جماعت اسلامی کے تحت قبائل کل جماعتی کانفرنس نےبیس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ جاری کردیا

پشاور (صباح نیوز) جماعت اسلامی کے تحت قبائل کل جماعتی کانفرنس نے قبائلی اضلاع کے حقوق کے لئے  بیس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ جاری کردیا، قبائلی اضلاع میں دیگر علاقوں کی سطح کی ترقی  ہونے تک ہر قسم کے ٹیکسز سے استثنی دیا جائے   ،حکومت سالانہ 100 ارب اور 10 سالوں میں 1000 ارب روپے دیکر وعدہ پورا کرے۔قبائلی اضلاع کو این ایف سی ایوارڈ کا 3 فیصد حصہ جلد فراہم کیا جائے، نئے ضم اضلاع  کے انتظامی دفاتر اور عدالتیں اپنے اپنے ضلع میں منتقل کیے جائیں اور ڈی سی کو اپنے ضلع میں بیٹھنے کا پابند بنایا جائے،قبائلی اضلاع میں افغانستان کی طرف تمام تجارتی راستے کھول دیئے جائیں قبائلی اضلاع  کے وعدے کے مطابق  کم از کم 30 ہزار مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے۔

کانفرنس جماعت اسلامی کے صوبائی ہیڈ کوارٹر المرکز الاسلامی پشاور کے مودودی  ہال میں منعقد ہوئی ۔اعلامیہ قبائل آل پارٹیز کانفرنس میںکہا گیا ہے کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع میں امن و امان  کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔روزانہ کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ  و قتل و غارت  کے واقعات ہو رہے ہیں اور یوں لگ رہا ہے کہ یہاں پر جان بوجھ کر حالات  خراب کیے جا رہے ہیں اسلئے ضروری ہے کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کو  ترجیح اول کے طور لیا جائے اورقیام امن کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔انضمام سے پہلے قبائلی علاقوں کو ٹیکس فری زون قراردیا گیا تھا۔ 25 ویں آئینی ترمیم پاس ہوتے وقت حکومت نے 5 سال کے لیے قبائلی علاقوں اور ملاکنڈ کو ٹیکس سے استثنی دیا، اب اس کی   میعاد 31 مئی کو پوری ہو رہی ہے, ہمارا مطالبہ ہے کہ جب تک قبائلی اضلاع ملک کے دیگر علاقوں کی سطح کی ترقی نہیں دی جاتی اس وقت تک ہر قسم کے ٹیکسز سے استثنی دیا جائے۔قبائلی اضلاع کی پسماندگی کو دور کر کے پاکستان کے دیگر اضلاع کی طرح ترقی دی جائے۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت فاٹا اصلاحات پر سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات سے مختلف حیلے بہانے بنا کر بھاگ رہی ہے جو کہ قبائلیوں کی حق تلفی ہے حکومت فوری طور پر کمیٹی کے سفارشات پر من و عن عمل کرتے ہوئے سالانہ 100 ارب اور 10 سالوں میں 1000 ارب روپے دیکر وعدہ پورا کرے۔قبائلی اضلاع کا قومی وسائل پر اتنا ہی حق ہے جتنا دوسرے صوبوں کا اسلئے این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کردہ 3 فیصد حصہ جلد   فراہم کیا جائے۔ قبائلیوں کے حق رائے دہی کا احترام کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی 12 اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 16 سے بڑھا کر 24  کی جائیں۔قبائلی اضلاع میں معدنیات پر قبائلیوں کے حق کو تسلیم کیا جائے اورقبائلی اضلاع کے معاشی استحکام کے لئے ناگزیر ہے کہ لیز” کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے۔ نئے ضم اضلاع  میں  بعض اضلاع کے انتظامی دفاتر اور عدالتیں اضلاع سے باہر ہیں، انہیں فوری اپنے اپنے ضلع میں منتقل کیے جائیں اور ڈی سی کو اپنے ضلع میں بیٹھنے کا پابند بنایا جائے۔

مزید مطالبہ کیا گیا ہے کہ قبائلی اضلاع کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقعے فراہم کرنے کیلئے بلا سود قرضے دیئے جائیں۔قبائلیوں کی ملک کی خاطر قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کے معزز شہری کا حق دیا جائے۔حالیہ مردم شماری میں قبائل کی آبادی حقیقی آبادی سے کم شمار کی گئی ہے، یہ امتیازی سلوک ہے، لہذا قبائل کی آبادی کو صحیح طریقے سے شناختی کارڈ کے مستقل پتے پر شمار کیا جائے۔ قبائلی اضلاع میں مسمار گھروں کیلئے معاوضے کی فوری ادا ئیگی یقینی بنائی جائے۔قبائلی اضلاع کیلئے وعدے کے مطابق  کم از کم 30 ہزار مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے۔ قبائلی اضلاع میں معاشی ترقی کیلئے منصوبوں کو حتمی شکل دی جائے اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔قبائلی اضلاع میں تعلیمی انقلاب لا کر غیر مثبت سرگرمیوں کو کچلا جاسکتا ہے، اسلئے ناگزیر ہے کہ ہر ضلع میں یونیورسٹیاں، کالجز اور سکولز بنائے جائیں اور تباہ شدہ انفراسٹر کچر کو بحال کیا جائے۔

قبائلیوں کا بھی حق ہے کہ دیگر پاکستانیوں کی طرح ان کو بھی صحت کی سہولیات  گھر کی دہلیز پر میسر ہوں لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ 20 ہزار مربع میل کے علاقے  میں کوئی میڈیکل کالج اور بڑا ہسپتال نہیں، لہذا فوری صحت کی سہولیات دینے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔قبائلی نوجوانوں کو تعلیم کے حصول میں آسانیاں فراہم کی جائیں اور ان کیلئے وظائف کا اجرا   کیا جائے۔ کھیلوں کو غیر مثبت سرگرمیوں کے خلاف بہترین ہتھیار قرار دیا جاتا ہے اور یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کرکٹ سمیت ہر گیم میں قبائلیوں نے اپنا لوہا منوایا ہے اس لیے ہر تحصیل کی سطح پر گراؤنڈ بنائے جائیں۔ قبائلی اضلاع میں معطل شدہ خاصہ دار فورس کو بحال کیا جائے۔قبائلی اضلاع میں افغانستان کی طرف تمام تجارتی راستے کھول دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