  کا شِکوہ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ مِنی بجٹ میں روزمرہ اشیائے ضروریہ پر عائد ٹیکس واپس لیے جائیں لیکن 13جنوری 2022ء کو پی ٹی آئی حکومت نے اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود اتحادی جماعتوں  کے اشتراک سے مِنی بجٹ 2022ء منظور کروا لیا اور اپوزیشن کی پیش کردہ تمام ترامیم مسترد کردیں جبکہ وزیر خزانہ کی تجویز کردہ 3 ترامیم کثرتِ رائے سے منظور کر لی گئیں جن کے مطابق پہلی سطح کے ریٹیلر ٹیئر ون ریٹیلرز، ریسٹورنٹ، فوڈ چینز اور مٹھائی کی دکانوں پر ان اشیا کی فروخت پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ 500 روپے سے زائد کے فارمولا دودھ پر 17 فیصد جی ایس ٹی عائد کیا جائے گا۔ 1800 سی سی اور اس سے کم ہائبرڈ اور گھریلو کاروں پر 8.5 فیصد ، 1800 سے 2500 سی سی تک کی ہائبرڈ گاڑیوں پر 12.75 فیصد اور درآمد شدہ الیکٹرک گاڑیوں پر 12.5 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھا کر 12.5 فیصد کر دیا گیا ہے، تمام درآمدی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی یکساں رہے گی۔ مقامی طور پر تیار کی جانے والی 1300 سی سی گاڑیوں پر ڈیوٹی 5 فیصد سے کم کر کے  2.5 فیصد  اور 1300 سے 2000 سی سی کاروں پر ڈیوٹی بھی 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد  اور 2000سی سی سے زیادہ کی مقامی طور پر تیار ہونے والی کاروں پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔

(ix)آئی ایم ایف کے دباؤ پر  بینک دولت پاکستان ترمیمی بل 2022 کی منظوری: یکم جنوری 1948ء  کو قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے بینک دولت پاکستان (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کے افتتاح کے موقع پر فرمایا تھا کہ اسٹیٹ بنک ہماری ’’مالی خودمختاری‘‘ کی نشانی ہوگا لیکن 74 سال بعد   28 جنوری 2022ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ 2022ء کے اجراء سے پاکستان کی خُود مُختاری اور مالی خُود مُختاری حکومت پاکستان کے کنٹرول سے نکل کر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے کنٹرول میں چلی گئی۔  کثرتِ رائے سے قومی اسمبلی میں منظوری کے بعد سینیٹ میں  حکومت صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے ترمیمی بل منظور کروانے میں کامیاب ہوگئی جبکہ متحدہ اپوزیشن  واضح اکثریت کے باوجود  بِل کی منظوری روکنے میں ناکام رہی۔ سینیٹ میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 57 جبکہ حکومتی ارکان کی تعداد 42 تھی۔ بل کے حق  اور مخالفت میں 42،42ووٹ آئے لیکن چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی نے غیر جانبداری ختم کرتے ہوئے اپنا فیصلہ کُن ووٹ ترمیمی بل کی منظوری کے حق میں دےدیا۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل میں دلائل کے ساتھ سات ترامیم سینیٹ میں جمع کروائیں مگر چیئر مین سینیٹ نے ان تجاویز کو سینیٹ میں بحث کے لیے پیش کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اجلاس کے بعد سینیٹر مشتاق احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا  کہ بطور سینیٹر یہ اُن کا حق تھا کہ اُنہیں اپنی پیش کردہ ترامیم پر دلائل دینے کا موقع دیا جاتا اور اُن کی پیش کردہ ترامیم پر ایوان میں رائے شماری  کرائی جاتی لیکن چیئر مین سینیٹ نے بہت مایوس کیا جس سے  اُن کی حق تلفی ہوئی ہے۔  اُنہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے محض ایک ارب ڈالر کے قرضے کے لیے ملک کا اہم ترین ادارہ ’’بینک دولت پاکستان‘‘ آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا گیا جو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت  اور معاشی خود مختاری کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔اُنہوں نے انکشاف کیا کہ   ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2022ء کا ڈرافٹ پاکستان میں تیار نہیں ہوا بلکہ آئی ایم ایف نے امریکہ میں بیٹھ کر تیار  کرکے پی ٹی آئی حکومت کے حوالے کیا‘‘۔ حکومتِ پاکستان کا نہ صرف اس پر اختیار تقریباً ختم ہوگیا ہے بلکہ پاکستان کی معاشی خود مختاری بھی ختم ہو گئی ہے۔ آج اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا سقوط ہوا ہے جس پر آئی ایم ایف خوش ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ قوم حکمرانوں کو میر جعفر اور میر صادق کے نام سے یاد رکھے گی۔

 اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سکندر مندھرو، مسلم لیگ ن کی نزہت صادق اور مشاہد حسین سید، بی این پی کے قاسم رونجھو اور نسیمہ احسان شاہ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے طلحہ محمود اور  پی کے میپ کے سردار شفیق ترین اجلاس سے غیر حاضر جبکہ اے این پی کے عمر فاروق کاسی  عین رائے شماری کے وقت ایوان سے چلے گئے۔ اپوزیشن کے دلاورخان گروپ نے بھی حکومتی بِل  کی حمایت کی۔ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد حکومت نے پیپلز پارٹی اور یوسف رضا گیلانی کا شکریہ ادا کیا اور دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے ارکان کو غیر حاضر رکھ کر حکومت کی مدد کی۔

اپوزیشن کا غیر سنجیدہ اور مشکوک کردار:28 جنوری 2022ء کو سینیٹ آف پاکستان میں اپوزیشن جماعتیں اکثریت میں ہونے کے باوجود اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2022ء کو منظور ہونے سے  نہ روک سکیں۔ ایوان بالا میں  قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے8 اراکین غیر حاضر تھے ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ حزب اختلاف کے ارکان نے اہم قانون سازی کے موقع پر غیر حاضر  ،   واک آؤٹ یا نماز پڑھنے  کےبہانے ایوان سے غائب ہو کر حکومت کو کھل کر کھیلنے کا موقع (Walk over) ہو۔   موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع  ، ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر قانون سازی، نیب ترمیمی بل ، سالانہ و  ضمنی مالیاتی  بل  اور  عالمی عدالت انصاف بل سمیت  دیگر اہم معاملات   پر قانون سازی کے وقت اپوزیشن کے بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی نےچارو نا چار حکومت  کو سہولت و حمایت فراہم کی۔

معروف صحافی زاہد حسین کہتے ہیں کہ اہم مواقع پر ایوان بالا و زیریں میں اپوزیشن لیڈرز کا غیر حاضر رہنا ایک معمول بن چکا ہے ۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر حکومتی بلز کو روکنا اپوزیشن کے لیے اتنا ہی ضروری ہوتا تو قائد حزب اختلاف سمیت تمام اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کے تمام  اجلاسوں   میں اپنی موجودگی کو یقینی بناتے۔ حال ہی میں سینیٹ آف پاکستان  میں سٹیٹ بنک بل کی منظوری پر  اپوزیشن کی شکست کئی حوالوں سے اُن کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ لانے کی تیاری کر رہی ہے۔ اگر وہ کسی ایسے ایوان میں اپنے تمام اراکین کو جمع نہیں کر سکتی جہاں اس کی اکثریت ہے تو اس کے لیے قومی اسمبلی میں حکومتی بنچوں کی اکثریت کو ختم کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ اپوزیشن اب حسب معمول اب رونا رو رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سینیٹ میں اس کی  شکست کی ذمہ دار وہ خود ہے ۔ خراب معاشی کارکردگی کا بوجھ اٹھاتی حکومت کے لیے اپوزیشن کا کردار کسی بھی طور ریلیف سے کم نہیں ہے ۔

