اسلا م آباد(صباح نیوز)وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ ترقی پزیر ممالک کو کم از کم 4.3 ٹریلین ڈالر کی مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں ترقی پزیر ممالک کے جائز مقاصد اور خواہشات پر نارتھ کی طرف سے مثبت جواب کی ضرورت ہے۔باہمی حمایت، یک جہتی اور اتحاد کے بغیر ان میں سے کوئی بھی مقصد پورا نہیں ہوگا۔وزیر خارجہ جی۔77 اور چائنا گروپ کی سربراہی سنبھالنے کے موقع پر تقریب سے خطاب کررہے تھے،
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ میں گنی کے وزیر خارجہ ڈاکٹرموریساندا کویاتے کو گزشتہ برس کے دوران جی۔77 اور چائنا گروپ کی کامیاب قیادت کرنے پر ایک بار پھر مبارک پیش کرتا ہوں۔پاکستان کی طرف سے میں گروپ کے 134 ارکان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس پر آشوب دور میں جی۔77 اور چائنا گروپ کی سربراہی کے لئے میرے ملک پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔
وزیر خارجہ نے کہاکہ گزشتہ پینتالیس برس کے دوران جی۔77 اور چائنا گروپ نے ترقی پزیر ممالک کے معاشی وسماجی اہداف کے حصول میں پیش رفت کے لئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔عالمی معاشی تعاون کے لئے اس گروپ نے کئی تخلیقی تصورات اور طرز فکر پیش کئے جن میں 0.7 فیصد او۔ڈی۔اے ٹارگٹ اور ترقی پزیر ممالک کے لئے تجارت میں ترجیحی اور خصوصی سلوک، انتہائی غریب ممالک کی منڈیوں تک ڈیوٹی فری رسائی جیسے اقدامات شامل ہیں۔
ریوسربراہی اجلاس کے ذریعے پہلی یو۔این۔سی۔ٹی۔اے۔ڈی کانفرنس سے 2030ایجنڈے اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس۔ڈی۔جیز) کی منظوری اور گلاسگو میں منعقدہ حالیہ ماحولیاتی سربراہی اجلاس تک جی۔77 اور چائنا گروپ اور اس کے اراکین عالمی ترقیاتی مذاکرات میں ترقی کا موجب رہے ہیں۔موجودہ مشکل حالات میں ہمارے گروپ کے لئے یہ امرنہایت ضروری ہے کہ ہم مساوات اور شفافیت کی فضا میں اپنے عوام کی خوش حالی کے فروغ اور اسے یقینی بنانے کے لئے گروپ کی اجتماعی کوششوں میں یکجائی و اتحاد برقرار رکھیں۔
قریشی نے کہاکہ آج دنیا گونا گوں مسائل کا سامنا کررہی ہے جن میں کورونا کی عالمی وبا ، اس سے منسلک معاشی انحطاط اور ماحولیاتی تغیر جیسے درپیش خطرات شامل ہیں۔ہم اب بھی مہلک وائرس سے لڑ رہے ہیں جس نے بڑے پیمانے پر انسانی، معاشی اور نفسیاتی نقصان پہنچایا ہے۔ہمارے گروپ نے خبردار کیا تھا کہ اگر ترقی پزیر ممالک سمیت دنیا کے تمام لوگوں کو تیزی سے ویکسین نہ لگائی گئی تو یہ وائرس پھر سے واپس لوٹ آئے گا۔ویکسین فراہمی میں عدم مساوات کی وجہ سے آج یہی کچھ ہم اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اسی بناپر آج ہم ورچوئلی اس اجلاس میں شریک ہیں۔حالات متقاضی ہیں کہ سبق سیکھا جائے۔ ویکسین کی پیداوار اور عالمگیر تقسیم اور صحت کے نظام کی تقویت، شکلیں بدلتے کورونا وائرس سے نمٹنے اور اس وباکے خاتمے کا بہترین طریقہ ہے۔اس وبانے ترقی پزیر ممالک کو بڑے غیرمتناسب انداز میں متاثر کیا ہے۔صحت کے کمزور نظام اور کم وسائل، دونوں نے ہمارے ممالک کے لاکھوں لوگوں کو انتہائی بری طرح متاثر کیا ہے۔
