اسلام آباد(صباح نیوز)الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے ٹربیونل کی تبدیلی سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے اراکین قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری، انجم عقیل خان اور راجہ خرم نواز کی درخواست منظورکرلی۔الیکشن کمیشن نے اسلام آباد ٹربیونل کی تبدیلی کامحفوظ فیصلہ سنادیا، اسلام آباد کے تین لیگی اراکین اسمبلی نے ٹربیونل پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے تینوں حلقوں میں ٹربیونل جج تبدیل کرنے کی منظوری دے دی۔واضح رہے کہ 7 جون کو اسلام آباد کے انتخابی ٹربیونل کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔اس سے قبل 4 جون کو الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے ٹربیونل کی تبدیلی سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے رہنماوں کی درخواستیں قابل سماعت قرار دے دی تھیں۔اسی روز چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔درخواست گزار طارق فضل چوہدری کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کوڈ آف سول پراسیجر (سی پی سی) کے مطابق ٹربیونل الیکشن کمیشن کے اختیارات کے ماتحت ہے، ایک امیدوار نے جیب سے دستاویز نکالی اور اسے ٹربیونل نے مان بھی لیا، میں ٹربیونل کی زبان پر نہیں جاں گا قانونی نقطے پر رہوں گا، ہم پیش نہیں ہوئے تو جرمانے شروع کردیے گئے، جو ریمارکس دیے گئے ان پر بھی بات نہیں ہوسکتی، فارم 45 جو پیش کیا گیا اس کو کراس چیک کرنے کے بجائے مان لیا گیا۔یاد رہے کہ 3 جون کو اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی نشستوں کے اعلان کردہ فاتحین نے وفاقی دارالحکومت کے واحد پول ٹربیونل کے سامنے زیر التوا انتخابی درخواستوں کو کسی دوسرے ٹربیونل میں منتقل کرنے کی درخواست دائر کردی تھی۔
یہ پیش رفت الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے لیے ایک متنازع آرڈیننس جاری کیے جانے کے بعد سامنے آئی تھی، جس کے تحت الیکشن ٹربیونلز کے طور پر ریٹائرڈ ججوں کی تقرری کے لییالیکشن کمیشن کو اختیار دیا گیا تھا۔چونکہ اسلام آباد میں واحد ٹربیونل ہے اس لیے مقدمات کو دارالحکومت سے باہر منتقل نہیں کیا جا سکتا۔این اے 46، این اے 47 اور این اے 48 سے کامیاب قرار دیے گئے امیدوار انجم عقیل خان، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور راجا خرم شہزاد نے اپنی درخواستوں میں نہ صرف ان کے خلاف الیکشن پٹیشن کسی دوسرے ٹربیونل منتقل کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ ان کی درخواستوں کے حتمی نتائج آنے تک الیکشن ٹریبونل کے سامنے کارروائی روکنے کی بھی استدعا کی تھی۔قانونی صورت حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں ایک ہی الیکشن ٹریبونل ہے اور قانون کے تحت الیکشن کمیشن مقدمات کو اسلام آباد سے باہر کسی ٹربیونل میں منتقل نہیں کر سکتا اور ریٹائرڈ ججوں کو بطور الیکشن ٹربیونل تعینات کرنے کا اختیار دینے والے آرڈیننس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔
درخواست گزاروں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انہیں ٹربیونل سے انصاف نہیں ملے گا جہاں ان کے مقدمات زیر التوا ہیں۔اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ منصفانہ ٹرائل کا حق انصاف کا سنگ بنیاد ہے اور اس میں آئین کے آرٹیکل 10 اے کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی پٹیشن میں کچھ قانونی خامیاں اور نقائص ہیں جو کہ کافی اہم نوعیت کے ہیں اور انتخابی پٹیشن کو خارج کرنے کی ضرورت ہے۔تاہم، ان کا کہنا تھا کہ ٹربیونل نے نہ صرف الیکشن پٹیشن کے تمام مدعا علیہان کو طلب کیا بلکہ سماعت کی پہلی ہی تاریخ میں متعلقہ حکام سے الیکشن کا پورا ریکارڈ بھی طلب کرلیا، اس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی پٹیشن کا درخواست گزار بد نیتی کے ساتھانہیں قانونی حق سے محروم کرنا چاہتا ہے۔