محمد بن قاسم سے بھی پہلے پاکستان کی اسلامی تاریخ کے نقطہِ آغاز کا جائزہ لینے والی کتاب ‘المہلب’ کی آئی پی ایس میں تقریبِ رونمائی

اسلام آباد(صباح نیوز)خطہِ پاکستان کی اسلامی جڑیں 664 عیسوی میں المہلب بن ابی سفرا  کی آمد سے ملتی ہیں، جو محمد بن قاسم کے 711 عیسوی میں پہنچنے سے بھی  تقریبا  پانچ دہائیاں پہلے کی بات ہے۔ المہلب نے نہ صرف اسلامی سرحد کو وسعت دی ، بلکہ موجودہ پاکستان کے ثقافتی اور مذہبی منظرنامے کو تشکیل دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

یہ بات وفاقی شرعی عدالت کے عالم جج ڈاکٹر سید محمد انور نے اپنی  نئی تصنیف کردہ کتاب ‘المہلب  خطہِ پاکستان میں اسلام کا پہلا علمبردار’ کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس)، اسلام آباد میں کہی۔ یہ کتاب المہلب بن ابی سفرا کی زندگی اور خدمات کا بصیرت افروز جائزہ پیش کرتی ہے، جو ایک ایسے قابل مسلم جنرل تھے جن کا ذکر ابتدائی اسلامی فتوحات سے متعلق تاریخی گفتگو میں کم رہا ہے۔ تقریب میں ممتاز علما اور دانشوروں نے شرکت کی جن میں گیلپ پاکستان کے بانی ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی، ممتاز ادیب، دانشور اور شاعر پروفیسر جلیل عالی، چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمن ، وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین، سابق وفاقی سیکرٹری سید ابو احمد عاکِف، اور آئی پی ایس کے سینئیر ریسرچ فیلو ڈاکٹر شہزاد اقبال شام  شامل تھے۔ سامعین سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر انور نے المہلب کی غیر معمولی قیادت، ان کی عسکری ذہانت، اور ان کی اہم فتوحات پر روشنی ڈالی، جس میں سفارت کاری اور تنازعات کے حل سمیت غیر متحرک جنگی حکمت عملیوں کے استعمال کا ایسا مظاہرہ بھی شامل تھا جو جدید جنگی حکمت عملیوں اور پانچویں نسل کی جنگی حکمتِ عملیوں کے تناظر میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح المہلب کے خطے میں داخلے کو پاکستان کی اسلامی تاریخ کے نقطہ آغاز کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ المہلب کی فتوحات صرف فوجی فتوحات نہیں تھیں ، بلکہ خطے میں ایک نئی نظریاتی اور ثقافتی لہر کا آغاز بھی تھیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلام اور جنوبی ایشیائی خطے کے درمیان تہذیبی تصادم علیحدگی میں نہیں ہوا، بلکہ یہ “ہندوستان کی اسلامائزیشن اور اسلام کی انڈیجنائزیشن” کے متوازی عمل کا حصہ تھا، جو صدیوں تک جاری رہا۔ خطے کی مقامی تہذیب کے ساتھ اسلام کے تعامل کا مطالعہ کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر جلیل عالی نے نوٹ کیا کہ جب کوئی مذہب کسی نئے خطے میں داخل ہوتا ہے، تو وہ تہذیبی عمل سے گزرتا ہے، اصولوں کو تشکیل دیتا ہے اور مقامی ثقافت سے بھی تشکیل پاتا ہے۔ ڈاکٹر اعجاز گیلانی کا کہنا  تھا کہ “کسی بھی علاقے کی تاریخ اس کی پہلی شناخت ہے”، اور تاریخ کو جامد نہیں بلکہ ایک متحرک بیانیے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جو مستقل طور پر دوبارہ نظرِ ثانی اور تشریح کا متقاضی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اسلامی تاریخ کو چند واقعات اور شخصیات تک محدود نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ پاکستان کا اسلامی ورثہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان متعدد تہوں کو تسلیم کرنا چاہیے جو محمد بن قاسم کے دور سے بہت پہلے تھیں ، لیکن خطے کی تشکیل میں اہم تھیں ۔ ڈاکٹر شہزاد اقبال شام نے کتاب کا جامع جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام پاکستان میں اسلامی تاریخ کے قبل از محمد بن قاسم دور کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے،  جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر میں اسلام کی کہانی اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور متنوع ہے جتنا روائیتی طور پر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کتاب اور اس کے ارد گرد ہونے والی بحث برصغیر کے تاریخی بیانیے کا از سرِ نو جائزہ لینے کی جانب ایک بڑی تحریک کی عکاسی کرتی ہے، اور علما اور قارئین کو  ایسے کرداروں اور واقعات کی کھوج کرنے کی ترغیب دیتی ہے جو عمومی طور پر تاریخ کے پس منظر میں رہے ہیں۔ اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمن نے تاریخی متون اور بصیرت کے ساتھ تنقیدی مشغولیت کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ چیلنج اس طرح کے کاموں کو ایسے آگے بڑھانے میں ہے کہ تاریخی تفہیم معتبر اور قابلِ اعتماد ذرائع پر مبنی ہو۔