کالم نویس فہد حسین فرماتے ہیں کہ  اپوزیشن جماعتوں کا کوئی مشترکہ بیانیہ نہیں ہے ۔  پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)سے پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے اخراج کے بعد یہ اتحاد اپنی وقعت کھو چکا ہے ۔ اگرچہ  پی ڈی ایم اور پی پی پی نے علیحدہ علیحدہ لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے  لیکن ان اعلانات کا مقصد  کرپٹ و نااہل حکومت سے نجات نہیں بلکہ مقتدر حلقوں  سے ڈیل کرنا ہے۔ ماضی میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد  کے وقت بھی اپوزیشن کے پاس مطلوبہ تعدادموجودتھی لیکن اُسے شکست ہوگئی ۔ اس بار بھی اپوزیشن کی جانب سے بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے کہ وہ سٹیٹ بنک کے ترمیمی بل پر حکومت کو کامیاب نہیں ہونے دے گی لیکن واضح اکثریت ہونے کے باوجود انہیں دوسری مرتبہ شکست ہوئی ۔ رائے شماری کے وقت قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی کی ایوانِ سینیٹ سے غیر حاضری نے ایک نئے سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا قانون سازی کے میدان میں اپوزیشن اور حکومت آپس میں  ایک صفحہ پر ہے؟ یقیناً یہ شکست اس تاثر کو مزید تقویت دیتی ہے کہ  مقتدر حلقوں کی جانب سے  اپوزیشن کو آگاہ کیا گیا تھاکہ سٹیٹ بنک ترمیمی   بل کی منظوری ملک کی سٹریٹجک ضرورت ہے اور اس کے لئے آئی ایم ایف کیشرائط ماننا ضروری ہے۔ بہرحال اس شکست   سے اپوزیشن کی نااہلی کھل کر سامنے آئی ہے ۔

دیرینہ سیاسی کارکن  نفیس صدیقی  کا خیال ہے کہ اگرچہ وسیع تر حلقوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نہ صرف عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی بلکہ بُری طرزِ حکمرانی اور بد عنوانی میں پچھلی ساری حکومتوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے لیکن دوسری طرف اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی کارکردگی بھی عوام کی توقعات کے برعکس ہے بلکہ ماضی کی تمام اپوزیشنز کے مقابلے میں موجودہ اپوزیشن کا کردار ادا بہت خراب ہے ۔ 2018ء  میں پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کے بعد  ایک بھی موقع پر اپوزیشن  حکومت کو  من چاہی قانون سازی سے نہیں روک سکی ۔ میڈیا پر اپوزیشن  بیڈ گورننس کا شکوہ کرتی  ہے  لیکن حکومت پر دباؤ نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کی نظر میں اپوزیشن کی کوئی اہمیت نہیں اور عام آدمی کی مخالفت سے انہیں  کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حکومت کے غلط فیصلوں پر پارلیمنٹ یا منتخب نمائندوں کی طرف سے احتساب نہ ہونے کی وجہ سے عام آدمی کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

معاشی سقوط پر جماعت اسلامی  کا موقف:

جماعت اسلامی پاکستان کا اپوزیشن  کی بڑی جماعتوں کے حوالے سے انتہائی واضح مؤقف رہاہے  کہ بڑی سیاسی جماعتیں عوام کو دھوکہ میں رکھ کر نا اہل حکومت کی سہولت کار بنی  ہوئی ہیں۔ اور سٹیبلشمنٹ کے فیڈرپر آپس میں  مشت و گریباں ہیں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں  نورا کشتی کی وجہ سے جماعت اسلامی  اپوزیشن اتحاد کا حصہ بننے کی بجائے اپنے فورم سے  ملکی مسائل کے حل کی خاطر   عوامی جدوجہد کررہی ہے ۔  کم تعداد میں ہونے کے باوجود جماعت اسلامی کے  منتخب عوامی نمائندے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کے حقوق کے لئےآواز بلند کرنے میں سب سے زیادہ متحرک ہیں ۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بارہا کہا ہے کہپی ٹی آئی کے ساڑھے 3 برس ناکامیوں اور کرپشن کی داستان پر محیط ہیں۔ 73 برس سے بانیانِ پاکستان کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ اسلامیپاکستان کو مختلف عصبیتوں پر تقسیم کیا گیااورملک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا اور قوم کے ارمانوں کا خون کیا گیا۔ ملک دوراہے پر کھڑا ہے۔اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ گھسے پٹے نظام کے ساتھ چلنا ہے یا ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے۔وزیر اعظم کو پاکستان کی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ سے جتنی سپورٹ ملی ماضی میں اس کی مثال کم ہے لیکن اس کے باوجود ان سے حکومت چل نہیں رہی۔پی ٹی آئی حکومت کی  مہنگائی،منی بجٹ اورغلط معاشی پالیسیوں کیخلاف جماعت اسلامی  ملک گیر تحریک چلائے گی۔ ساڑھے تین سال میں اس حکومت میں کوئی ایسی قانون سازی نہیں ہوئی جس سے ملک و قوم کو فائدہ ہوا ہو۔ اگر کوئی قانون سازی ہوئی بھی ہے تو وہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ہوئی جس سے ملکی سلامتی سمیت عوام کوبھی نقصان پہنچا۔حکمران کہتے تھے کہ ہمارے پاس دو سو معاشی ماہرین ہیں۔ وہ کہاں ہیں؟ اسد عمر کو معیشت کا سقراط کہتے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ جس کمپنی میں لگا اسی کا بیڑہ غرق کیا۔لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اسے وزیر خزانہ بنایا۔ وہاں سے ناکامی ہوئی تو حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنایا اور آج شوکت ترین کو زیر خزانہ بنایا ہے یہ پرانے پرزے ہیں جن کو نئی مشین میں لگانے کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ سےاسٹیٹ بنک ترمیمی بل کی منظوری کے بعد  امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اپنے ردِ عمل میں کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اب اسٹیٹ بینک آف آئی ایم ایف بن گیا ہے ۔ سقوطِ سلطنتِ عثمانیہ اور سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان کا معاشی سقوط بہت بڑا سانحہ ہے۔ سقوطِ معیشت کے نتیجے میں پاکستان کے مرکزی بنک کا کنٹرول  آئی ایم ایف کے پاس چلا گیا ہے۔

گجرات میں پہلے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نےکہاکہ ملک کی معیشت کو مستقل بنیادوں پر ٹھیک کرنے کا واحد حل سودی نظام سے نجات ہے۔معیشت کی بحالی کے لیے قومی مکالمے کی ضرورت ہے۔ملکی بجٹ کا نصف حصہ سُود کی ادائیگی اور دفاعی بجٹ  پر صرف ہوتا ہے جبکہ صرف 800ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لیے بچتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کنٹرول کر رہا ہے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کی وجہ سےپاکستان آئی ایم ایف کا غلام بن گیا ہے اور غلام کی اپنی کوئی پالیسی نہیں ہوتی ۔ وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضہ لینے کی بجائے خُود کشی کر لوں گا لیکن آج ہماراوزیر اعظم بین الا قوامی بھکاری بن گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں پانچ دریا اور زرعی زمین دی ہے۔ ہمارے پہاڑوں میں معدنیات اور سونا موجود ہے لیکن سابقہ اور موجودہ حکومتوں  نے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا  ہے۔لہٰذاقوم سڑکوں پر نکل آئے اور عالمی بنک ، آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے اور پاکستان کی سلامتی، خودمختاری، خوداختیاری اور معاشی آزادی کے لئے جماعت اسلامی کاساتھ دے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان نے پاکستان کےعوام اور کارکنانِ جماعت اسلامی سے اپیل کی کہ وہ ملک کی سلامتی، بقا، آزادی اور خود مختاری کی خاطر تن من دھن سے احتجاج تحریک میں شرکت کریں۔

☆ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان
Email: asgharpeshawar@gmail.com

WhatsApp: +92333-9142159