جانوں کے ضیاع کے علاوہ 15 کروڑ لوگ انتہائی غربت میں دھکیلے جاچکے ہیں۔چالیس سے زائد ترقی ممالک پزیر ممالک قرض کے دبا میں ہیں۔ چند پہلے ہی دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ بیس سے زائد ممالک غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ بعض، خاص طور پر افریقہ کے جنگ زدہ علاقوں اور افغانستان میں قحط کا دور دورہ ہے متمول ممالک میں 17 ٹریلین ڈالر کی بڑی مالیاتی مدد سے وہاں کی معیشت کی بحالی ہوچکی ہے جبکہ زیادہ تر ترقی پزیر ممالک اب بھی صدی کی سب سے شدید کساد بازاری ومعاشی ابتری کی گرفت میں ہیں۔جی۔20 کی طرف سے قرض معطلی اور ترقیاتی اداروں کی طرف سے وسیع مالی مدد کے باوجود ترقی پزیر دنیا کو اپنی معیشت چلانے کے لئے 100 ارب ڈالر سے کم ملے ہیں۔امیر ممالک میں طلب کی بحالی اور پروڈکشن و سپلائی چین میں تعطل، تمام مصنوعات اور ضروری اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی کا بوجھ ترقی پزیر ممالک، بالخصوص آبادی کے نادار طبقے کو درپیش مسائل کو مزید دوچند کررہا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہاکہ پائیدار ترقیاتی اہداف اور 2030 ایجنڈا کا حصول کم ازکم ایک دہائی پیچھے چلا گیا ہے۔عالم گیر سطح پر ایک بہت عظیم کوشش درکار ہوگی جس کے ذریعے ترقی پزیر ممالک بحالی کے قابل ہوسکیں گے اور متعین مدت کے اندر پائیدار ترقی کے اہدف کے حصول کی راہ پر واپس گامزن ہوپائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ترقی پزیر ممالک کو کم از کم 4.3 ٹریلین ڈالر کی مدد کی ضرورت ہے۔ یہ وسائل تمام ممکنہ ذرائع سے دستیاب کرنا ہوں گے، اس میں قرض کی تجدید، 0.7 فیصد او۔ڈی۔اے ٹارگٹ کی تکمیل، 650 ارب ڈالر کے نئے ایس۔ڈی۔آرز کی تقسیم نو، آئی ایم ایف اور دیگر کثیرالقومی بینکوں کی طرف سے بڑے حجم میں رعایتی قرض اس میں شامل ہے۔ترقی پزیر ممالک کی بحالی ممکن نہیں ہوسکتی اگر ان کے پاس پہلے سے موجود بجٹ بھی کفایت شعاری سے مزید سکڑ جائے، ان پر توانائی کی قیمتوں کا بوجھ بڑھ جائے اور ان کی کرنسی کی قدر مزید کم ہوجائے۔کسی ملک کو اس کے عوام کی خدمت کرنے سے نہ روکا نہ جائے۔یہ بھی نہایت لازم ہے کہ سٹرکچرل اور پسماندگی کی وجوہات اور بڑھتی عدم مساوات کے عوامل کو حل کیاجائے۔ان میں ایک انتہائی اہم معاملہ ترقی پزیر ممالک سے کھربوں ڈالرز کی ناجائز دولت کا بہا ہے جس کی وجہ سے ترقی پزیر ممالک کی شرح نمو اور ترقی حاصل کرنے کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔ ترقی پزیر ممالک سے لوٹے گئے اثاثہ جات بلاتاخیر اور بلاہچکچاہٹ واپس کئے جائیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہمیں منی لانڈرنگ اور ٹیکس تعاون سے متعلق نئے قوانین بنانا ہوں گے اور اقوام متحدہ کی باڈی قائم کرنا ہوگی جو ایف۔اے۔سی۔ٹی۔آئی پینل کی سفارشات کے مطابق ناجائز سرمائے کے بہا کی نگرانی کرنے کے علاوہ اس کی روک تھام اور واپسی میں کردار ادا کرے۔جی۔77 اور چائنا گروپ کو مساوات اور ترقیاتی اہداف کو آگے بڑھانے کے لئے عالمی مالیاتی ڈھانچے اور عالمی تجارتی نظام میں مناسب اصلاحات کو بھی فروغ دینا چاہئے۔عالمی مالیات اور تجارت کمزور ترین کو پیچھے چھوڑ کر جاری نہیں رہ سکتی۔انہوں نے کہاکہ ہمارے ممالک کو توانائی، ٹرانسپورٹ، مینوفیکچرنگ، زراعت میں ضروری ڈھانچہ کی تیاری کی ضرورت ہے جس سے شرح نمو ممکن ہوسکے۔