اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے سینئر ترین جج سید منصورعلی شاہ نے ایک اورکیس میں ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل کو منگل کے روز طلب کرلیا۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو محکمہ صحت کے ملازمین کو مستقل کرنے کے کیس میں طلب کیا گیا ہے۔ عدالت نے سیکرٹری صحت خیبر پختونخوا کو بھی تما م ریکارڈ کے ہمرہ پیش ہونے کاحکم دیا ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس دوران سماعت ججز کے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ ہم سمری کے پابند نہیں، ہم نے قانون کو دیکھنا ہے۔ جبکہ جسٹس عقیل احمد عباسی نے کہا ہے کہ مدعاعلیہان سے ساری زندگی حکومت نے کام لیا پھر ان کوایک کمپنی کے حوالہ کردیا، ان کوتنخواہ کہاں سے دی جارہی ہے یہ بتائیں، 18سال سے آپ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 1میں کیسز کی سماعت کی۔
بینچ نے سیکرٹری ہیلتھ خیبرپختونخوا اوردیگر کے توسط سے آصف خان، نسیم اعجاز، وسیم جان، وقاص احمد، سریر محمد، فضل غفار، محمد کامران، ڈاکٹر عرب خان، حکیم زادہ، ڈاکٹر محمد شفیق، ڈاکٹر محمد ریاض، دل نواز، ڈاکٹر عارف حسن خان، مسماة شہر بانو، ابراہیم خان، پیر محمد، مشرف خان، شاہد خان،عبدالناصر، مسمات افشاں نسیم، شاہ زیب، حافظ فیصل تنویر، صفی اللہ خان، مینارگل، محمد احسان، محمد عارف، یاز خان، فواد خان، عثمان غنی اور دیگر کے خلاف ملازمین کی مستقلی کے معاملہ پر پشاورہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر 89درخواستوںپر سماعت کی۔ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس پیش ہوئے جبکہ مدعا علیہان کی جانب سے محمد شعیب شاہین، مختاراحمد منیری، امجد علی ، آفتاب عالم یاسر اوردیگر بطور وکیل پیش ہوئے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کاکہناتھا کہ مدعاعلیہان کاتعلق محکمہ صحت سے ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کامدعا علیہان کے وکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ محکمہ صحت کے ملازم نہیں آپ باہر سے آئے ہیں کیسے مستقل کریں۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ ہم سمری کے پابند نہیں، ہم نے قانون کو دیکھنا ہے۔ شعیب شاہین کاکہنا تھا کہ مدعا علیہان 2006سے بطور میڈیکل ٹیکنیشن، ایل ایچ ویز اورکلاس فور ملازمین کام کررہے ہیں۔ شعیب شاہین کاکہنا تھا کہ پی پی ایچ آئی ادارہ قائم کیا گیا اورکہتے ہیں آپ پرائیویٹ ہوگئے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ 2007میں کیا نیا کام ہوا۔ شعیب شاہین کاکہنا تھا کہ ہم براہ راست بھرتی ہوئے ہیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہناتھا کہ ابتدائی تعیناتی کب کی ہے۔ شعیب شاہین کاکہنا تھا کہ ہم پہلے وفاق سے آئے پھر صوبہ میں گئے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھا کہ یہ پراجیکٹ تھا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ 2013میں ایک ایونٹ آتا ہے، ایس آرایس پی آتی ہے۔
جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھاکہ ہائی کورٹ سے ریگولرائزیشن مانگی، ہائی کورٹ نے خارج کردی۔شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے مدعا علیہان کی درخواست خارج کی ہوئی ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ آج سارے کیسز خیبرپختونخوا حکومت کے سماعت کے لئے مقررہیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ ساری زندگی 16سال ان سے کام لیا پھر ان کوایک کمپنی کے حوالہ کردیا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ آپ غلط دستاویز کاحوالہ دے رہے ہیں، 2013کا معاہدہ ہے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھا کہ پہلے یہ صدر کی اسکیم تھی پھر پیپلز اسکیم بن گئی اور پھر سرحد اسکیم بن گئی، کمپنی 2013میں آئی۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہناتھا کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے سارے حقائق غلط بتائے ہیں۔ شاہ فیصل الیاس کاکہناتھا کہ مجھے 10منٹ دے دیں میں کیس سمجھاتا ہوں۔ اس پر جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ پچھلے 15منٹ سے مس گائیڈ کررہے ہیں، 10منٹ مزید نہیں سن سکتے۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ 2010میں آئینی ترمیم آئی تھی، 2006میںکیسے نیچے گیا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھا کہ سرحد کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرکے ان کے حوالہ کیا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ ہم کہتے ہیں کہ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواصبح آئیں اور عدالت کی معاونت کریں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ واضح نہیں مدعاعلیہان وفاق کے ملازم تھے یا ایس آرایس پی کے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی اورسیکرٹری صحت کے پی ریکارڈ کے ساتھ کل (منگل)کے روز پیش ہوں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہناتھا کہ ان کوتنخواہ کہاں سے دی جارہی ہے یہ بتائیں، 18سال سے آپ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ کل (منگل)کے روز یہ کیس پہلے نمبر پر سنا جائے گا۔