ترقی پزیر ممالک میں پائیدار انفراسٹرکچر کے لئے سالانہ 1.5 ٹریلین ڈالر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ سرمایہ کاری کے تحرک میں قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے اور اسے یہ کردار اداکرنا ہوگا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ وبا اور اس کے ساتھ ترقیاتی بحران کے علاوہ ماحولیاتی تغیراور موسمیاتی تباہی سے ہماری بقاکو خطرہ درپیش ہے۔ترقی پزیر ممالک کا ماحولیاتی مسائل پیدا کرنے والوں میں، نہ ہونے کے برابر حصہ ہے لیکن اس کے باوجود یہی ممالک اس کے سب سے زیادہ تباہ کن اثرات کا سامنا کررہے ہیں۔صنعتی ممالک نے گلاسگو سی۔او۔پی۔26 میں بڑے جراتمندانہ وعدے کئے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ 2040 تک کاربن کے اخراج میں 45 فیصد کمی، ماحولیات کے لئے سالانہ 100 ارب ڈالر کی فراہمی، ترقی پزیر ممالک جس نقصان اور تباہی کا سامنا کررہے ہیں، اس کے ازالے سے متعلق کیے گئے وعدے کیسے پورے کئے جاتے ہیں۔یہ واضح ہے کہ ان مسائل میں کمی کی بڑی ذمہ داری صنعتی ممالک کو لینا ہوگی۔انہو ں نے کہاکہ ترقی پزیر ممالک کو اس بحران کے حل میں اپنے عوام کی ترقی کی قربانی دینے کے لئے نہیں کہاجاسکتا، جسے صنعتی دنیا نے پیدا کیا ہے۔ماحولیات سے متعلق تمام اقدامات کو عمومی لیکن تعین کردہ ذمہ داری کے اصول پر ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان گروپ کے دیگر اراکین کے ساتھ مل کر کام کرے گا تاکہ ہمارے ممالک کو درپیش کئی طرح کے مسائل کے حل کے لئے جامع اور موثر حکمت عملی تیار کی جاسکے۔مجھے امید ہے کہ ہم رواں سال یوگنڈا میں تیسرا سربراہی اجلاس بلانے کے قابل ہوسکیں گے۔پاکستان یوگنڈا کے ساتھ مل کر سربراہی اجلاس کی کامیابی کو یقینی بنائے گا جس سے گروپ کو آنے والی دہائی کے لئے اپنی پالیسیزاورترجیحات کی تیاری کا موقع ملے گا،اسی موقع پر پائیدار ترقیاتی اہداف پر عمل درآمد کی دہائی کا مرحلہ بھی آرہا ہے۔ہم ہر وہ کوشش کریں گے جس سے جی۔77، اور چائنا گروپ کے امور کار میں تعاون، شفافیت اور تسلسل بڑھے۔نیویارک میں گروپ اوراس کی دیگر مقامات پر قائم مختلف شاخوں کے درمیان فعال شراکت بھی جی۔77، اور چائنا گروپ کے عالمی سطح پر اقدامات میں یکجائی لانے کے لئے ضروری ہے۔اس مقصد کے لئے ہم کوآرڈینیشن کونسل قائم کرسکتے ہیں۔گروپ کو اپنے اتحاد، یکجائی اور یک جہتی کو بڑھانا ہوگا۔یک جہتی کے جذبے کے ساتھ ہمیں ہمارے ہر رکن کی مدد کرنا ہوگی، دیگر ارکان کے مفادات کو سمونا ہوگا۔یک جہتی کے فروغ کے لئے ساتھ ساتھ کوآپریشن ایک اہم ذریعہ ہے۔اس ضمن میں ہم چین کے عالمی ترقی کے اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ہمارے گروپ کے اندر تعاون کی ایسی اور بھی کئی کامیاب مثالیں ہیں ۔ ہمیں نارتھ ساتھ کوآپریشن کو تبدیل کئے بغیر ساتھ ساتھ کوآپریشن کو تقویت دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ممالک اور عوام کو بڑے بڑے مسائل کا سامنا درپیش ہے۔ ہمیں ان پالیسیزکو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو عدم مساوات اور غربت بڑھا رہی ہیں۔ہمیں ترقی پزیر ممالک کے جائز مقاصد اور خواہشات پر نارتھ کی طرف سے مثبت جواب کی ضرورت ہے۔باہمی حمایت، یک جہتی اور اتحاد کے بغیر ان میں سے کوئی بھی مقصد پورا نہیں ہوگا۔ہمارے عوام کے بہتر مستقبل کی تعمیر کی جدوجد میں یہ تین پہلو ہمارے راہنما اصول ہونے چاہئیں۔